مولانا عبدالمتین رحمانیؒ

0
0
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
 جامعہ رحیمیہ مہدیان اور جامعہ رحانی مونگیر کے سابق استاد، جامعۃ العلوم الاسلامیہ کھیڑا گڑھیا نرپت گنج ارریہ کے بانی وناظم مولانا عبد المتین رحمانی بن عبد الحکیم بن شیخ رَوْ دی بن محمد اعظم بن محمد گلاب کا 29/ جون 2024ء مطابق 22/ ذی الحجہ 1445ھ بروز سنیچر بوقت دس بجے دن صفدر جنگ اسپتال دہلی میں انتقال ہو گیا، وہ کئی سالوں سے کڈنی کے مریض تھے، لیکن انتقال عارضہ قلب سے ہوا، جنازہ دہلی سے ان کے آبائی گاؤں کھیڑا گڑھیا لایا گیا اور 30/ جون 24ء کو ڈھائی بجے دن میں ان کے چھوٹے صاحب زادہ مبین احمد نے جنازہ کی نماز پڑھائی، محتاط اندازہ کے مطابق پانچ ہزار لوگ جنازہ میں شریک ہوئے، کئی لوگ تعداد دس ہزار تک بتاتے ہیں، تدفین مقامی قبرستان میں ہوئی، پس ماندگان میں اہلیہ چھ لڑکا اور دو لڑکی کو چھوڑا، دو لڑکے، دو لڑکی کی شادی ہو گئی ہے، بقیہ ابھی ناکتخدا ہیں۔
 مولانا مرحوم کی ولادت آبائی گاؤں کھیڑا گڑھیا، نرپت گنج، ضلع ارریہ میں، 3/ مئی 1965ء کو ہوئی،ان کی نانی ہال اور سسرال بھی اسی گاؤں میں تھی، نانا شیخ بِپُت علی بن شیخ انور اور خسر حاجی محسن بن محمد مقصود عرف شیخ پلٹو تھے، ابتدائی تعلیم مدرسہ پھَلہاجوگبنی میں پائی1980 ء سے 1985ء تک وہ جامعہ رحمانی مونگیر کے طالب رہے اور عربی ششم تک کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد 1985ء میں دار العلوم دیو بند کا رخ کیا او ر1987ء میں فراغت یہیں سے حاصل کی، تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ رحیمیہ مہدیان دہلی سے کیا،۔1988سے 1991ء تک یہاں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر جامعہ رحمانی مونگیرمیں تقرری عمل میں آئی اس طرح مادر علمی میں تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ہاتھ آیا، چنانچہ 1991ء سے 2001ء تک یہاں مقیم رہ کر تشنگان علوم کی آبیاری کرتے رہے، 2001ء میں انہوں نے اپنے گاؤں گڑھیا میں ہی ایک مدرسہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے نام سے قائم کیا او رپھر آخری سانس تک اس ادارہ کو پروان چڑھانے میں اپنی توانائی صرف کی۔
 مولانا عبد المتین رحمانی انتہائی خلیق، ملنسار، متواضع اور بے ضرر انسان تھے، ہونٹوں پر سدا بہار مسکراہٹ اس طرح چپک گئی تھی کہ کبھی جدا نہیں ہوتی، وہ ظریف الطبع تھے، بات بات میں کوئی نہ کوئی ایسا نکتہ بیان کر جاتے کہ محفل زعفران زار بن جاتی، سیرت النبی پر ان کی گفتگو اور تقریر زبردست ہوا کرتی تھی، ان کا شمار علاقہ کے نامور مقرر میں تھا، مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ بانی جامعہ الامام قاسم مدھوبنی سوپول ان کے ان کے ابتدائی تعلیم کے درسی ساتھی تھے، عرصۃ تک وہ دہلی جاتے تو ان کے دفتر میں قیام کرتے اور ان کی ضیافت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، دونوں میں بے تکلفی تھی، مجلس میں بیٹھ جاتے تو ہر طرح کی باتیں ہوتیں، کسی کی ضیافت کی تعریف کرنی ہوتی تو کہتے کہ کیا باسمتی چاول کھلا یا ہے، میرے اور مولانا کے تعلقات کا آغاز مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ کے واسطے سے ہی ہوا تھا، آخری چند سالوں میں جب علاج کی غرض سے پٹنہ آمد ورفت زیادہ ہونے لگی تو قیام امارت شرعیہ میں ہی ہوتا تھا، ڈاکٹر کے یہاں جانے کے وقت تک میرے پاس ہی بیٹھے رہتے اور دنیا جہان کی باتیں کرتے، وہ کڈنی کے مریض ہو گیے تھے اور پٹنہ کے کسی معالج کا علاج چل رہا تھا۔ تکلیف میں رہتے لیکن زبان پر کلمات شکر ہی ہوا کرتے۔
 آج کے سیاسی ہتھکنڈوں پر بڑا بلیغ تبصرہ کرتے، کہتے کہ اب لوگ جیل میں رہ کر بھی انتخاب جیت جاتے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ میں بھی انتخاب میں کھڑ ا ہو جاؤں اور پھر جیل کی یاترا کروں، وہاں سے اپنی خون سے لکھی ایک تحریر رائے دہندگان میں بھیج دوں پھر تو میری جیت پکی ہوگی، صرف آپ لوگ ساتھ دینے کا وعدہ کیجئے، میں کہتا کہ آپ کا خون ہمارے لیے آپ کی امیدواری اور جیت سے زیادہ اہم اور قیمتی ہے، اس لیے میں تو کم از تائید نہیں کروں گا، کھلکھلا کر ہنستے اورکہتے کہ ”جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“، ان کے گاؤں گڑھیا سے متعلق ایک اور یاد باہر آنے کو بے چین ہے، امارت شرعیہ کے وفد کا پروگرام ان کے گاؤں میں تھا،پروگرام میں ناشتہ بھی شامل تھا، قیادت میری ہی تھی، اس گاؤں میں گیا تو معلوم ہوا کہ گاؤں منصوبہ بندانداز میں مردوں سے خالی ہے، کوئی استقبال کے لیے موجود نہیں ہے،ناشتہ کو کون پوچھتا، وہ تو اچھا ہوا کہ مولانا قمر انیس قاسمی معاون ناظم امارت شرعیہ کے والد انیس الرحمن صاحب نے جہاں رات کا قیام تھا وہیں زبر دستی کرا دیا تھا،ورنہ اس دن آنتوں کے قل ھو اللہ سے الحمد للہ تک پہونچنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا، کس کی وجہ سے ایسا ہوا، اور کس نے یہ سازش کی، مجھے معلوم ہے، لیکن بتاؤں گا نہیں، چنانچہ بڑی جلدی میں ہم نے فیصلہ کیا کہ دن کا یہ پروگرام کہیں او رمنتقل کیا جائے، چنانچہ اللہ رحم کرے مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ پر انہوں نے اپنی غیر موجودگی میں اپنے رفقاء کو فون پر آمادہ کیا اور دو گھنٹے کے اندران کے مدرسہ جامعۃ الامام قاسم مدھوبنی سوپول میں شاندار اجلاس ہوا، یاد آتا ہے کہ اس اجلاس میں مولانا صبغۃ اللہ رحمانی بھی شریک ہوئے تھے، جو ان دنوں جامعہ رحمانی مونگیر کے ناظم ہوا کرتے تھے، اس واقعہ کا جب بھی میں مولانا سے تذکرہ کرتا تو وہ جھینپ جاتے اور کہتے کہ کیا کیجئے گا، کچھ لوگوں نے ورغلا دیا تھا، اس لیے ایساہوا، ورنہ واقعہ یہی ہے کہ ہمارا پورا گاؤں امارتی ہے، رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
 مولانا دیکھنے میں بہت سادے تھے، لیکن معمولات کے پکے تھے، سورۃ رحمن، سورۃ یٰسین، سورۃ مزمل کی تلاوت اور اسماء الحسنیٰ کا ورد وہ بہت پابندی سے کیا کرتے تھے، سفر وحضر میں ان کا یہ معمول قضا نہیں ہوتا تھا، مولانا معاشی طور پر بہت مضبوط نہیں تھے، مدرسہ کی ذمہ داری اس پر مستزاد، لیکن وہ کبھی بھی اپنی پریشانی دوسروں سے ذکر نہیں کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ پریشانی کا ذکر دوسرے کے سامنے کرنے سے آدمی ہلکا ہوجاتا ہے، اور فائدہ کچھ نہیں ہوتا، کیوں کہ جب تک سانس رہتی ہے کوئی کاندھا نہیں دیتا۔مولانا کے دنیا سے چلے جانے کا غم میرا ذاتی غم ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس علاقہ میں ذاتی طور پر مجھ سے محبت کرنے والا کوئی باقی نہیں ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا