’موجودہ حکومت آئین کے ذریعہ مسلمانوںکو دی گئی مذہبی آزادی کو چھین لینا چاہتی ہے‘

0
161

ہم وقف قانون میں ایسی کسی ترمیم کو ہرگزقبول نہیں کرسکتے جس سے وقف کی حیثیت اوروقف کی منشا بدل جائے : مولانا ارشدمدنی
کہاحکومت وقف کی حیثیت اورنوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ اس پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے
لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ 2013میں تقریبا چالیس ترمیمات کے ساتھ نیا وقف ترمیمی بل 2024پارلیمنٹ میں پیش کرنے جارہی ہے ، یہ ترمیمات کس نوعیت کی ہیں جس کی ابھی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے ، تاہم جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اس ترمیمی بل پر اپنے تحفظات اورخدشات کا اظہارکرتے ہوئے ایک بیا ن میںکہا ہے کہ جس اندیشہ کا اظہارکیاجارہاہے کہ ان ترمیمات کے ذریعہ مرکزی حکومت مسلم وقف جائدادوںکی حیثیت اورنوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کرکے مسلم وقف کی حیثیت کو ختم کرناآسان ہوجائے۔ انہوںنے کہا کہ ہم ایسی کسی ترمیم کو جس سے وقف کی حیثیت اوروقف کی منشابدل جائے ہرگزہرگزقبول نہیں کرسکتے ۔
جمعیۃعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف جائدادیں مسلمانوںکے بزرگوںکے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں جنہیں مذہبی اورمسلم خیرات کے کاموںکے لئے وقف کیا گیاہے ، حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے ۔ جمعیۃعلماء ہند وقف ایکٹ 2013میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائدادوں کی حیثیت اورنوعیت بدل جائے یا اسے قبضہ کرلینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہر گزقابل قبول نہیں ہے ۔ اسی طرح وقف بورڈوںکے اختیارات کو کم یا محدودکرنے کو بھی ہم منظورنہیں کرسکتے۔انہوںنے کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے طرح کے حیلوں اوربہانوںسے مسلمانوں کو انتشار اورخوف میں مبتلارکھنے کے لئے ایسے ایسے نئے قانون لارہی ہے جس سے صریحاًشرعی امورمیں مداخلت ہوتی ہے ، حالانکہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلمان ہر خسارہ برداشت کرسکتاہے ، لیکن اپنی شریعت میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا۔
مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ یہ ایک طرح سے مسلمانوںکو دیئے گئے آئینی اختیارات میں دانستہ مداخلت ہے۔ آئین نے ہر شہری کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی امورپر عمل کرنے کا مکمل اختیاربھی دیاہے اورموجودہ حکومت آئین کے ذریعہ مسلمانوںکو دی گئی اس مذہبی آزادی کو چھین لینا چاہتی ہے ۔ مولانا مدنی نے آگے کہاکہ مسلمانوںنے جو وقف کیا ہے اورجس مقصدکے لئے وقف کیا ہے واقف کے منشاکے خلاف استعمال نہیں کرسکتے ہیں ، کیونکہ یہ پراپرٹی وقف علی اللہ ہوتی ہیں ، حکومت کی نیت خراب ہے ہمارے مذہبی مسائل میں دخل دینا چاہتی ہے ،اورمسلمانوںکی اربوں کھربوں کی جائدادوںکو ہڑپ کرنا چاہتی ہے ، جیسا کہ اس نے ماضی میں خواہ وہ یوسی سی کامسئلہ ہو ، یا طلاق کا مسئلہ ہویا نان نفقہ کا مسئلہ ہو، اس نے اس میں دخل دیا ہے ،ہمیں ایسی کوئی ترمیم منظورنہیں جو واقف کے منشاء کے خلاف ہویا جو وقف حیثیت کو بدل دے ۔ اب اس وقت گورنمنٹ اوقاف کے دستورمیں ترمیم کی تجویز لاکر مسلمانوں کے مذہبی مسئلہ میں دخل دینے کی کوشش کررہی ہے لیکن جمعیۃعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف ایکٹ 2013میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائدادوںکی حیثیت یانوعیت بدل جائے یا کمزورہوجائے یہ ہرگز قابل قبول نہیںہے۔
جمعیۃ علماء ہند نے ہر دور میں وقف املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مؤثر اقدامات کئے ہیں، اور آج بھی ہم اس عہدکے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان گورنمنٹ کے ہر اس منصوبے کے خلاف ہوںگے جو جائداد موقوفہ کی حفاظت کی ضمانت نہ دیتا ہو اور جس کاا ستعمال واقف کے منشا کے خلاف ہو۔ ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینے کے لئے خود کو تیار کرچکے ہیں۔کیوں کہ جمعیۃ علماء ہند اسلاف کے اثاثوں کی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جاری رہنے والی تباہی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔
وقف کی شرعی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ شریعت اسلامی کے مطابق مذہبی ،فلاحی یا اسلام کے خیراتی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے منقولہ یا غیر منقولہ جائدادوں کے مستقل عطیہ کا نام وقف ہے، جو ایک بار قائم ہونے کے بعد کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ایک بار وقف کا اطلاق ہونے کے بعد واقف ،جائداد موقوفہ کا مالک نہیں رہتا بلکہ وہ جائداد اللہ کی ملکیت میں منتقل ہوجاتی ہے۔لیکن گورنمنٹ برابرخعد دہلی میں مساجد کو شہیدکرارہی ہے اورحضرت نظام الدین میں تکونہ قبرستان پر سیکڑوں کروڑکے وقف قبرستان پر قبضہ کرنے کے قریب ہے ۔ انہوںنے موجودہ حکومت میں شریک ان سیاسی پارٹیوںکو خبردارکیا جو خودکو سیکولرکہتی ہے کہ وہ ایسے کسی بھی بل کو پارلیمنٹ میں منظورنہ ہونے دیں اوراس کی مخالفت کریں ۔انہوںنے کہا کہ ان سیاسی پارٹیوںکو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کی سیاسی کامیابی کے پیچھے مسلمانوںکا بھی ہاتھ ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا