مفلس مریض علاج کیلئے پریشان رہتا ہے

0
182

محمد اعظم شاہد
خستہ حال ، مفلس اور بے کس مریضوں کی سرکاری اسپتالوں میں جو درگت ہوتی رہی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ ملک میں بیماریوں کے علاج کے لئے اسپتالوں کی قلت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ چند سال قبل کورونا کی مہلک وباء کے دوران سرکاری اسپتالوں کی ناکارہ کارکردگی کھل کر واضح ہوئی تھی۔ اسپتالوں میں انتظامی ڈھانچہ infrastructure کی کم یابی ، ماہر ڈاکٹروں کی قلت، دوائیوں اور علاج کے لئے لبما انتظار یہ تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سب سے اہم خامی سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی مریضوں کے تئیں بے توجہی اور بے نیازی رہی ہے۔ کئی ماہر ڈاکٹروں کے پاس سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے امراض کی تشخیص اور علاج کے لئے فرصت ہی نہیں رہتی۔ وہ با اثر احباب اور سیاستدانوں کی خوشامد میں ان کا علاج کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ فوری علاج کے منتظر بے بس مریضوں کو اپنے علاج کے لئے جس کے وہ مستحق ہیں، اسپتالوں میں جو نیم طبی عملہ (جو ڈاکٹروں کی دلالی کرتا ہے) کے توسط سے ڈاکٹروں کی جیب گرم کرنی پڑتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو انتظار کی قطار (لسٹ) میں ان کا نام آنے تک غیر معمولی تاخیرکے نتیجے میں مرض کی تشویش بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے رشوت کا بازار سرکاری اسپتالوں میں گرم ہوتا رہتا ہے۔ اکثر ڈاکٹروں کی لاتعلقی اور بے توجہی سے مریضوں کی بیماریوں کی صحیح تشخیص بھی نہیں ہوپاتی ہے۔ اس mis diagnosis اور تشخیص میں تاخیر delayed diagnosis سے معقول علاج اور صحتیابی میں تاخیر ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اور کبھی اس بے توجہی کے باعث مریضوں کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ سات سال قبل منظر عام پر آئی ایک متعلقہ رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ مرض کی تشخیص میں تاخیر اور غلط تشخیص سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی گئی تھی۔ مریضوں سے بھرے پرہجوم سرکاری اسپتالوں میں اپنی بیماری کا علاج کروانے کئی آزمائشی مراحل سے مریض کو گزرنا پڑتا ہے۔ سطح غربت سے نیچے BPL کنبوں کے احباب کے لئے سرکار کی جانب سے علاج کے لئے خصوصی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ مگر ان سہولیات سے فیض یاب ہونے کے لئے مریضوں کو کئی دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ لمبی لمبی قطاروں میں دن کے پہلے پہر قطاروں میں کھڑے بے بس مریضوں کے درمیان کوئی سیاسی سفارش لے کر جھٹ سے ڈاکٹروں کے کمرے میں داخل ہوجاتا ہے اور سب کے لئے یکساں سہولیات کا غلط استعمال اور فائدہ حاصل کرکے لوٹ جاتا ہے۔ کئی منتظر آنکھیں یہ تماشہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔


لے دے کے علاج کے لئے کم آمدنی والے طبقہ کے پاس سرکاری اسپتالوں کے علاوہ کوئی اور متبادل ذریعہ نہیں ہوتا۔ ان اسپتالوں میں علاج کے لئے مارے مارے پھرنے والے مریضوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مفلس بیمارہونے سے اور اپنے علاج کے لئے ڈرتاہے۔ وہ مسلسل خوف زدہ رہتا ہے، حکومت اسپتالوں میں سہولیات فراہم کرنے پر وہ توجہ نہیںدے پارہی ہے جتنی کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کھلے عام اپنی ذاتی (پرائیویٹ پریکٹس) کرتے ہیں اور اپنے ماتحت ماہر جونیئر عارضی ڈاکٹروں پر انحصار کرتے ہیں۔ جونیئر ڈاکٹروں کے بھی کئی مسائل ہیں۔ ان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں۔ ایسے میں جو استحصال نوجوان ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں دیکھتے ہیں وہ بہتر مواقع حاصل کرنے یا تو پرائیویٹ کارپوریٹ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں یا پھر ملک کے باہر بیرونی ممالک میں ملازمتیں اختیار کرتے ہیں۔ اس صورتحال کو قابو میں رکھنے سے قاصر مرکزی اور اکثر ریاستی حکومتیں ڈاکٹروں کی قلت کا رونا روتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں طبی (علاج کی) سہولیات کی صورتحال بھی افسوسناک ہے۔ ان علاقوں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث کوئی ڈاکٹر وہاں ملازمت کرنا نہیں چاہتا۔ دیہی طبی مراکز (رورل اسپتالوں) میں علاج کے لئے سہولیات کی کمی بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر دیہی علاقوں سے تشویشناک صورت میں فوری علاج کے لئے مریضوں کو ایمبولینس میں شہروں میں واقع بڑے اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اور شہروں کے نام نہاد بڑے اسپتالوں میں نیم طبی عملہ کی اجارہ داری اور ماہر ڈاکٹروں کا مریضوں سے فاصلہ بنائے رکھنے کے مذموم طریقۂ کار سے مرض اور اس کے ساتھ متعلقہ احباب کی حالت قابل رحم ہوا کرتی آئی ہے۔
آج بھی ہمارے اس مہان ملک میں 60 فی صد سے زائد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ Neglected Rural Medical Care دیہی علاقوں میں طبی سہولیات پر بے توجہی ، اورشہری علاقوں میں اسپتالوں میں غلاظت کی بدبو اور سب سے بڑھ کر عملہ Staffکے برتاؤ کو سدھارنے پر محکمۂ صحت کو توجہ دینی ضروری ہے۔ گزشتہ سال علاج کی قلت کے حوالے سے انڈیا پاپولیشن پروفائل کی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک ہزار لوگوں کے علاج کے لئے دس سے بھی کم بستر اسپتالوں میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں اپنا اور اپنے عزیزوں کو علاج کروانے خستہ حال لوگ بھی پرائیویٹ کارپوریٹ اسپتالوں اور نرسنگ ہومس کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں علاج اورمریض کی تیمار داری بھی ایک تجارت ہے۔ علاج کے لئے مریضوں سے کم روپیہ خرچ کروانے والے ڈاکٹر ان اسپتالوں میں معیوب سمجھے جاتے ہیں اور ان کی عزت بھی نہیں کی جاتی۔ غیر ضروری اور زیادہ پیسہ خرچ کروانے والے ڈاکٹروں کو ان اسپتالوں کا مینجمنٹ قابل اور باہنر سمجھتا ہے، ایک طرف سرکاری اسپتالوں کا مایوس کن منظر نامہ اور دوسری جانب پرائیویٹ اسپتالوں کا دھندہ ملک میں صحت عامہ کے ساتھ ایک کھلواڑ ہے۔ بیماری بیمار کی حیثیت دیکھ کر کہاں آتی ہے بھلا؟ ایسے میں ملک کے چند شہروں میں کچھ نامور ایسے سرکاری اسپتال بھی ہیں جہاں مریضوں کے ساتھ بلاتفریق و امتیاز بروقت علاج کیاجاتا ہے۔ مگر ایسی خوش نصیبی تمام سرکاری اسپتالوں کے مریضوں کو کہاں میسر آتی ہے؟ دوائیاں بنانے والی فارما کمپنیوں کی دھاندلی بھی کیا کم ہے کہ دوائیوں کے دام آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ ہرطرح سے مجبورمریضوں کی حالت باعث تشویش ہوتی جارہی ہے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا