اسلامی شعائر کی حرمت اور اس کا تحفظ

0
52

محمد امین اللہ

اسلام دین فطرت ہے اور اس کے تعلیمات میں زندگی کے ہر شعبے اور ضروریات کے لئے ہدایات اور رہنمائی موجود ہیں۔ جس کاتعلق قرآنی تعلیمات اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔یوں تو دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں کے اپنے شعائر ہیں جن کا تعلق انکی تہذیب ، ثقافت اور علاقائی رسم و رواج و لباس سے ہے جس کا نہ صرف اس کا احترام کرتے ہیں بلکہ اس کو اپنی شناخت کے طور پر اپناتے ہیں۔ با لخصوص مذہبی طبقہ تو اس پر سختی سے کار بند ہوتا ہے۔ اہل کتاب میں یہودیوں کے مذہبی طبقہ یا رہنماؤں کو دیکھا جائے تو وہ نہ صرف داڑھی رکھتے ہیں بلکہ اک مخصوص وضع قطع کا لباس بھی پہنتے ہیں۔ یہ اپنے تمام مذہبی علامت کی شدت سے حفاظت کرتے ہیں اور سبت کے دن تو عام تعطیل کے ساتھ اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ 1967 میں تمام عرب دنیا پر حملے کے لئے انہوں نے سبت کے دن کا انتخاب کیا اور پوری اسرائیلی قوم روزے سے تھی۔ ان کا کوئی مذہبی پیشوا عام یہودیوں کے کا لباس نہیں پہنتا۔عیسائی دنیا گو کہ مذہب بیزاری کا شکار ہے مگر پوری عیسائی دنیا اتوار کو ہی عام تعطیل مناتی ہے۔ ان کا پادری اور تمام پیشواؤں اور پوپ اعظم کا لباس مذہبی ہوتا ہے اور چرچ کی خدمت گار ننیں بھی مخصوص با حجاب لباس پہنتی ہیں اور اپنے سماج میں قابل احترام بھی ہیں احترام سے ان کو ہر عیسائی سسٹر کہتا ہے۔ صلیب ان کا مقدس ترین نشان ہے جو اکثر مذہب پرست عیسائی گلے میں ڈال کر رکھتا ہے۔ اور تو اور عام عیسائی تو گلے میں ٹاء کو صلیب کی علامت کے طور پر باندھتے ہیں۔ہندوؤں کے سادھو سنت اور پنڈت ، بدھوں کے مونک اور راہب ، جینیوں کے مذہبی پیشوا سب کے سب اک مخصوص وضع قطع کے لباس پہنتے ہیں۔ رام کرشنا مشن جو کے ہندوستان میں اک اعلیٰ تعلیمی نظام چلاتے ہیں ان کے اساتذہ اپنے بانی سوامی وویکا نند کا لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ نوبل انعام یافتہ رویندر ناتھ ٹیگور بھی ہندوانہ شکل و صورت اور مذہبی پیشوا تھا۔ داڑھی رکھنا تو ہر مذہب کے پیشوا کی پیچان ہے۔ سکھ قوم و واحد قوم ہے جس کے تمام مرد اپنے مذہب کی پانچ علامتوں یعنی شعائر کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ سر کے لمبے بال ، داڑھی۔ پگڑی اور ہاتھ میں کڑا اور کمر میں کٹار حتیٰ کے انہوں نے ہندوستان
سے باہر یورپ امریکہ اور دیگر ملکوں میں بھی اس کو ترک نہیں کیا یے۔اسلام میں کچھ شعائر تو مجرد ہیں اور کچھ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں اور کچھ متحرک ہیں اور کچھہ اختیاری ہیں۔ مگر قرون اولیٰ سے لے کر آج تک مسلمانان عالم نے نہ صرف اس کو اپنایا ہے بلکہ اس کی حرمت کی حفاظت کی ہے۔اسلامی تہذیب و ثقافت اور رسم ورواج نے تمام قوموں میں اس کی انفرادیت کو قائم رکھا ہے۔
ہماری مساجد کی منفرد تعمیرات تمام مذاہب کی عبادت گاہوں سے الگ ہیں۔ گنبد و مینار اور محراب کی مجموعی تعمیراتی انجینئرنگ مسلم تعمیرات کا اک شاہکار ہے۔
ہماری عبادات نماز روزے حج ، زکوٰۃ اور قربانی سب دیگر مذاھب سے منفرد ہیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے کو اللّٰہ کے بخشے ہوئے داڑھی کے نور سے منور کیا لہذا دنیا کا ہر مسلماناس سنت کو اپنا کر نہ صرف فخر محسوس کرتا ہے بلکہ ہر داڑھی رکھنے والا مسلمان دنیا کے جس کونے کا باسی ہے اک جیسا لگتا ہے اور دور سے ہی پہچان میں آ جاتا ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کی داڑھی دیگر مذاھب والوں سے منفرد ہوتی ہے۔ اسلام میںلباس کے ڈیزائن تو بیان نہیں ہوا ہے بلکہ ستر پوشی کے حدود مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ بیان کئے گئے ہیں۔ مسلمان دیگر مذاھب کے کسی شعائر پر معترض نہیں لیکن آج پوری عیسائی دنیا مسلمانوں کے تمام تہذیب و ثقافت ، بہنوں کے با حجاب ہونے اور مسجدوں کے میناروں پر نہ صرف معترض ہے بلکہ اس کو مٹانے کے درپے ہے۔
قرون اولیٰ کے مسلمان سائنسدان ہوں یا افریقہ و وسط ایشیا ، ہندوستان کے اکابرین ہوں سب کے سب اک مخصوص وضع قطع کے لباس اور داڑھی سے مزین چہرے والے تھے۔ عربوں کا ایک مخصوص لباس ہے جو ہادء برحق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس ہے جس کو عرب دنیا کا ہر مرد زیب تن کرتا ہے ۔ روایت میں آتا ہے کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہندوستان کا پائجامہ پیش کیا گیا تو آپ نے اس کی تعریف کی اور ستر پوش قرار دیا مگر کہا کہ اس کی تیاری ذرا مشکل ہے۔ چین ،جاپان انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیائ￿ میں لوگوں کے داڑھی کے بال نہیں اگتے مگر قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چین کے مشہور عالم دین مولانا ہاؤ کاؤ جان کی داڑھی پر صرف ایک بال تھے جس کو آپ نے بڑھا کر رکھا اور مرتے دم تک اس کی حفاظت کی۔ ہر خطے کے لباس الگ الگ ہیں پھر بھی وہاں مسلمانوں کے لباس کی انفرادیت سر پر پگڑی اور دستار سے قائم ہے۔ مسلمان قبائل تو اپنی دستار اور شملے کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ سر پر ٹوپی رکھنا بھی مسلمانوں کا شیوا ہے۔ جان بوجھ کر خالی سر نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے۔
بر صغیر ہند و پاک میں اگر مسلمانوں اور ہندوؤں کے لباس ، کھانے پینے کے برتن اور دیگر چیزوں کا جائزہ لیں تو وہ با لکل الگ ہیں۔ مثال کے طور پر۔ مسلمان مرد شلوار قمیض پہنتے ہیں اور ہندو دھوتی پہنتے ہیں۔ مسلمان زلف رکھتے ہیں ہندو چٹیا رکھتے ہیں۔ عام مسلمان داڑھی رکھتے ہیں مگر عام ہندو نہیں رکھتا۔ ہندو تھالی میں کھاتا ہے مسلمان رکابی میں کھاتے ہیں ،
ہندو کا بدھنا ہوتا ہے مسلمان لوٹا استعمال کرتے ہیں۔ ہندو عورت ساڑی اور بلاؤج پہنتی ہے جو نیم عریانی کی علامت ہے جبکہ مسلمان خواتین شلوار قمیض اور دوپٹہ پہن کر برقہ اور عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ ہندوؤں کا کھانا الگ لباس الگ وہ شرک کے علم بردار مسلمان توحید پرست۔ اگر اک مسلمان کی داڑھی نہ ہو سر پر ٹوپی نہ ہو اور وہ آج کل کے عام انگریزوں جیسا لباس پہنتا ہو تو گھر اور محلے سے باہر اس کی شناخت مسلمان کے طور پر کیسے کی جائے۔ الا یہ کہ وہ مذہبی پیشوا اور دینی تحریک کا رہنما بھی کہلاتا ہو۔
مسلمان مختون ہوتے ہیں ہندو نہیں ہوتا۔ مسلمان بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں ہندو کھڑے کھڑے پیشاب کرتے ہیں۔ مسلمان استنجا کرتے ہیں ہندو ہر وقت ناپاکی کے حالت میں ہوتے ہیں بلکہ عیسائی بھی۔ مسلمان اپنے مردوں کو احترام کے ساتھ دفناتے ہیں ہندو اپنے
مردوں کو جلانے ہیں زرتشتی مردوں کو تو گدھوں کے حوالے کر دیتے ہیں سکھ بھی مردوں کو جلانے ہیں ہندو تو بڑی بے رحمی
سے مردوں کو جلانے ہیں۔
دور غلامی میں ہمارے اکابرین نے اپنی شناخت مسلمان کی حیثیت سے کراء داڑھی ٹوپی اور مسلمانوں کے لباس میں آزادی کی جد
و جہد کا آغاز کیا۔ حالانکہ اس زمانے میں خود کو انگریزی تعلیم اور لباس میں ظاہر کرتا ترقی کی علامت تھی۔ مولانا مودودی
رحمتہ اللہ علیہ مولانا شوکت علی ، مولانا جوہر علی اور تمام دینی علمائاور تحریک آزادی کے اکابرین نے اسلامی شعائر کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور کبھی بھی نہ سوچا کہ کمیونسٹ اور سیکولر عناصر کو لبھانے کے لئے عام سا لباس زیبِ تن کریں ڈنکے کی چوٹ پر کفر کو للکارا ، عجب ترفہ تماشا دیکھیئے کہ سر سید احمد خان جو انگریزی تعلیم اور انگریزوں کو مسلمانوں کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور بہت سے اسلامی نس پر معترض تھے وہ بھی خود کو مسلمانوں کا رہنما ثابت کرنے کے لئے مسلمان چہرے کے ساتھ میدان عمل میں اترے۔ جن کی تقلید آج بھی لیبرل طبقہ کرتا ہے۔
آج یورپ اور امریکہ میں اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا دین ہے جب بھی کوئی مشہور و معروف شو بز کا ادا کار یا لا دین سیاست دان یا سائنس دان مرد و خواتین اسلام سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہ اپنی جسمانی حیت اور لباس فورآ بدل کر اسلامی تہذیب و ثقافت کے علم بردار بن جاتے ہیں بالخصوص خواتین جو کہ اسلام سے پہلے نیم عریاں لباس پہنتی تھیں فورآ با حجاب ہو کر اسلامی لباس زیبِ تن کر لیتی ہیں۔قرآن میں فرمایا گیا کہ یہ یہود ونصاریٰ تم سے اس وقت راضی نہیں ہوں گے جب تک تم اپنے آپ کو ان جیسا نہ بنا لو۔ آج ہمارا تعلیمی نظام و نصاب انگریزوں سے مستعار ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا کوئی قومی بیانیہ نہیں ہے۔ موجودہ تعلیم یافتہ نسل احساس کمتری کا شکار ہے۔ اسلام نے دیگر اقوام کے مقابلے میں ہماری شناخت کو انفرادیت بخشی ہے۔ حرام و حلال کے معیارات اشیائخوردونوش سب الگ ہیں۔
دور غلامی میں 1940 کی دہائی میں جب علماء دیوبند نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہندو مسلم بھائیچارے کو فروغ دینے کے لئے مسلمان گائے کی قربانی نہ کریں اس وقت مولانا مودودی رحمتہ اللہ نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ مسلمانوں کو گائے کی قربانی لازمی کرنی چاہیے کیونکہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور اس کو مقدس مانتے ہیں اگر آج نہیں کریں گے تو بنی اسرائیل کی طرح یہ بھی اس کو مقدس جان کر پوجا کرنے لگیں گے۔ اسی لئے اللّٰہ نے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ الف مجدد ثانی نے جب اکبر نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے گائے کی ذبیحہ پر پابندی لگائی تھی اس کے خلاف جد وجہد کی اور اس حکم کو منسوخ کروایا۔
مختصراً یہ کہ اسلام کا نظام ، تہذیب ثقافت خوراک ، لباس سب کچھ دیگر اقوام سے جدا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہندو ، عیسائی
، یہودی ، سکھ ، بدھ اور جین دھرم کے پیشوا تو اپنے مذہبی لباس پہنیں مگر مسلمانوں کا دین کے دعویدار رہنما خود کو لبرل ظاہر کرے اور اس شعائر کو فروعی معاملہ کہہ کر نظر انداز کر دے جب کے تحریک کے بانی سے لے کر سابقہ سب کے سب نے دینی وضع قطع اپناتے رہے ہوں۔ مدارس کے علماء ، تبلیغی جماعت کے افراد ، سنی تحریک کی قیادت ، ہری پگڑی اور دیگر دینی تحریکوں کی قیادت اپنے وضع قطع کو بدل کر میدان عمل میں اتریں اور ہزاروں جدید دور کے نوجوانوں کو اپنے جیسا بنا لیں اور عالمی اسلامی تحریک کی قیادت کئی دہائیوں کے بعد اس کو یہ کہہ کر ترک کرے کہ یہ فروعی باتیں ہیں۔ اہل تشیعہ کے علماء اور پیشوا بھی داڑھی اور پگڑی کے بغیر نہیں ہوتے یہ تو مومنوں کے چہرے کا حسن ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جب لبرل دور کا غلبہ تھا تو داڑھی رکھنے والے نوجوان کو دلہنیا ملنے میں دقت ہوتی تھی مگر اب تو داڑھی والے دلہے کی قدر و قیمت بڑھ گئی ہے۔ لہذا ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ اسلامی شعائر کی حرمت کی حفاظت کرے اور اس کو ببانگ دہل اپنائے۔دین کا کام کرنے کے لئیچہرے بسرے اور عمل سے دینداری ظاہر کرنا ہوگی۔تہذیب پھر سے آء ہے پتھر کے دور کی۔یہ اور بات ہے کہ نئے پیرین میں ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا