{زرد آسمان}

0
0

غوثیہ خان سبین

وہ ایک سرد رات تھی،
ایسی رات جس میں امیر دولت مند لوگ اپنے مکانوں میں رضائی میں دبکے پڑے تھے اور غریب اپنے جھونپڑوں اور فٹ پاتھوں پر چیتھڑوں میں لپٹے سو رہے تھے۔

رات کے دو بجے تھے، سارا عالم خوابوں میں ڈوبا تھا، لیکن شہر کے ایک نرسنگ ہوم کے ایک کمرے میں ایک لڑکی پڑی تھی جس کی آنکھوں سے نیند میلوں دور تھی۔ اسے نہ تو نیند آ رہی تھی اور نہ ہی وہ سونا چاہتی تھی، شاید اس لئے کہ وہ بہت جلد ہمیشہ کے لئے سو جانے والی تھی۔
اس کے ہاتھ میں ایک رائٹنگ پیڈ تھا، اور قلم لیے وہ اس میں ایک ادھوری غزل پوری کرنے کی کوشش کر رہی تھی، نہ کسی رسالے یا اخبار میں شائع کروانے کے لیے، اور نہ ہی کسی مشاعرے میں سنانے کے لیے، بلکہ اس کی تحریر اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اسے باقی رکھنے کا سامان تھی، اس کے آخری وقت کی چشم دید گواہ۔

اسے کینسر تھا لیکن اس لڑکی نے اپنی بدنصیبی پر کبھی آنسو نہیں بہائے جبکہ موت کی آہٹ اسے قریب سنائی دیتی تھی، مگر وہ ڈرتی نہیں تھی بے خوف موت کا انتظار کرتی تھی اپنی تکلیف سے نجات پانے کے لیے۔

اس کے مایوس چہرے پر ان حسرتوں کے رنگ ضرور تھے جن کا خون ہو چکا تھا! اور ایک رات وہ غزل مکمل ہو گئی، وہ لڑکی اس دنیا فانی سے کچھ کر گئی اور اس کی آخری خواہش کے مطابق اس کی آنکھیں آئی بینک کو دے دی گئیں (آنکھوں کی روشنی) تاکہ بینائی سے محروم کسی انسان کے کام آ سکیں!

اس روز صبح سے ہی خوب زوردار بارش ہو رہی تھی، آسمان ابر آلودہ بادلوں سے سرابور تھا، ہلکی ہلکی سردی اور بارش مل کر میٹھے سی سردی کا احساس کرا رہی تھی۔

غزل ایک بہت خوبصورت سی لڑکی تھی، وہ جتنی خوبصورت تھی اس کا دل بھی اتنا ہی نازک اور نیک تھا، بہت ذہین اور ہنرمند جس میں کوئی کمی نہ تھی۔ اپنے لان میں بیٹھی سردی اور بارش کا مزہ لے رہی تھی۔ غزل نے وہی پنک کلر کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جو علی ( غزل کا شوہر) نے ابھی کل ہی ان کی پہلی سالگرہ پر اسے لا کر دی تھی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ علی کا ادھورا سویٹر پورا کرنا ہے، وہ دوڑتی ہوئی گھر میں چلی گئی اور سویٹر بننے میں لگ گئی، علی بے خبر بستر میں دبکا سو رہا تھا۔ آج اس کا چھٹی کا دن تھا، جیسے ہی علی نے انگڑائی لیتے ہوئے آنکھیں کھولیں…
اس کی نظر غزل پر پڑ گئی۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے ہی چیخا، ”یار تم باز نہیں آؤ گی! نئے نئے کام کی ایجاد کر بیٹھتی ہو، کیا ضرورت ہے اس سب کی؟ بازار سے خرید لینا۔” غزل بولی، ”آپ چپ چاپ پڑے سوتے رہیں، مجھے میرا کام کرنے دیں، پلیز۔” بس اسی طرح ان کی خوش رنگ زندگی کے نئے نئے پل رنگوں میں ڈھلتے جا رہے تھے اور موسم بدلتے جا رہے تھے۔

اس روز علی جب دفتر سے لوٹا تو بہت خوش تھا۔ اس کا پروموشن ہوا تھا۔ چیختا ہوا بولا، ”غزل، جلدی آؤ سنو تو!” غزل کچن میں تھی، ہاتھ میں پانی کا گلاس لیے دوڑتی ہوئی آئی۔ کمرے میں پڑی قالین سے اس کا پیر اُلجھ گیا اور وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔ ہاتھ کا گلاس چور چور ہو گیا اور تمام کانچ کے ٹکڑے اس کی آنکھوں میں چبھ گئے۔ کئی تیز نشتر سینے میں اُترتے چلے گئے۔ اس وقت غزل کے سامنے نہ چھت تھی نہ زمین۔ اس کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو رہا تھا اور علی زور زور سے چیخ رہا تھا۔ اس کی چیخیں سناٹے میں گونجتی جا رہی تھیں اور غزل کے ذہن میں علی کی چیخوں کی آواز دھندلی ہوتی چلی گئی۔ وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔

جب ہوش آیا تو غزل نے خود کو ایک ہسپتال کے بستر پر پایا۔ وہ اندھی ہو چکی تھی۔ سارے رشتے دار دوست احباب اس کے آس پاس کھڑے تھے لیکن اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کی دنیا سیاہ ہو چکی تھی۔

علی کو اس اچانک ہوئے حادثے نے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا۔ اس کی اس دنیا میں سب سے پیاری چیز، وہ تحفہ جو اللہ پاک نے اسے دیا تھا، وہ اس قدر تکلیف میں مبتلا تھی۔ جب علی سے یہ سب برداشت نہ ہوتا تو وہ سسک سسک کر رو پڑتا۔

وہ رات رات بھر غزل کے سرہانے بیٹھا رہتا۔ کتنی ہی راتیں اس نے اسی طرح گزاری تھیں اور جب کبھی غزل کی ہچکیاں تیز ہو جاتیں تو وہ اسے تسلی دیتا۔

بوا گھر کا سب کام کرکے جا چکی تھی۔ غزل لون میں بیٹھی تھی، اچانک باہر کے گیٹ کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی علی کی گاڑی کی آواز۔ علی دوڑتا ہوا غزل کے پاس آیا اور چلاتا ہوا بولا، ”غزل، آج میں بہت خوش ہوں، خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہوں!” اور اس نے اپنے مضبوط بازوؤں میں غزل کو اٹھا لیا۔ اسے صوفے پر بٹھاتے ہوئے تیز تیز سانس لیتے ہوئے بولا، ”غزل، مبارک ہو! اب تم مجھے دیکھ سکو گی، سارا جہان دیکھ سکو گی۔ خدا نے ہماری سن لی!”
”سچ علی؟” غزل کا دل زور سے دھڑک رہا تھا، اس کا سارا وجود کپکپا رہا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی، اتنی خوشی اسے سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔ سرخ لباس میں لپٹی وہ خود سرخ ہوئی جا رہی تھی۔ ایسے میں علی نے اسے سنبھالا اور اس کا ماتھا محبت سے چوم لیا۔

راج، اس ڈاکٹر کا نام تھا جس نے غزل کی آنکھوں کا آپریشن کیا تھا۔ وہ علی کا پرانا دوست بھی تھا، آج اس نے اپنی دوستی کا حق ادا کر دیا تھا۔
دس روز بعد غزل کی آنکھوں کی پٹیاں کھولی جانی تھیں۔ سارا دن علی بے چین رہا۔ وہ غزل کے پاس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا، سوچ رہا تھا کون سا لباس پہنوں۔ اتنے روز جب کہ غزل دیکھ نہیں پاتی تھی، وہ خود پر دھیان ہی نہ دیتا تھا۔ لیکن آج غزل کے سامنے جانا تھا تو تیاری تو کرنی ہی تھی۔ وہ اتنا گھبرا رہا تھا جیسے غزل کے سامنے پہلی بار جا رہا ہو۔ اسے راج لینے آیا تھا، دونوں ساتھ ہی ہسپتال پہنچے۔
ڈاکٹر نے آنکھوں کی پٹیاں کھولنی شروع کیں۔ اس وقت غزل کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرے۔ اس کے بے رنگ رخساروں پر تسلی اور راحت کے رنگ آ جا رہے تھے۔ ڈاکٹر نے آنکھوں کی پٹیاں کھولنے کے بعد نرس سے کہا کہ سارے پردے ہٹا دو۔ اور روشنی ہونے کے بعد غزل سے کہا کہ وہ دھیرے سے آنکھیں کھولے۔ غزل نے جیسے ہی پلک جھپکاتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں، اس کے سفید پڑ چکے رخساروں پر ایک حیا کی سرخی دوڑتی چلی گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے علی کھڑا تھا، وہ ایک خوبصورت شہزادہ جسے دیکھنے کو اس کی آنکھیں ترس گئی تھیں۔

ڈاکٹر کچھ پرہیز بتا رہا تھا کہ کچھ دن احتیاط رکھیں، تیز روشنی سے بچیں، لیکن علی اس وقت اپنے امڈتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور دوڑ کر غزل کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اسے ڈاکٹر کی موجودگی کا بھی احساس نہ ہوا۔

آج پھر وہ دونوں اپنی جنت سی زندگی میں واپس لوٹ آئے تھے۔ وہ احساسات جو مردہ ہو چکے تھے، آج پھر سے زندہ ہو چکے تھے۔ مسکراہٹ اور قہقہوں کی دھندک ان کے آنگن میں دوبارہ لوٹ آئی تھی۔

اکثر وہ ڈاکٹر جو غزل کے ٹھیک ہونے کی وجہ تھا، جس نے آئی بینک سے غزل کو آنکھیں دلائیں تھیں، راج، وہ بھی آ جاتا اور تینوں کئی بار شام کی چائے ساتھ بیٹھ کر پیتے۔ اور اس طرح وقت دھیرے دھیرے سرکتا چلا جا رہا تھا۔

ایک دن جب علی دفتر سے واپس آیا تو راج کی گاڑی باہر کھڑی تھی۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا، ایک دم ٹھٹک گیا۔ اور پردے کی اوٹ سے اس نے جو کچھ دیکھا وہ اسے جیتے جی مر جانے جیسا تھا۔ راج صوفے پر بیٹھا میگزین کے ورق پلٹ رہا تھا اور غزل سامنے بیٹھی اسے ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی نظروں میں وہ والہانہ پن اور دیوانگی تھی جو علی کی زندگی میں آگ لگانے کے لیے کافی تھی۔ علی کو اپنا سارا وجود تھر تھراتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کے پیروں تلے کی زمین کہیں دور جا گری تھی اور آسمان کا تو پتہ ہی نہ تھا۔ علی کے ہوش اڑ گئے تھے، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے جسم کا ایک ایک حصہ جل کے راکھ ہوتا جا رہا ہو۔

اور شاید غزل کی آنکھوں نے اسے اسی دن سے سلو پوائزن دینا شروع کر دیا تھا جس دن سے علی نے راج کو غزل سے ملوایا تھا۔ اور اتفاق ہی تو شک کی بنیاد پیدا کرتے ہیں! یہ لڑکی جس کے بغیر وہ ادھورا تھا، اسے کون سی شکل دکھا رہی تھی۔ یہ سچ تھا کہ وہ سچ تھا۔ راج نے رسالے سے نظریں اٹھا کر غزل کی طرف دیکھا اور دونوں مسکرا اٹھے اور گرم لاوا علی پر ابلتا چلا گیا۔ وہ غصے پر قابو کرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔

”آپ آ گئے؟” غزل اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

علی کا ایک ایک قدم چلنا دشوار ہو رہا تھا لیکن وہ بہت مضبوط انسان تھا۔ ضبط کرتا چلا گیا۔ اپنے کمرے میں جا کر بستر پر ایک کٹے درخت کی مانند گر پڑا۔ اس کا آشیانہ ایک ہی پل میں اجڑ چکا تھا۔

علی نے بڑی ہمت کرکے اٹھا لیکن ٹائی کی ناٹ کھولنے کے بجائے…

اچانک خیال آیا، ”نہیں، وہ ابھی نہیں مرے گا۔ پہلے غزل کو اس کی بیوفائی پر جلائے گا اور دوست کو غداری کا احساس دلائے گا۔”

غزل اسے کافی دیر سے آوازیں دے رہی تھی۔ وہ کپڑے بدل کر ڈرائنگ روم میں آ چکا تھا۔ راج صوفے پر خاموش بیٹھا تھا۔ غزل پیالی میں چائے انڈیل رہی تھی جیسے اس کے لیے زہر۔

”کیا بات ہے علی؟” راج نے علی سے پوچھا، ”کچھ خفا خفا سے لگ رہے ہو، کیا کسی سے کوئی بات ہو گئی یا کسی نے تمہارے ساتھ دھوکا کر دیا؟ ہوا کیا یار؟ اتنے خاموش کیوں ہو؟”

دغا ہی تو دیا تھا ایک جان سے بھی عزیز دوست نے۔ علی کا جی چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر کہے کہ ”تم نے، تم نے راج میرے ساتھ غداری کی ہے۔”

علی سپاٹ لہجے میں بولا، ”کچھ نہیں۔” اس روز راج جلدی ہی چلا گیا، آج علی نے اسے روکا بھی نہیں۔

اب علی کو راج کی موجودگی بہت بری لگتی تھی۔ وہ صرف غزل کے لیے ہی آتا تھا۔ کیسی کیسی خیالی باغات دکھائے اس نے، مجھے کیسے کیسے لوٹا ہے۔

غزل اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور بولی، ”کیا آج مجھ سے بات نہیں کرو گے آپ؟ جب سے دفتر سے آئے ہو، کیا سوچ رہے ہو؟” بس، ایک لاوا پھٹ گیا اور علی اپنی پوری طاقت کے ساتھ چیخ پڑا۔

”غزل، اگر تم کو راج اتنا ہی پسند تھا تو مجھ سے کہہ دیتی، میں تمہاری زندگی سے دور ہو جاتا۔ مجھے تم نے دھوکا کیوں دیا؟”

”علی!” غزل زور سے چیخ پڑی، ”تم یہ کیا بول رہے ہو؟ یا خدا، یہ سب سننے سے پہلے مجھے اٹھا کیوں نہیں لیا؟”

”میں وہی بول رہا ہوں جو بولنے کے لیے تم نے مجھے مجبور کر دیا۔ کیا ڈھونڈتی ہیں تمہاری نظریں علی کے چہرے پر؟ کیا؟ اس سے تو تم اندھی ٹھیک تھیں، میری تو تھیں۔”

”یہ جھوٹ ہے علی!” غزل زور زور سے چیخ رہی تھی، ”تم مجھے بیوفائی کا الزام دے رہے ہو؟ چاہے میری جان لے لو لیکن ایسا الزام…”

”توبہ، میں مر کیوں نہیں گئی یہ سب سننے سے پہلے؟”

”ہاں، میں سچ بول رہا ہوں غزل۔ آج کل ڈاکٹر صاحب کچھ زیادہ نہیں آ رہے؟ کیا بات ہے؟ ان کا آنا تم کو اتنا پسند کیوں آتا ہے؟ میرے آنے سے پہلے تمہاری آنکھیں کسے دیکھ رہی تھیں؟ بولو؟”

غزل بہت رات تک روتی رہی۔ کوئی اسے چپ کرانے نہ آیا۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سوج کر لال ہو گئی تھیں۔ غزل کے کانوں میں علی کے الفاظ گونج رہے تھے… ”چلی جاؤ میری نظروں سے دور، چلی جاؤ۔ میں تمہاری منحوس صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔ آج سے تم میرے لیے مر چکی ہو۔”

وہ اٹھی، دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے، کچھ سامان بیگ میں ڈالا اور تیز قدموں سے گھر سے باہر نکل گئی۔

غزل کو گئے ہوئے پورا ہفتہ گزر چکا تھا۔ علی ایسی آگ میں جل رہا تھا جسے لگانے والے اپنے ہی تھے۔ راج بھی اس روز سے گھر نہیں آیا تھا۔

”کیا غزل اس سے مل کے گئی ہوگی؟ مل کے اسی کے پاس گئی ہوگی؟” دماغ میں نہ جانے کیا کیا چل رہا تھا۔

آج بھی وہ دفتر نہیں گیا تھا۔ لگ رہا تھا جیسے مہینوں سے بیمار ہو۔

آج صبح ہی راج آ پہنچا۔ اس بیشرم پر کوئی اثر نہیں تھا! علی کو آواز دیتا ہوا صوفے میں دھنس گیا۔ بولا، ”یار علی، مجھے کچھ روز کے لیے گھر جانا پڑا۔ ماں بیمار تھی، میں ان کو ساتھ ہی لے کر آیا ہوں۔ اب میرے ہی پاس رہیں گی۔”

علی خاموش بیٹھا سنتا جا رہا تھا، اور راج بولے جا رہا تھا، ”مجھے تم دونوں کی بہت یاد آ رہی تھی، اس لیے آج ملنے چلا آیا۔ اور سناؤ، تم لوگ کیسے ہو؟ غزل بھابھی نظر نہیں آ رہیں، کہاں ہیں وہ؟” کس قدر بیشرم ہے، جیسے جانتا نہیں۔ جھوٹا مکار، اوپر سے بھابھی بول رہا ہے۔

علی نے روکھے پن سے کہا، ”میکے گئی ہوئی ہیں۔” راج بولا، ”ہاں یار، یہ بیویاں بھی گھر کے لیے رحمت ہوتی ہیں۔ جب نہیں ہوتیں تو کتنا سونا لگتا ہے۔”

علی نے غصے سے کہا، ”تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی راج؟” اور یہ سوال کرتے وقت علی کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ تیر گئی۔

راج کچھ دیر تو خاموش رہا، پھر آہستہ سے بولتا چلا گیا، ”علی، یہ سوال تم نے پہلے بھی کئی بار پوچھا ہے، لیکن آج میں ضرور بتاؤں گا۔

”سنا ہے غم بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے، سوچتا ہوں آج آزما کے بھی دیکھ لوں۔”

راج کا سانولا رنگ اور گہرا ہو چکا تھا۔ وہ مضبوط اور پُرخلوص انسان ایک معصوم بچے کی طرح بولے جا رہا تھا، صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے۔

”میری بھی زندگی میں ایک بہت خوبصورت لڑکی خدا نے بھیجی تھی۔ ہم نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ وہ بہت ذہین اور نیک تھی، بہت پردہ کرتی تھی۔ وہ ایک مسلم لڑکی تھی، ہر وقت خود کو ایک بڑی سی چادر میں لپیٹے رہتی تھی۔ وہ میرے دل میں اترتی چلی گئی تھی۔

”وہ بہت ہونہار تھی، ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھی۔ اس کی آنکھیں ہر پل مجھے دیکھنے کے لیے بیتاب رہتی تھیں۔ جب بھی ہم ملتے، گھنٹوں وہ خاموشی سے مجھے تکتی رہتی تھی۔ میں کہہ دیتا تھا کہ تمہاری آنکھیں تکتیں نہیں کیا؟ وہ پتلے نازک سے سرخ ہونٹ ہلاتی اور کہتی کہ میں تم کو دیکھے بغیر نہیں جی سکتی۔ میں نے بہت مشکل سے ماں کو سمجھایا تھا، وہ مان بھی گئی تھیں۔

”وہ کہتی تھی، میں تمہارا عکس اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتی ہوں۔”

جس وقت راج یہ سب علی کو بتا رہا تھا، ایک معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ وہ بولے جا رہا تھا، اور علی خاموش بیٹھا سن رہا تھا۔

راج بولا، ”مجھے پڑھائی کے سلسلے میں باہر جانا پڑا۔ جب وہ مجھ سے آخری بار ملی، تو بہت رو رہی تھی، اداس نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس نے آخری بار کہا تھا، ‘راج، میں تمہارا انتظار کرنا چاہتی ہوں۔’

”میں چلا گیا۔ شروع میں اس کے کالز آتے رہے، میل آتی رہی۔ اکثر ہم بات بھی کرتے تھے۔ جب بھی نیا شعر یا افسانہ لکھتی، مجھے بھیج دیتی، لیکن دھیرے دھیرے اس نے مجھ سے بات کرنا بند کر دیا۔ مجھے لگا شاید ناراض ہے۔ میں واپس جا کر اسے ہر طرح سے منا لوں گا۔

”اور اس سے ملنے کی خواہش لیے جب ایک روز میں انڈیا واپس آیا، تو یہاں میری خوشیوں اور تمناؤں کا خون ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے بہت دور جا چکی تھی۔ اسے کینسر تھا۔ اس نے یہ بات مجھ سے چھپائی کہ کہیں میں پڑھائی چھوڑ کر واپس نہ آ جاؤں۔

”اور اس کی موت اسی شہر کے ایک نرسنگ ہوم میں ہوئی تھی۔ مرنے سے پہلے وہ اپنی آنکھیں آئی بینک کو دے گئی تھی۔”

راج بیخود بولے جا رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے ایک سیلاب امڈ رہا تھا۔ نہ جانے کتنے روز سے جو اس نے روکے رکھا تھا۔ ”میں نے وہی آنکھیں غزل بھابھی کو لگوائی ہیں، علی۔ تم نے کئی بار دیکھا ہو گا، وہ مجھے کیسے تکنے لگتی ہیں۔”

اتنی صفائی سے راج بولے جا رہا تھا اور اس کا دل تو شیشے کی طرح صاف تھا۔ میں نے کتنا غلط سوچا اس کے بارے میں۔ علی کا دماغ سوچ سوچ کر پھٹ رہا تھا۔ میں نے غزل پر کتنا بڑا الزام لگا دیا، بنا کچھ جانے۔ وہ بیچاری کتنی معصوم تھی۔ علی کو اپنی کہی باتوں پر شرم محسوس ہو رہی تھی۔

طوفان جا چکا تھا۔ علی نے پرنم آنکھوں سے راج کی طرف دیکھا۔ وہ زور و قطار رونے کے بعد خاموش بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں سوج رہی تھیں، جیسے کسی معصوم بچے کا کھلونا چھین لیا گیا ہو۔

علی سوچ رہا تھا، غزل کے چہرے پر راج کی محبوبہ کی آنکھیں ہیں۔ غزل کے ذہن اور آنکھوں میں کوئی رابطہ نہیں۔ جو وہ دیکھتی ہے، شاید سوچتی نہیں اور جو وہ سوچتی ہے…

علی کے ضبط کا بندھ ٹوٹ گیا اور وہ راج کی گود میں سر رکھ کر رو پڑا۔ ”میں تمہارا گنہگار ہوں دوست، مجھے معاف کر دو۔”

راج حیران تھا کہ اچانک علی کو کیا ہو گیا۔ اس نے کہا، ”ہوا کیا، علی؟ بولو تو؟”

علی اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، ”میں اپنی جان، غزل کو لینے جا رہا ہوں۔ واپس آ کر تم کو سب بتاؤں گا۔” کہتا ہوا تیزی سے چلا گیا۔

دروازہ کھٹکھٹایا۔ غزل کی امی نے دروازہ کھولا۔ علی نے سلام کیا اور کہا، ”غزل کہاں ہے، امی؟ میں بہت شرمندہ ہوں، اسے لینے آیا ہوں۔”

وہ بیخود رو پڑیں اور بولیں، ”بیٹا، تم اب آئے ہو؟ جاؤ، وہ اپنے کمرے میں ہے۔ جا کے دیکھو، اس نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔”

علی تیز قدموں سے دوڑتا ہوا غزل کے کمرے میں چلا گیا۔ دروازے پر پہنچتے ہی جرم کے احساس نے اس کے قدموں کو وہیں جکڑ دیا تھا۔ اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اپنی بیوی کا سامنا کرے۔ بہت ہمت کر کے وہ اندر داخل ہوا۔

غزل اپنے بستر پر لیٹی تھی۔ اس کا گلابی چہرہ اب سیاہ پڑ چکا تھا۔ وہ آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے ہوئے تھی۔ آہٹ پا کر وہ اٹھ بیٹھی۔ علی چلتا ہوا اس کے قریب آ گیا اور وہ علی کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ علی نے جھک کر کہا، ”مجھے ایسے نہ دیکھو غزل، میں تم کو لینے آیا ہوں۔ میں تم کو پوری بات بتانا چاہتا ہوں۔ مجھے معاف نہیں کرو گی، پلیز؟ اور یہ کالا چشمہ کیوں لگا رکھا ہے تم نے؟ ہٹاؤ اسے۔” اور غزل کا چشمہ علی نے اپنے ہاتھوں سے ہٹا دیا۔

چند لمحوں کے لیے وہ سکتے میں آ گیا۔ غزل کی خوبصورت آنکھوں کی جگہ دو بینور گڑھے تھے اور ایک زور دار چیخ سارا عالم گونجتی چلی گئی۔

 

 

 

 

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا