!امیر نہٹوری کی شاعری، فکر اظہار کا بلیغ اشاریہ
—————————— —————————-
امیر احمد خاں المتخلص امیر نہٹوری، پیدائش 20 اگست1968 اردو استاد ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق و زود گو شاعر ہی نہیں بہترین مضمون نویس مقالہ نگار محقق و افسانہ نگار بھی ہیں ۔ اب تک ان کے دو شعری مجموعے جاگتے منظر پہلا شعری مجموعہ اور یہ جہاں وہ نہیں، دوسرا شعری مجموعہ یکے بعد دیگرے منظر عام پر آکر قبولیت عام حاصل کر چکے ہیں۔ جب کہ نثری ادبی مضامین پر مشتمل ایک زخیم مجموعہ بہ عنوان ” ارباب ادب “ بہ اشتراق قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی ، کے شائع ہو کر منظر عام آچکا ہے اور اور خوب مقبولیت حاصل کر رہا ہے ۔
یوں تو سال در سال کتنے ہی شعری مجموعے منظر عام پر آکر ادب کا حصہ بنتے ہیں ،مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے مجموعے قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کراپاتے ہیں۔ امیر نہٹوری بحیثیت اردو تدریس اردو کی خدمت کی انجام دہی کے ساتھ مختلف ادبی تنظیموں سے وابستہ رہتے ہوۓ ،جن میں اردو ٹیچرس ویلفئیر ایسو سی ائیشن، انجمن ترقئی اردو ہند وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ،اردو کی خدمت انجام دے رہے ہیں، وہیں موصوف اپنی شعری ونثری تخلیقات کے ذریعے ادب کی بھی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امیر نہٹوری کے شعری مجموعہ یہ جہاں وہ نہیں ہے کا جب ہم بالاستیعاب اور گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں لگتاہے کہ موصوف آج کے سماجی ومعاشرتی نظام سے مطمئن نہیں ہیں ،آج کا معاشرہ غیر متوقع طور پر اپنی اساسی قدروں سے کہیں دور بہت دور چلا گیا ہے، جس کی ایک صالح اور سالک شخص توقع و آرزو رکھتاہے، یہ جہاں وہ تو ہرگز نہیں ہے، اور اسی کی جستجو پر انکی شاعری کا اظہار ان کے یہاں شعوری ولا شعوری طور پر ہمیں جگہ، جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ تخلیق فن میں بھی کچھ انفرادیت لانا چاہتے ہیں۔ ان کا شعری سفر خوب سے خوب تر کی تلاش وجستجو میں رواں دواں ہے۔ جس کا برملا اظہار ان کے شعری سفر میں بتدریج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں جدید وقدیم لہجہ و اسلوب کا حسین سنگم دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ تشبیہات کے استعمال میں ان کے یہاں مرئی وغیر مرئی تشبیہات ملتی ہیں۔ پیچیدہ علامتوں و استعاروں کے استعمال سے قطع نظر لفظی بندشوں و کنایوں کی ایسی حسین پیکریت دیکھنے کو ملتی جسے حسین و مرصّع فنی تجسیم کاری سے بجا طور پر مرتسم کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے یہاں ادب کی صالح روایت کے احترام کے ساتھ ساتھ جدیدیت کا التزام دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں مضامین کی تازہ کاری کے ساتھ ساتھ موضوعاتی تنوع، خیال کی ندرت، فن کی پختگی وبلندی، لہجہ واسلوب کی بالیدگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے ۔ اساتذۂ متقدمین کے کلام کے مطالعے کی روشنی میں انہوں نے جو اکتساب فن و فیض حاصل کیا ہے اس کے تعلق سے خود موصوف اپنے پیش لفظ بعنوان، تاثرات و اظہار تشکر میں رقم طراز ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوران تعلیم نصابی کتابوں میں جن شعراء کو پڑھا ان میں ولی کا عشق، میر کی تڑپ، جگر کا سوز، آتش کی بے تکلفی، حسرت کا عشقیہ بیان، مومن کی نازک خیالی، اور غالب کا استفہامیہ انداز وغیرہ نے بیحد متاثر کیا اور یہی تاثرات میرے جذبات میں پنہاں ہوۓ۔افسوس یہ کہ میری شاعری میں بھی زخم، آہیں، تڑپ، سوز، تلاطم بیچینی، عشق کی بیتابیاں، صحراؤں کی گرد، جفاؤں کا کرب، اور عشق و محبت کے خشک آلود سمندر میں سُلگتے سِسکتے،مناظر ہی ملیں گے جسے ایک ہنستا مُسکراتا قاری یا سامع پڑھ تاہے تو یک بارگی اُس پر 20سنجیدگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ صفحہ نمبر
معاشرے میں قدروں کی پامالی پر اظہار تاسف کرتے ہوۓ موصوف اسی پیش لفظ کے صفحہ نمبر21میں تحریر کرتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دورِ حاضر میں جس طرح اِنسانی، اخلاقی قدریں پا مال ہو رہی ہیں یا انسانی رشتوں میں نفسا نفسی کی جو وبا پھیل رہی ہے، ان سے حساس طبیعتوں کا متاثر ہونا لازمی ہے ۔ نیز یہ کہ ادبی محفلوں میں ادب کا فقدان باعث تشویش ہے۔ آج کل کے یہ مشاعرے، سیمینار اور اردو کے تعلق سے دیگر تقاریب کے دعوت نامے، بینرس، اشتہار وغیرہ سے اردو کا غا ئب ہونا، ادبی محفلوں کا سیاسی مرکز اور خوشامد پسندوں، چال بازوں، مکاروں کے اڈے بن جانا ادب اور ادب کے شیدائیوں کے جذبات کو مجروح ضرور کرتے ہیں ۔ حیرت تو یہ ہے کہ آج کے کچھ مشہور ومعروف شعراء جو مشاعروں میں اچھا خاصہ معاوضہ لیکر اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جن کی اپنی بیاض اردو رسم الخط سے محروم ہے اور وہ اردو پڑھنا لکھنا جا نتے بھی نہیں۔
امیر نہٹوری کے رنگ وآہنگ کی انفرادیت کو ذیل کے چند اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے
دور مجھ سے اگر وہ ہوا کیا ہوا
یہ نہ سمجھو کہ مجھ میں نہاں وہ نہیں
تیری برق ستم پھونک ڈالے جسے
یہ مرا آشیاں، آشیاں وہ نہیں
پھول، خوشبو ، وفا جس چمن میں نہ ہوں
ہم کو منظور اب گلستاں وہ نہیں
تم جلا کے مجھے خود بھی جل جاؤگے
دب کے رہ جاۓ جو یہ دھواں وہ نہیں
امیر نہٹوری کی شاعری میں ٹوٹ کر بکھرنے اور بکھر کر سمٹنے کا عمل بار بار دوہرایا جاتاہے، مگر ان کے یہاں یاسیت قطعی طور پر دیکھنے کو نہیں ملتی وہ بلند حوصلگی کے ساتھ جینے کے لئے پُر عزم دیکھے جاتے ہیں۔
صیاد قید کرکے مجھے مطمئن نہ تھا
ایسا تھا خوف مجھ سے وہ ، پر بھی کتر کیا۔
کرچیں تمام جسم کو زخمی کریں گی پھر
شیشہ وفا کا ٹوٹ کہ گرچے بکھر گیا
دیوانے کو صیاد قفس سے نہ ڈرانا
ملتی نہیں ہیں عظمتیں زنجیر سے پہلے
واقف ہیں جو انجام محبت سے وہی لوگ
خوابوں سے نکل آۓ ہیں تعبیر سے پہلے
زندگی کی گھٹن ہے سانسوں میں
مجھ کو تم سوۓ دار رہنے دو
تغزل شاعری کا وہ رنگ ہے جس سے شاعری کا حسین رنگ وآہنگ عبارت ہے۔ محبوب کے سراپا عشوہ و ناز و ادا روٹھنے و منانے کا عمل محبوب کے حسن و د شیزگی کا بیان اظہار جمالیات میں لفظی بندشوں کے ذریعہ سراپا کی تجسیم کاری تشبیہ واستعاراتی عمل میں پیکر تراشی، رمز و کنایہ میں مرقعہ نگاری ومرصّع سازی ہر عہد میں غزل کی تہذیب رہے ہیں ، دراصل اسے ہی تہذیب غزل کا نام بجا طور پر ہر عہد میں دیا جا تا رہا ہے۔ امیر نہٹوری نے رنگ تغزل کو بھی اپنے فنی ہنر کے ذریعہ مختلف زاویوں سے باندھا ہے، جس کی بانکی ذیل کے اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس شوخ کو کا غذ پہ اتاروں بھلا کیسے
بے چین مصور ہوا تصویر سے پہلے
اک نظر ہی دیکھا تھا ان نشیلی آنکھوں میں
ہوش ہو گئے گُم صُم بیخودی کا عالم ہے
ہے یقیں پلٹ آتے ہم اگر منا لیتے
کچھ ہماری خو میں بھی خود سری کا عالم ہے
ملے کوئی موقع تو ان سے میں پوچھوں
وہ نیچی نگاہوں سے کیا دیکھتے ہیں
شیخ صاحب بھی اسیرِ غمِ اُلفت ہوتے
گرکسی شوخ نگاہوں کا نشانہ بنتے
امیر اُن سے شکوہ جفاء کا یہ کیسا
ہم اپنے کئے کی سزا دیکھتے ہیں
محفوظ ہیں سب آپ کے تحفے دۓ ہوۓ
دل میں تمھارے زخم سجاۓ چلے گئے
ان کی جا نب سے کوئی نہ ایفاء ہوا
جھوٹے وعدوں سے ہم ہی بہلتے رہے
چھوڑ دوں گا اس جہاں کو آزما کر دیکھ لو
زہر بھی پی لوں گا تم سے تم پلا کر دیکھ لو
زرد چہرہ، سانس مدھم، نبض بھی ٹھری ہوئی
وقت شاید آخری ہے اب تو آکر دیکھ لو
دل وہی خواہش وہی اور شوق کا عا لم وہی
وقت بدلا ہم وہی ہیں تم بلا کر دیکھ لو
بے سبب ہنستا رہا یا بے سبب روتا رہا
یہ جنوں تھا یا محبت دل لگا کر دیکھ لو
آئینے کی کرچوں کو دیکھ، دیکھ روتے ہیں
اک ہوا کے جھوں کے نے کیا گرائیں تصویریں
تیری میری چاہت پر کتنا طنز کرتے تھے
جل گئے جہاں والے جب دکھائیں تصویریں
امیر نہٹوری کی شاعری میں تشبیہ واستعارہ رمز و کنایہ و علائم کے استعمال سے شاعری میں جمالیاتی آہنگ کی آمیزش تو ملتی ہے مگر ابہام بلکل نہیں پایا جاتا بلکہ ان کی شاعری میں تر سیلیت کا ایسا راست اظہار ملتاہے جو قاری کی ذہن و قلوب پر راست دستک دیتاہے ،جسے سہل ممتنع کی شاعری سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ بلا شبہ امیر نہٹوری کی شاعری فکر و ابلاغ کا راست اشاریہ ہے۔
محمد احمد دانش
شاعر و ادب
راجہ کا تاجپور ،بجنور ہو پی
Mob.+91 97594 18047
محمد احمد دانش