نتش کمار اپنی پارٹی کے ٹوٹنے کے ذمہ دار خود ہوں گے

0
138

۰۰۰
بینام گیلانی
۰۰۰
سیاست واقعی بہت ہی بییقین شئے ہے۔اس میں نہ کوئی سدا کے لئے اپنا دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن ہوتا ہے۔سیاست میں سارے رشتے موقع مصلحت اور اپنے غرض و مفاد کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔۔چنانچہ اس سیاست میں نہ کسی سے دوستی دیرینہ ہوتی ہے اور نہ ہی دشمنی۔اس میدان عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان خود کو سب سے زیادہ ماہر سیاست ،ذی فہم و چابک دست حتیٰ کہ چانکیہ تصور کرتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی یہ تصور انہیں بہت ہی گراں گزر جاتا ہے اور پھر ان خود ساختہ جانکیہ صاحب کے پاس جز کف افسوس ملنے کے کچھ بھی نہیں رہ جاتا ہے۔ہوشیاری و سمجھداری کا سارا خمار ایک چشم زدن میں اتر جاتا ہے۔پھر وہ یہ سوچنے کو مجبور ہوتے ہیں کہ ہم نے جو یہ تعجیل میں قدم اٹھایا وہ غلط تھا۔ لیکن چونکہ وقت ہاتھوں سے نکل چکا ہوتا ہے اس لئے ان کے پاس سوا ہاتھ ملنے کے کوئی چارہء کار نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ اب وہ بیچارے اپنا سب کچھ گنوا چکے ہوتے ہیں۔
یوں تو نتش کمار اپنا اتحادی تبدیل کرنے میں ماہر ہیں۔اس میدان عمل میں تو آپ نے ماہر موسمیات آنجہانی رام ولاس پاسوان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔جب رام ولاس پاسوان کے صاحبزادے چراغ پاسوان نے آپ کی کسی بات پر اعتراض جتایا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ وہ ابھی لڑکا ہے۔”جتنے اس کی زندگی کے سال ہیں اس سے زیادہ بار تو میں وزیر اعلیٰ کا حلف لے چکا ہوں”.بار بار کی ان حلف برداریوں کر نتش کمار اپنی حصولیابی و کامیابی تصور کرتے ہیں۔اب آپ موصوف کے اس طفلانہ عمل پر دنیا کو ہنسی نہ آئے تو کیا آئے۔شاید نتش کمار گزشتہ دو صوبائی انتخاب کو فراموش کر چکے ہیں جن میں اسی بچے کے باعث آپ کو کئی نشستیں گنوانی پڑی تھیں اور اس بچے کو آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے اسی بی جے پی خصوصاً مودی اور شاہ نے بھیجا تھا جن کی حکومت بنانے اور بچانے کی کوشش آپ فرما رہے ہیں۔اگر کسی دوسری سیاسی جماعت کو اپنے انتقام کی آگ بجھانے کا ایسا سنہرا موقع ملا ہوتا تو آج یہ این ڈی اے کی حکومت تشکیل نہیں پاتی۔مگر معلوم نہیں کیوں آپ یہ زہر کا گھونٹ پینے کو مجبور ہوئے۔ آپ کے طرز عمل سے تو ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ موصوف کی کوئی بہت ہی کمزور رگ کو مودی اور شاہ۔ے بہت ہی مضبوط طریقے سے پکڑ رکھا ہے۔یہی سبب ہے کہ بی جے پی کے ذریعہ آپ کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے باوجود آپ نے اسپیکر کے انتخاب میں این ڈی اے کی حمایت کر دی جبکہ آپ کی ہی جیسی حیثیت اس وقت چندر بابو نائڈو کی بھی تھی لیکن وہ اپنے مطالبے پر بڑے ہی استقلال و استحکام کے ساتھ ڈٹے رہے۔جس کا ماحصل یہ سامنے آیا کہ ان کے لئے بجٹ میں 100000(ایک لاکھ کروڑ) کا خصوصی نظم کیا جا رہا ہے۔ یہ خبر فی زمانہ مصدقہ تو نہیں ہے لیکن دھواں وہیں اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہوتی ہے۔ تاہم ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گشت کر رہی ہے اور اس پر اندر خانے کام بھی شروع ہو چکا ہے۔اب جب یہ خبر ذرائع ابلاغ تک پہنچ چکی ہے تو یقیناً نتش کمار تک بھی پہنچ ہی چکی ہوگی۔لیکن اس پر ابھی تک آپ موصوف کا کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔شاید وہ فی الوقت مصلحتاً خاموشی اختیار کئے ہوئے ہوں۔کیونکہ موصوف نے 29 جون کو دہلی میں اپنی پارٹی کی ایک اہم نشت رکھی ہیں۔جس میں یہ مسئلہ بھی زیر غور آنے کا قوی امکان ہے۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ نتش کمار کی حیثیت یا قدر و قیمت و اہمیت بی جے پی کی نگاہ میں چندر بابو نائڈو کی بنسبت بیت ہی کم ہے۔جبکہ دونوں ہی کے حالات ،ضروت اور اہمیت مساوی ہیں۔پھر آخر کیا سبب ہے کہ چندر بابو نائڈو کو بی جے پی ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہی ہے اور نتش کمار کو بالکل ہی ناقابل اعتنا تصور کر رہی ہے۔اسے سمجھنے کے لئے نتش کے ماضی کے صفحات الٹنے کی ضرورت ہے تاہم سیاست میں کسی لیڈر کے ماضی و حال کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ عین اس وقت سیاست کے کیا تقاضے ہیں ان کے مطابق ہی اقدام کرنے ہوتے ہیں اور فی الحال وقت کا تقاضا یہ ہے کہ این ڈی اے حکومت کو جد یو کے 12 ایم پی کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ پھر بھی بی جے پی نتش کمار کو بالکل ہی نظر انداز کر رہی ہے۔اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مودی اور شاہ کی جد یو ایم پی سے کچھ اندر خانے کھچڑی پک رہی ہے۔تبھی تو مودی اور شاہ اطمینان سے بیٹھے ہیں۔اس کا اظہار دیویش ٹھاکر کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ مسلمانوں اور جادووں نے مجھے ووٹ نہیں دیا ہے اس لئے ہم ان دونوں کا کام نہیں کر سکتے ہیں۔ایسا بیان تو میدان سیاست کا ادنیٰ سے ادنیٰ کھلاڑی بھی نہیں دے سکتا ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اتنا کچھ گزر جانے کے بعد بھی مسلمان نتش کمار کے ساتھ ڈٹے ہئے۔اس طرح تو ٹھاکر دانستہ مسلمانوں کو نتش کمار سے الگ کرنے کی مذموم سازش کرتے نظر آتے ہیں۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی نتش کمار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اس کا یہ معنی ہوا کہ خود نتش کمار نے اپنے وزیر کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اب ہم مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں۔ایسا ممکن بھی ہے کہ نتش کمار اب مودی اور شاہ کے ہاتھوں کا کھلونا ہو کر رہ گئے ہیں۔اپ کی یہ فہم مسلمانوں کے لیے تو زیاں رسا ہوگی ہی۔خود آپ کی کشتی کو بھی غرقاب کر سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ ایسی فہم سے آپ خود بھی گریز فرمائیں اور اپنے ان لیڈران کو بھی تنبیہ فرمائیں۔ نو آپ کی کشتی کو غرقاب کرنے کے درپے ہیں۔ویسے بھی فی زمانہ آپ اپنے بہت برے دور سے گزر رہے ہیں۔جس طرح نرسمہا رائو نے کانگریس کو قریب قریب موت کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔کہیں دویش ٹھاکر جیسے آپ کے لیڈران آپ کی ٹیا نہ ڈبو دیں۔
معاف کیجئے شری نتکمار جی۔ناچیز کو تو ایسا رقم نہیں مکرنا چاہئے لیکن چونکہ آپ سے تھوڑی ہمدردی ہے اس لئے لب کشائی کو مجبور ہوں۔ادھر مشاہدے میں آرہا ہے کہ آپ کی پشت پر خنجر زنی کرنے والوں کو آپ ابھی تک اپنے قریب ہی نہیں بلکہ مشیر خاص بنائے بیٹھے ہیں۔جس راجیو رنجن عرف للن سنگھ سے آپ نے اپنی پارٹی کا عہدہء صدارت اپنے پاس واپس لے لیا تھا۔اخر کیا سبب تھا کہ اس قدر عجلت میں یہ قدم اٹھا پڑ گیا۔کوئی نہ کوئی تو سبب ہوگا ہی۔جب معاملہ بییقینی کا تھا تب بھی آپ نے انہیں مشیر خاص بنائے رکھا۔نتیجہ کے طور پر وہ آپ کے ذریعہ 20 جون کو کارکنوں کی بلائی گئی مٹنگ سے غائب رہے۔اس کا اندازہ ناچیز کو اسی وقت ہو گیا تھا جب للن سنگھ نے مرکزی حکومت میں وزارت ملنے کے بعد کھلے عام یہ بیان دیا تھا کہ مجھے مرکزی حکومت سے کوئی شکایت نہیں جو بھی ملا وہ تشفی بخش ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت آپ بھی اس وزارت کو اپنی اور اپنی پارٹی کی توہین تصور کر رہے تھے۔اپ کے علاوہ آپ کے دیگر ساتھی بھی اسے پارٹی کی توہین ہی تصور کر رہے تھے۔
صرف ایک للن سنگھ ہی تھے جو اسے تشفی بخش بتا رہے تھے۔اس کا شاید یہ سبب تھا کہ للن سنگھ اور شاہ میں پہلے ہی سودا بازی ہو چکی تھی۔ ناچیز کو حیرت اس امر پر ہے کہ آپ جیسے ذی فہم اور بہار کے چانکیہ کہے جانے والے سیاستدان کو یہ بات فہم میں نہیں آئی کہ آپ کے خلاف کہاں کیا سازشیں رچی جا رہی ہیں۔
چلئے کبھی کبھی اچھے اچھے ذی فہم انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے ہے۔لیکن مسلسل غلطیوں کا سرزد ہونا غلطی نہیں بلکہ نادانی پر مبنی ہوتا ہے۔مورخہ 29-30جون کی مٹنگ میں آپ نے شری سنجئے جھا کو پارٹی کا کارگزار صدر نامزد کر دیا۔جبکہ اس امر کا آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ بی جے پی سے نکل کر ائے ہیں۔ آپ سیاست کی بساط کی یہ چال تو معلوم ہوگی ہی کہ کچھ پیادے خود بساط سے دور ہو جاتے ہیں اور کچھ پیادوں کو دشمنوں کی صف میں دوست بنا کر بھیج دیا جاتا کہ وہ جاکر اس صف کو اندر سے کمزور کر کے بکھیر دے۔جس طرح کانگریس میں نرسمہا رائو کو آر ایس ایس نے بھجا تھا۔ممکن ہے کہ یہ سنجئے جھا جد یو کے لئے ایک نئے نرسمہا رائو ثابت ہوں۔اس امر کا ثبوت بھی سامنے آنے لگا ہے۔
کل تک آپ بی جے پی پر سوا نظر آرہے تھے اور اب آپ پر بی جے پی سوا نظر آنے لگی ہے۔
ابھی تو مٹنگ سے للن سنگھ ہی غائب ہوئے ہیں۔آگے آگے دیکھئے کون کون غائب ہوتے ہیں اور آپ ہیں کہ وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔کہیں یہ انتظار کی گھڑیاں لامتناہی نہ ہو جائیں اور آپ مجبور و بیبس کی طرح اپنی پارٹی کے ٹوٹنے کا تماشا دیکھتے رہ جائیں۔اگر ایسا واقعی عمل پزیر ہوا تو اپنی پارٹی کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے صرف اور صرف آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔کیونکہ جد یو آج بھی ون مین آرمی کی حیثیت رکھتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا