پدما جوشی,اجمیر، راجستھان
”ناچن باڑی“ راجستھان کے اجمیر ضلع میں واقع گھوگھرا پنچایت کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں میں کالبیلیا برادری کی اکثریت ہے۔ شیڈولڈ ٹرائب کے طورپررجسٹرڈ اس کمیونٹی کے یہاں تقریباً 500 گھر ہیں۔ 2008-09 میں ان کے پاس صرف 70 سے 80 مکانات تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی آبادی بڑھتی چلی گئی کیونکہ وہ مستقل طور پر یہاں آباد ہو گئے۔ اس کمیونٹی کی خواتین صحت کے حوالے سے پہلے کی نسبت زیادہ باشعور ہو گئی ہیں۔ جبکہ پہلے خواتین گھر میں بچے کو جنم دیتی تھیں اب سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاتی ہیں۔ کمیونٹی میں حاملہ خواتین کی صحت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً ٹیکے لگواتی ہیں۔ یہی نہیں، مائیں اپنے بچوں کو ٹیکے لگوانے کے لیے وقت پر ہسپتال جاتی ہیں۔ تاہم، لڑکیوں کی کم عمری کی شادی اب بھی اس کمیونٹی کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی بار ڈیلیوری کے دوران اس کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اسی برادری سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ سمترا کے تین بچے ہیں۔ بڑا بیٹا سات سال کا ہے جبکہ چھوٹی بیٹی ابھی آٹھ ماہ کی ہے۔ اس کی شادی محض 16 سال کی عمر میں ہوئی۔ تینوں بچے ہسپتال میں ہوئے۔ سمترا کی ساس بتاتی ہیں کہ وہ ماں اور بچے کی بہتر صحت کے لیے اسے باقاعدگی سے ہسپتال لے جاتی ہیں۔ سمترا کی پڑوسی 26 سالہ ریکھا کی بھی 17 سال کی عمر میں شادی ہوگئی۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کے دونوں بچے مدار (ناچن باڑی کے قریب ایک گاؤں) کے ایک مشنری ہسپتال میں پیدا ہوئے۔ جہاں کم قیمت پر اچھی سہولیات کے ساتھ ڈیلیوری کی جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ زنانہ ہسپتال (ضلع ہسپتال) میں سب کچھ مفت کیا جاتا ہے۔ لیکن وہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار ڈیلیوری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے وہ مدار جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم اگر کسی سرکاری اسپتال میں لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے نام پر حکومت کی جانب سے پچاس ہزار روپے جمع کرائے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ریکھا نے اپنے بچوں کی پیدائش کے لیے ایک پرائیویٹ اسپتال کا انتخاب کیا۔
تاہم ریکھا کے برعکس 22 سالہ روشن کا کہنا ہے کہ ان کی شادی سات سال قبل ہوئی تھی۔ اس کے دونوں بچے ضلع اسپتال میں پیدا ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بچے سرکاری ہسپتال میں پیدا ہوتے ہیں تو ان کا برتھ سرٹیفکیٹ بنوانا آسان ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی ویکسینیشن آسانی سے ہو جاتی ہے بلکہ مستقبل میں سکول میں داخلے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ 25 سالہ ممتا اس کے خیالات کی تائید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ حکومت ضلعی اسپتال میں ڈلیوری کے لیے اچھے انتظامات کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن بہتر انتظامی نظام نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو اکثر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اہل خانہ کسی نہ کسی طرح پیسوں کا بندوبست کرنے کے بعد پرائیویٹ اسپتالوں میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔اگرچہ کالبیلیہ برادری نے مستقل طور پر ناچن باڑی میں رہنا شروع کر دیا ہے لیکن آج بھی یہ برادری معاشی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔گاؤں کے زیادہ تر مرد اور خواتین مقامی چونے کے بھٹے پر روزانہ مزدوری کرتے ہیں۔ جہاں دن بھر محنت کرنے کے بعد بھی انہیں صرف اتنی اجرت ملتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی کفالت کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کمیونٹی کے بہت سے بزرگ مرد اور خواتین آس پاس کے دیہاتوں سے بھیک مانگ کر گزاراکرتے ہیں۔ کمیونٹی میں کسی کے پاس کھیتی باڑی کے لیے اپنی زمین نہیں ہے۔ ان کے خانہ بدوش طرز زندگی کی وجہ سے اس کمیونٹی کے پاس پہلے کوئی مستقل رہائش نہیں تھی۔ تاہم، بدلتے وقت کے ساتھ، کالبیلیہ برادری نے ناچن باڑی کے علاوہ کچھ اور جگہوں پر مستقل طور پر رہائش اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر کے پاس اپنی زمین لیز تک نہیں ہے۔ کچھ خاندانوں کے پاس جاب کارڈ ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے کوئی کام نہیں ملتا۔
پہلے کی نسبت ان میں تعلیم کے بارے میں بیداری میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن یہ کمیونٹی اب بھی لڑکیوں کو اسکول سے آگے کی تعلیم فراہم کرنے کے معاملے میں محدود سوچ رکھتی ہے۔ اگرچہ تعلیم کے بتدریج پھیلاؤ نے یقینی طور پر اس کمیونٹی میں صحت کے حوالے سے ذہنیت کو فروغ دیا ہے۔ اسی برادری سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ روینہ نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ تعلیم کا اثر ان کے کلام میں نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو اپنی صحت کا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر دوران حمل انہیں کھانے پینے کی عادات کا خیال رکھنا چاہیے اور مکمل ویکسینیشن کرنی چاہیے تاکہ ماں اور بچہ دونوں صحت مند رہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے سال ضلع ہسپتال میں اس کی ڈیلیوری ہوئی تھی۔ جہاں اس نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا۔ اس دوران انہیں حکومت کی طرف سے مالی امداد بھی ملی۔تاہم ضلع اسپتال میں 26 سالہ میوا اور اس کی ساس کملا کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ میوا بتاتی ہیں کہ ان کی شادی 16 سال کی عمر میں ہوئی۔ اس کے تینوں بچے ضلع اسپتال میں پیدا ہوئے۔ لیکن ہسپتال کے عملے کے رویے کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی کمیونٹی کی خواتین کو ہسپتال میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شعور کی کمی کی وجہ سے ان کا علاج بہتر نہیں ہوتا ہے۔ ہسپتال کا عملہ انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد وہ اسے ٹیکے لگوانے کے لیے نجی اسپتال لے گئی۔میوا کی طرح 20 سالہ سورما بھی اپنا تجربہ بیان کرتی ہیں کہ ان کے دو بچے نجی اسپتال میں پیدا ہوئے جبکہ ایک بچہ گھر میں پیدا ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ اب کالبیلیہ برادری کی خواتین اپنی صحت کے حوالے سے پہلے سے زیادہ باشعور ہو گئی ہیں۔ معاشرہ معاشی طور پر بہت کمزور ہونے کے باوجود اس میں صحت کے حوالے سے بیداری پیدا ہوئی ہے۔ گھر والے بچے کی پیدائش گھر کی بجائے ہسپتال میں کروانا پسند کرتے ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں زیادہ پیسے خرچ کرپرائیویٹ ہسپتال ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ گھر کے مرد بھی اس معاملے میں بہت خیال رکھتے ہیں۔ لیکن کم عمری میں لڑکیوں کی شادی اس کمیونٹی کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
اس سلسلے میں گاؤں کی آنگن واڑی کارکن اندرا اپنا تجربہ بتاتی ہیں کہ وہ دس سال سے زیادہ عرصے سے اس گاؤں میں آنگن واڑی ورکر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس وقت کے دوران، انہوں نے کالبیلیہ کمیونٹی میں نہ صرف سماجی بلکہ صحت کے حوالے سے بھی بیداری میں اضافہ دیکھا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ پچھلی دہائی میں اس معاشرے کی سوچ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ یہ کمیونٹی اب خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچے کی پیدائش کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہو چکی ہے۔ پہلے یہاں ہوم ڈیلیوری کو ترجیح دی جاتی تھی۔ گھریلو پیدائش نجی اور غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ذریعہ کرائی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات ماں اور بچے کی جان خطرے میں پڑ جاتی تھی۔ لیکن اب یہ معاشرہ ڈلیوری کے لیے ہسپتال کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کی خواتین خود ہسپتال جاتی ہیں یا وقت پر ویکسینیشن کے لیے ان سے رابطہ کرتی ہیں۔
معاشی طور پر کمزور ہونے کے باوجود کلبلیا معاشرے میں خواتین کی صحت کے تئیں سنجیدگی اس کی بیداری کی علامت کہی جا سکتی ہے۔ ہسپتال میں ڈیلیوری کو ترجیح دینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے کی جانے والی کوششیں درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ لیکن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کرنے اور جلد ماں بننے کا تصور آج بھی اس معاشرے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے لڑکیوں کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تمام تر ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں چھوڑی جا سکتی بلکہ اس شعبے میں کام کرنے والی تمام رضاکار تنظیموں اور ترقی یافتہ سوچ رکھنے والے معاشرے کو بھی آگے آنا ہو گا اور اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ (چرخہ فیچرس)