راقم الحروف : زاہدہ خانم سرنکوٹ پونچھ
کوئی بھی قوم اس وقت روبہ زول ہوتی ہے جب وہ من وعن غداری پہ اتر آئے ضمیر فروشی وطیرہ بن جائےتو قوم اپنی شناخت کھو جاتی ہے دیگر اقوام کی طرح قوم مسلم بھی غداری پہ آئی تو مسلمانوں کا زوال شروع ہوا جب سے اپنوں نے غداروی شروع کی جس قوم میں اپنے غدار ہوتے ہیں وہ قوم زوال کو کبھی نہیں روک سکتی۔انسان گھر کے پہرے کے لیے کتُا رکھتا ہے جس گھر کا کُتا وفادار ہوتا ہے اُس گھر کا نقصان کوئی نہیں کر سکتا ہے ۔ کُتے کو لوگ شوق سے گھر میں پالتے ہیں کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کے گیدڑ کسی نے پالا ہو کُتے اور گیدڑ میں فرق صرف وفاداری کا ہے لیکن جس دن کُتے اور گیدڑ کی دوستی ہو جاتی ہے اُس دن کتے اور گیدڑ میں کوئی فرق نہیں رہتا گڈریا جنگل کے نزدیک اپنے مال کو چھوڑ دیتا ہے کتوں کے بھروسے پر اگر کتنے میں وفاداری نہ ہو تو مال کو نقصان سے کون بچا سکتا ہے
افسوس مجھے کُتے کی وفاداری کی مثال اشرف *المخلوقات* کے سامنے دینی پڑ رہی ہے ہمارے معاشرے میں بھی بالکل ایسا ہی ہے گھر کے کُتوں کی دوستی گیدڑوں سے ہو جاتی ہے جس کو گھر کے حفاظت کے لیے رکھا ہوتا ہے وہ گیدڑوں کے ساتھ مل کر تباہی میں شامل ہو جاتے ہیں ہماری تباہی میں ہمارے ہی گھر کا ہاتھ ہے کیوں کے انسان کی منزل کا پتہ منزل کی طرف جانے والے راستوں کی خبر صرف اور صرف گھر والوں یا صلاح کاروں کو ہوتی ہےاگر گھر والے اور صلاح کار وفادار نہیں ہوں گے تو وہ آپ کا سہارا نہیں بنیں گے بلکہ راستوں میں کانٹے بچھائیں گے اگر وفادار ہو گے تو کانٹے اُٹھائیں گے اور پھول بچھائیں گے
جب کلہاڑی تنہا تھی تو جنگل پریشان نہیں تھا جب کلہاڑی کے پیچھے لکڑی لگی تو اُس وقت جنگل کے آنسوں نکلے اب میری مضبوط سے مضبوط جڑیں بھی نہیں رہیں گی مجھے کاٹنے میں اب میرے اپنے کا ہاتھ ہے مضبوط سے مضبوط لوہے کوآخر لوہا ہی کاٹتا ہے جب آپ قوم کی قیادت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو آپ میں اتنی سمجھ ہونی چاہیے کے کون قوم کا بھلا کر سکتا ہے اور کون غدار ہے آنکھیں بند کر کے بھروسہ مت کریں یہ دیکھیں کے کون قوم کی بھلائی چاہتا ہے اور کون اپنے مفاد کے لیے کام کرتا ہے جو لوگ اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں اُن کا قوم سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا وہ قوم کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا ہے کہتے ہیں ٹیپو سلطان کی ہار کی وجہ دو غدار تھے اسکے بعد بیس کروڑ انسانوں کو صرف ستر ہزار انگریزوں کی دو سو سال غلامی کرنی پڑی
راستے میں کنکر ہو تو اچھا جوتا پہن کے چلا جا سکتا ہے لیکن اگر کنکر جوتے میں ہوں تو اچھی سڑک پر بھی چلنا مشکل ہے انسان کو باہر کے دشمن باہر کی مشکلات نہیں ہرا سکتی بلکہ انسان کو اپنی اندرونی کمزوریاں ہرا دیتی ہیں اپنے اندرونی غداروں کا پہچاننا بہت ضروری ہے کامیابی کے لیے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ اُن کی غداروں پر بہت گہری نظر تھی دشمن سے زیادہ اپنوں پر نظر ہوتی تھی
ہمارا مسلہ یہ ہے ہم غداروں کو دوست سمجھتے رہتے ہیں پہچان نہیں سکتے ہمیں تب ہی خبر ہوتی ہے
جب غداری کا کینسر غداری کا زہر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے جب جان لے لیتا ہے تب ہی پتہ چلتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کے جب بیماری تھوڑی سی ہے نظر آئے اُس کا علاج کیا جائے بلکہ اُسے جڑ سے ہی مٹایا جائے
ہم جب اپنوں کی کوئی غلطی دیکھتے ہیں اُسے نظر انداز کر دیتے ہیں اور وہی غلطی آگے جا کر ہمیں لے ڈوبتی ہے ہم اُس کا حل نہیں نکالتے ہیں۔ ہمیں لاپرواہی نہیں کرنی چاہیے سب سے پہلے ہمیں اپنی اندرونی کمزوریوں کا محاسبہ کرنا چاہیے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنی چاہیے
جو انسان حقیقی معنوں میں قوم کی بھلائی کرنا چاہتے ہیں جو قوم کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں وہ خود نقصان اُٹھاتے ہیں لیکن آنے والی نسلوں کا سودا نہیں کرتے ہیں وہ پھولوں کے ساتھ کانٹوں کی طرح کھڑے ہوتے ہیں قوم ایک پھول کی طرح ہوتی ہے قوم کے رہنما کانٹوں کی طرح اُس کی حفاظت کرتے ہیں اور پھول کھل کر گلشن کو مہکا دیتے ہیں اگر رہنماؤں کے ساتھیوں میں سے ایک بھی غدار ہو گا تو پھول کھیلتے سے پہلے ہی کُچل دئیے جائیں گے ہماری قوم کے زوال میں اپنوں کا ہی کردار ہے اس قوم کو کمزور کرنے میں اپنوں کا ہی کردار ہے اس قوم کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور اپنوں نے ہی کیا ہے سراج الدولہ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا میرے ہی چراغ سے میرا گھر راکھ ہو جائے ٹیپو سلطان کو کوئے کبھی نا ہرا سکتا تھا اگر اپنے غدار نہ ہوتے اگر اپنے ذہنی غلام نہ ہوتے اگر وفادار سپاہی ہوتا جب گھر کے راز غیروں تک پہنچتے ہیں تو گھر اُجڑ جاتے ہیں زندگیاں برباد ہوتی لیکن صرف چند ہی زندگیاں۔ لیکن جب قوم کے رہنماؤں کے راز باہر نکلتے ہیں تو پوری قوم برباد ہو جاتی ہے میر جعفر غدار اگر نہ ہوتا تو مسلمانوں کی غلامی کا شاہد نام تک نہ ہوتا اگر آپ انقلاب۔ چاہتے ہیں تو آپ کے ساتھ سنجیدہ اور وفادار ساتھی ہونے چاہیے آپ کو اُن لوگوں کو چُننا ہے جو آپ کے راز رکھ سکیں ایسے لوگوں سے دور رہنا ہے جو آپ کے راز دشمن کو بتائیں اپنوں کی ہر غلطی معاف کر دینا لیکن غداری کبھی معاف نہ کرنا آپ کو ایسے ساتھیوں سے دور رہناں ہے جو آپ کی انقلابی تحریک کو کمزور کریں جو ذاتی مقصد کے لیے ضمیر بیچ دیں دشمن اتنی جلدی نہیں ہرا سکتا ہے جتنا کے ایک غدار ساتھی ہرا سکتا ہے کیوں کے دشمن کو اپکی کمزوری کا پتہ نہیں ہے ساتھی کو اپکی ہر کمزوری کا پتہ ہے جس کا فائیدہ اٗٹھا لیتا ہے آپنی قوم میں وفاداری پیدا کریں اپنی کمزوریوں کی نشان دہی کریں اور ان کا حل نکالیں
پہلے کھڑا ہونا سیکھں پھر چلیں پہلے اپنی آستینیں جھاڑو کیا کوئی دشمن تمہاری استین میں تو نہیں پل رہا ہے کیا کسی سانپ کو تو نہیں دودھ پلا رہے
غداری جاسوسی سے اپنی صفوں کو محفوظ کریں یہ سوچیں دیکھیں کے کہیں کوئے دشمن کے ساتھ تو نہیں ملا ہوا کسی کی حرکتوں سے دشمن کو طاقت تو نہیں مل رہی ہے جب دشمن کسی طریقے سے کامیاب نہیں ہو سکتا ہے تو پھر وہ سہارے ڈھونڈتا ہے ہمیں جب جب بھی نقصان پہنچا ہے سہاروں کے ذریعے پہنچا ہے اور میں اپنے ہر مسلمان فرد کو کہتی ہوں خدا کا واسطہ ہے غداری نہ کریں تمہاری غداری کا نتیجہ ہے کہ اج فلسطین میں اتنا ظلم ہو رہا ہے اج مسلمان در در کی ٹھوکر کھا رہے ہیں ہم غیروں سے کیا شکوہ کریں ہمیں اپنو نے لوٹا ہے۔ اگر انگریزوں سے غدار نہ ملتے تو اج ہندوستان کا مسلمان ہر طریقے سے کمزور نہ ہوتا اج مسلمانوں کی مسجدیں نہ گرائی جاتیں آج سیاسی معاشی طور پر مسلمان اتنے کمزور نہ ہوتے