دیہی علاقوں میں روزگار کا چیلنج برقرار ہے

0
0
کمل نوال
ادے پور، راجستھان
منگل کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے سال 2024-25 کا بجٹ پیش کیا، جس میں تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کی تیسری اننگز کا یہ پہلا کل وقتی بجٹ ہے۔ اس میں منریگا سمیت روزگار کے کئی شعبوں میں بجٹ مختص کیا گیا ہے۔محکمہ دیہی ترقی کا بجٹ پچھلے سال کے 1.71 لاکھ کروڑ روپے کے نظرثانی شدہ تخمینہ سے بڑھا کر 1.77 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی پروگرام (منریگا) کے بجٹ کو سال 2023-24 کے 60 ہزار کروڑ روپے کے مقابلے 2024-25 میں بڑھا کر 86 ہزار کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ تاہم، سال 2022-23 میں اس کا بجٹ 90.8 ہزار کروڑ روپے تھا، جسے 2023-24 میں کم کر کے 60 ہزار کروڑ روپے کر دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی اس بجٹ میں روزگار کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے لیے اسکل ڈیولپمنٹ سے لے کر ایجوکیشن لون، اپرنٹس شپ کے لیے ترغیب، ای پی ایف میں شراکت کے ساتھ پہلی نوکری حاصل کرنے والوں کی تنخواہ میں شراکت اور نئے پنشن سسٹم کے لیے شراکت میں اضافہ جیسے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔درحقیقت ہمارے ملک میں روزگار ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ بہت سے شہری علاقوں میں روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔ ایسے میں دیہی علاقوں کی کیا حالت ہو گی، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آج بھی ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں مقامی سطح پر روزگار کی شدید کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے بڑ ی تعداد میں لوگ روزگار کے لیے بڑے میٹرو اور صنعتی علاقوں جیسے دہلی، نوئیڈا، لدھیانہ، امرتسر، ممبئی، سورت اور کولکاتہ میں ہجرت کرتے ہیں۔ تاہم، منریگا دیہی علاقوں میں روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ لیکن کئی خاندان ایسے ہیں جنہیں اس کے تحت بھی کام نہیں مل پاتا۔
 راجستھان کے منوہر پورہ گاؤں کی انیتا دیوی سمیت کئی ایسے خاندان ہیں، جنہیں منریگا کے تحت کام نہ ملنے کی وجہ سے کام کی تلاش میں روزانہ شہر جانا پڑتا ہے۔یہ گاؤں بڈگاؤں پنچایت کے تحت واقع ہے، جو راجستھان کے ادے پور شہر سے صرف 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ادے پور کو جھیلوں کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔درج فہرست ذات والے اس گاؤں کی آبادی ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ شرح خواندگی پچاس فیصد کے آس پاس ہے۔ شہر کے قریب ہونے کے باوجود اس گاؤں کی زیادہ تر آبادی نہ صرف مختلف سرکاری سکیموں سے محروم ہے بلکہ روزگار سے بھی محروم ہے۔45 سالہ انیتا دیوی کا کہنا ہے کہ ان کے دو بچے ہیں۔ 19 سالہ بڑے بیٹے نے عدم دلچسپی کے باعث آٹھویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دی ہے اور اب والدین کے ساتھ کام پر جاتا ہے جبکہ چھوٹا بیٹادسویں جماعت کا طالب علم ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ گاؤں میں روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ مزدوری کرنے کے لیے روزانہ ادے پور شہر جاتی ہیں۔ جہاں کبھی انہیں مزدوری ملتی ہے اور کبھی سارا دن بیٹھ کر خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ مزدوری میں بھی اسے اتنے پیسے نہیں ملتے کہ وہ خاندان کا گزارہ کر سکے۔ ایسے میں ان کی مالی حالت مزید قابل رحم ہوتی جارہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ گاؤں میں روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ منریگا کے تحت بھی انہیں کام نہیں ملتا ہے۔ اگرچہ ان کے مطابق انہوں نے پنچایت میں جا کر اپنا نام، اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کا نام منریگا کے تحت درج کرایا ہے، لیکن آج تک ان میں سے کسی کو بھی اس سے متعلق کوئی کام نہیں مل سکا ہے۔ انیتا کے شوہر بھنور لال کا کہنا ہے کہ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، اس لیے نہ تو وہ منریگا کے تحت کام حاصل کرنے کے اپنے حق سے واقف ہیں اور نہ ہی وہ درج فہرست ذاتوں کی ترقی کے لیے حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی کسی اسکیم سے واقف ہیں۔
ایک اور خاتون نانو بائی کہتی ہیں کہ منوہر پورہ گاؤں میں بہت سی بنیادی ضروریات کا فقدان ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کو روزگار کی ضرورت ہے۔ اس کی کمی کی وجہ سے مرد اور نوجوان گاؤں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جن کے پاس ان اسکیموں سے متعلق معلومات ہیں، وہ سب اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن ہم جیسے لوگوں کو اسے حاصل کرنے کا طریقہ معلوم نہیں، اس لیے ہم آج تک اس سے محروم ہیں۔ یہی نہیں، گاؤں کے کچھ لوگوں نے پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مکانات بھی بنوائے ہیں، لیکن آج تک ہمیں اسے حاصل کرنے کا طریقہ معلوم نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے فوائد کیسے حاصل کیے جائیں اور درخواست کیسے دی جائے؟ ادھر 32 سالہ سیتا دیوی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر اور انہیں کئی سال قبل منریگا کے تحت بنایا گیا جاب کارڈ مل گیا تھا، تاکہ وہ گاؤں میں رہ کر روزگار حاصل کر سکیں، لیکن آج تک انہیں کوئی کام نہیں ملا۔ ا س سلسلے میں وہ کئی بار پنچایت دفتر بھی گئی لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔تاہم حکومت کی جانب سے ایسا نظام بنایا گیاہے کہ اس کے تحت کوئی بھی فارم 6 بھر کر دیہی پنچایت سے کام مانگ سکتا ہے۔ لیکن ان دیہاتیوں کے پاس ایسی کوئی معلومات بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے خواتین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ منریگا سے کام نہ ملنے کی وجہ سے مرد کام کی تلاش میں شہروں یا دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں لیکن گھر کی دیکھ بھال کی وجہ سے زیادہ تر خواتین کو گاؤں میں ہی رہنا پڑتا ہے۔ ایسے میں گھر کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے وہ شہر کے بڑے گھروں میں نوکرانی کے طور پر جھاڑوپوچھا اور برتن دھونے کا کام کرنے پر مجبور ہیں۔
اس سلسلے میں بڈگاؤں پنچایت کے سرپنچ سنجے شرما جن کے تحت منوہر پورہ گاؤں آتا ہے، کا کہنا ہے کہ ”اس پنچایت کے تحت چار گاؤں ہیں، جن میں ایک ساتھ ایک بڑی آبادی رہتی ہے، سبھی گاؤں میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ منریگا کے فارم بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کئی بار فارم درست نہیں ہونے کی وجہ سے ان کا فارم مستردہو جاتا ہے، اس لیے جب لوگوں کو منریگا کے تحت کام نہیں ملتا تو وہ یا تو کام کرنے کے لیے شہر جاتے ہیں یا گاؤں سے ہجرت کر میٹروپولیٹن شہروں یا صنعتی شہروں کا رخ کرتے ہیں۔کچھ ماہ قبل انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈیولپمنٹ (آئی ایچ ڈی) کی رپورٹ”انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ 2024“ کے مطابق، 2021 کے دوران ہندوستان میں تمام تارکین وطن میں سے تقریباً 10.7 فیصد نے روزگار کی وجہ سے نقل مکانی کی ہے۔ اس علاقے میں مواقع کی کمی جیسے عوامل نمایاں ہیں۔
یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ دیہی علاقوں میں روزگار ایک بڑا چیلنج ہے جس پر مقامی سطح پر چھوٹی صنعتیں اور سیلف ہلپ گروپ قائم کر بھی دور کیاجا سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً 6.6 ملین سیلف ہیلپ گروپ چل رہے ہیں جن میں تقریباً 70 ملین لوگ کام کر رہے ہیں۔ نیشنل رورل لائیولی ہڈ مشن کے تحت 2025 تک تقریباً 80 ملین خاندانوں کو اس سے  جوڑنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ملک کی تمام ریاستی حکومتوں کی طرف سے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی جا تی رہی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں، راجستھان حکومت نے اپنے سالانہ  بجٹ میں اگلے پانچ سالوں میں دو لاکھ نئے سیلف ہیلپ گروپس اور ایک سال میں تقریباً چالیس ہزار نئے سیلف ہیلپ گروپس بنانے کا ہدف بھی مقرر کیا ہے۔ حکومت کا یہ ہدف یقینی طور پر نہ صرف دیہی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا بلکہ دیہات سے نقل مکانی کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔(چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا