معاشرے سے صنفی امتیاز کو ختم کرنے کی ضرورت

0
97

 

کویتا دھمیجا
جے پور، راجستھان

صنفی بنیاد پر امتیاز، جسے ’’جنسی امتیاز‘‘ بھی کہا جاتا ہے، آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے خواتین نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی ترقی میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی جانب سے جاری کردہ 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2021 کے مقابلے 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم میں چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں ملک میں جرائم کے 58 لاکھ سے زائد مقدمات درج ہوئے جن میں خواتین کے خلاف جرائم کے تقریباً ساڑھے چار لاکھ کیسز تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر گھنٹے میں خواتین پر تشدد کی اوسطاً 51 ایف آئی آر درج کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق جہاں خواتین کے خلاف تشدد کے سب سے زیادہ کیس دارالحکومت دہلی میں درج کیے گئے
وہیں راجستھان کی راجدھانی جے پور اس معاملے میں ملک کا چوتھا سب سے زیادہ غیر محفوظ شہر ریکارڈ کیا گیا ہے۔اگر ہم این سی آر بی کے ریاستی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو راجستھان ملک کی تیسری ریاست ہے جہاں 2022 میں خواتین کے خلاف تشدد کے سب سے زیادہ کیس درج ہوئے ہیں۔ عصمت دری جیسے گھناؤنے فعل کی بات کریں تو اس معاملے میں سب سے زیادہ کیس راجستھان میں درج ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2022 میں ملک بھر میں عصمت دری کے 31 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ 5,399 معاملے اکیلے راجستھان میں ہی درج کیے گئے تھے۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد یا امتیازی سلوک کے زیادہ تر واقعات شوہر یا اس کے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔
درحقیقت خواتین کے خلاف نہ صرف جسمانی یا ذہنی امتیاز بلکہ جنسی اور معاشی امتیاز بھی صنفی تشدد کے زمرے میں درج ہے۔ اس کی سب سے زیادہ وسیع شکل پارٹنر تشدد ہے، جہاں ایک عورت اپنی زندگی کے کسی موڑ پر شوہر یا ساتھی کے ذریعے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیداری کی کمی کی وجہ سے ہی عورتیںشوہر کی طرف سے تشدد یا صنفی امتیاز کا شکار ہوتی ہیں، لیکن شاذ و نادر ہی پولس میںاس کی شکایت کرتی ہیں۔ یہی رجحان نہ صرف دیہی علاقوں بلکہ شہری علاقوں میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں عورت گھر اور خاندان کی عزت کے نام پر شوہر کے ہاتھوں ہونے والے جسمانی یا ذہنی تشدد کو برداشت کرتی رہتی ہے۔ تاہم بہت سی خواتین ہمت دکھاتی ہیں اور اپنے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور پولیس میں شکایت بھی درج کراتی ہیں۔ اس کی ایک مثال راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں واقع بابا رام دیو نگر کی کچی آبادی ہے۔ جہاں صنفی امتیاز بڑی تعداد میں نظر آتا ہے۔یہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی اکثریت والی بستی شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر دور، گجر کی ٹھڈی علاقے میں واقع ہے۔500 سے زائد آبادی پر مشتمل اس کالونی میں لوہار، میراسی، کچرا اٹھانے والے، فقیروں، شادیوں میں ڈھول بجانے والے اور یومیہ اجرت کرنے والے مزدوروں کی بڑی تعداد ہے۔
اس کالونی میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے، خاص کر خواتین میں۔ والدین لڑکیوں کو ساتویں جماعت سے آگے نہیں پڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں کچرا اٹھانے کے کام پر لگایا جاتا ہے۔ آگاہی کی کمی کی وجہ سے اس کالونی میں صنفی تشدد اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے بستی سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ مینا دیوی (بدلیا ہوا نام) کہتی ہے کہ میں کچرا اٹھاتی ہوں اور میرے شوہر مزدوری کا کام کرتے ہیں، میرے 6 بچے ہیں جن میں سے 4 لڑکیاں ہیں۔ گھر کی حالت ایسی ہے کہ ہم کسی طرح زندہ رہنے کا انتظام کرتے ہیں، میں اور میری دو بیٹیاں اپنی روزی کمانے کے لیے کوڑا اٹھانے کا کام کرتی ہیں؟ وہ بتاتی ہیں کہ ’’میرا شوہر نشے میں دھت ہو کر مجھے مارتا تھا، جس کے برے اثرات بیٹیوں پر بھی پڑ رہے تھے۔ ایک دن پریشان ہو کر میں نے پولیس کو فون کیا، جس کے بعد اب وہ مجھے بہت کم مارتا ہے۔
مینا کہتی ہیں کہ خواتین کا اپنے شوہروں کے تشدد کا شکار ہونا اتنا عام ہے کہ اس کا کالونی میں کسی پر بھی اثر نہیں پڑتا۔ کالونی میں اکثر مرد نشے میں دھت ہوتے ہیں اور اپنی بیویوں پر تشدد کرتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں کالونی میں کئی رضاکار تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ جو خواتین کو اس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے آگاہ کر رہی ہیں۔ لیکن یہ ابھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور خاتون کا کہنا ہے کہ’’وہ 8 سال قبل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ کوٹا سے جے پور کی اس کالونی میں رہنے آئی تھی۔ اس کے شوہر اسکریپ ڈیلر کے طور پر کام کرتے ہیں جبکہ وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہے کہ اس کا شوہر نشے میں دھت ہو کر روزانہ اس کے ساتھ تشدد کرتا ہے۔ اسے کالونی میں کام کرنے والی رضاکار تنظیموں کے کارکنوں سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دیتاہے۔
اس خاتون کے ہاتھ کئی جگہوں پر جلے ہوئے تھے۔ جو اس کے ساتھ ہونے والے جسمانی تشدد کو بیان کر رہے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر کالونی کی خواتین اسے اپنے شوہر کے تشدد سے بچاتی ہیں۔ کئی بار اسے پولیس سے مدد لینے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے۔اس حوالے سے سماجی کارکن اکھلیش مشرا کا کہنا ہے کہ ’’بہت سی خواتین کے لیے اپنے شوہروں کے خلاف کارروائی کرنا بہت مشکل کاکام ہے۔ درحقیقت تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے اس کالونی کی خواتین اپنے حقوق سے واقف نہیں ہو پاتی ہیں۔ حالانکہ خواتین کو جنسی امتیاز یا تشدد سے بچانے کے لیے کئی رضاکار تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔ جس کا یہ اثر ہے کہ اب خواتین اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے لگی ہیں۔ لیکن اب بھی اس بیداری کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔‘‘اکھلیش کا کہنا ہے کہ اس کالونی میں لڑکیوں کی تعلیم کی سطح بہت کم ہے۔ خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جاتی ہے۔ تعلیم سے یہ دوری انہیں اپنے حقوق کے شعور سے بھی دور کر دیتی ہے۔ درحقیقت صنفی امتیاز ہمارے معاشرے میں ایک وبا کی طرح ہے۔ اس کا سامنا کرنے اور اسے ختم کرنے کے لیے سماجی تعاون کی ضرورت ہے۔ خواتین کے لیے صرف آگاہی کی بات کر کے معاشرہ اپنی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے بلکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا، تاکہ ایک موثر، مساوی اور امتیاز سے پاک معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا