متبادل ملازمت کی تلاش: اندیشے اور مضمرات

0
175

۰۰۰
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
۰۰۰
انسان جلد باز واقع ہوا ہے، اس میں استقلال کی کمی پائی جاتی ہے، وہ فیصلہ میں جلد بازی کرتا ہے یہ عجلت پسندی اسے کبھی کبھی پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے، قرآن کریم کی سورہ اسراء آیت نمبر گیارہ میں انسان کی اس صفت کا ذکرموجود ہے، ارشاد ربانی ہے،۔ ایک دوسری آیت میں ہے کہ بے شک انسان بڑا بے صبرا اور حریص پیدا ہوا ہے، (سور? المعارج: 19) بے صبری اور عجلت پسندی کے بہت سارے مظاہر انسانی زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں، ان میں سے ایک زیادہ روپے اور سہولیات کے حصول کے لئے متبادل ملازمت کی تلاش ہے، رزق کی ایک جگہ اللہ نے مہیا کر رکھی ہے وہ اس پر قناعت نہیں کرتا، خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھتا ہے اور لگی ہوئی ملازمت کو لات مار دیتا ہے، گو اپنا مستقبل بنانے کے لیے اس میں کوئی ایسی بْرائی نہیں ہے، لیکن جب تک متبادل نہیں مل جائے پرانی جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہیے، لنک ڈین کے ذریعہ کیے گیے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ امسال اٹھاسی(88)فی صد ملازمت سے لگے ہوئے لوگ اپنی نوکری بدلنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، یہ اعداد وشمار گذشتہ سال کے اعداد وشمار سے چار فی صد زیادہ ہے، جب ان سے سروے میں یہ دریافت کیا گیا کہ دوسری ملازمت میں کیوں جانا چاہتے ہیں تو بیالیس (42)فی صد لوگوں نے اس کی وجہ بہتر ملازمت اور معیاری طرز زندگی کی تلاش کو قرار دیا، سینتیس (37)فیصد لوگ وہ تھے جو صرف تنخواہ میں اضافے کی غرض سے لگی ہوئی نوکری چھوڑنا چاہتے تھے، ہر دس میں آٹھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا ماننا تھا کہ موجودہ مشغولیت کے علاوہ دوسری ملازمت میں وہ اپنا اچھا مستقبل تلاشنا چاہتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ پیشہ بد ل کر بھی اپنا مستقبل بنایا جا سکتا ہے۔
یہ معاملہ خواب وخیال کی طرح لگتا ہے، ہندوستان جیسے ملک میں جہاں بے روزگاری عام ہے، لگی ہوئی ملازمت کو چھوڑ کر دوسرا متبادل تلاش کر لینا آسان نہیں ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ کبھی کبھی ممکن ہوجاتا ہے، لیکن اوسط تعلیم والے لوگ جن کے پاس کوئی ٹیکنیکل ہینڈ (ہنر مندی)بھی نہ ہو یہ جوکھم بھرا کام ہے، بلکہ ایک طرح چیلنج ہے، اس لیے متبادل ملازمت کی تلاش ضرور کرنی چاہیے، لیکن استعفیٰ دینے کے قبل ان امور کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے، جو آپ کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی مالی حالت کیسی ہے، اور پہلی ملازمت چھوڑ نے کے بعد دوسری ملازمت کے حصول کے امکانات کس قدر ہیں، اس حصول میں پہلی ملازمت چھوڑنے کے بعد کس قدر وقفہ درکار ہوگا،استعفیٰ دینے کے قبل اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر ملازمت نہیں ملی تو آپ اپنی جمع شدہ رقومات سے کتنے دنوں تک بال بچوں کے اخراجات اٹھا سکیں گے، اس لیے کہ ضروری نہیں کہ ایک جگہ سے استعفیٰ دینے کے بعد دوسری جگہ ملازمت فورا مل جائے، استعفیٰ سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آپ کے صحت بیمہ، ریٹائر ہونے کے بعد کی سہولیات پر وڈنٹ فنڈ، گریچوٹی اور ملازمت سے ملنے والی دیگر سہولیات اور مراعات پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔
جائزہ اس بات کا بھی لینا چاہیے کہ جس وقت استعفیٰ دے رہے ہیں، اس وقت ملازمتوں کے ملنے کے مواقع کس قدر ہیں، کبھی بہت ساری آسامیاں خالی ہوتی ہیں اور ان کے پْر کرنے کی ویکینسی نکلتی ہے، جیسے حال میں بہار میں اسکول اساتذہ کی بحالی بڑے پیمانے پر ہوئی اور دوسری مشغولیت سے جْڑے بہت لوگوں نے متبادل ملازمت کو پالیا اور اب وہ اسکول ٹیچر ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ برسوں ویکنسیاں نہیں آتیں اور بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، اگر جاب مارکیٹ میں کساد بازاری ہے تو آپ کو ویکینسی کا انتظار کرنا چاہیے اور فورا استعفیٰ نہیں دینا چاہیے۔
سرکاری ملازمتوں میں خصوصاََ تدریسی شعبے میں یہ سہولت ہے کہ کیریر بنانے کے لیے فرصت مل جاتی ہے، آپ اس کا استعمال غیر ملک جانے کے لیے بھی کر سکتے ہیں اور دوسری ملازمت میں جمنے کے لیے بھی، اس لیے کہ بسا اوقات دوسری ملازمت کے چکر میں آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ تاڑ سے گر کر کھجور میں اٹک گیا ہے، اگر آپ فرصت لے کر گیے تھے اور دوسرے کام سے آپ مطمئن نہیں ہیں تو آپ کے لیے واپسی کا دروازہ کھلا ہوا ہے، لوٹ آئیں، لیکن پرائیوٹ ملازمت میں عموما ایسا نہیں ہوتا، سوائے اس صورت کے کہ آپ کمپنی کی ضرورت بن گیے تھے اور آپ کے وہاں سے منتقل ہونے سے کمپنی نقصان محسوس کرتی ہے، تب تو آپ کے لیے دوبارہ کی گنجائش نکل سکتی ہے، اور کمپنی ممکن ہے آپ کی تنخواہ میں اضافہ اور سہولیات بڑھا کر آپ کو پھر سے رکھ لے، لیکن عموما ایسا نہیں ہوتا، ایسے میں پہلی ملازت چھوڑتے وقت اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہوگا کہ آپ کمپنی اورادارے کی ضرورت بن چکے ہیں یا واپس آکر آپ کوخود کے لیے ملازمت کی ضرورت ہے، ایجنسیاں کمپنیاں، کارخانے اور تنظیموں کا معاملہ الگ الگ حالات میں الگ الگ ہوتا ہے، کبھی ملازمت سے لوگ ریٹائر کر دیے جاتے ہیں اور کبھی ضرورت ہوتی ہے تو ریٹائروں کی بحالی ہوجاتی ہے، یہ آپ پر منحصرہے کہ آپ جہاں کام کر رہے ہیں، وہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا ہے یا نہیں، دوسرے الفاظ میں یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ ادارہ کی ضرورت ہیں یا آپ کو ملازمت کے لیے ادارہ کی ضرورت ہے، یقینی طور پر الگ الگ حالات میں فیصلے بھی الگ الگ ہو سکتے ہیں، اس صورت حال کو سامنے رکھے بغیر آپ نے استعفیٰ دینے میں جلد بازی کی تو اس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا، اور ہو سکتا ہے کہ اچھے مستقبل کی تلاش میں آپ کی موجودہ حالت اور حیثیت بھی باقی نہ رہے
دوسری ملازمت کے لیے استعفیٰ دیتے وقت اپنی عمر، صحت وقوت کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں بڑھتی عمر کے سایے دوسری ملازمت کے حصول میں رکاوٹ تو نہیں بنیں گے، ہر جگہ جب ویکنسی ہوتی ہے تو اس میں عمر کی قید درج ہوتی ہے، جائزہ اس بات کا بھی لینا چاہیے کہ ملازمت کی عمر کہیں نکل تو نہیں گئی ہے، یا قْویٰ اس قدر مضمحل تو نہیں ہو گیے ہیں کہ کام کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے، اس شکل میں جہاں آپ ملازم ہیں لگے رہنا چاہیے، اس لیے کہ جہاں آپ ہیں وہاں آپ کی قدر سابقہ خدمات کی وجہ سے ہے، اس معاملہ میں استثنیٰ صرف تدریسی اور تنظیمی ذمہ داریوں کا ہے، پڑھانے میں جتنی عمر گذرتی ہے، اس سے علم میں وسعت پیدا ہوتی ہے اورتدریسی تجربہ کی وجہ سے طلبہ میں مقبولیت بڑھتی رہتی ہے، اسی لیے کم از کم آزاد مدارس دینیہ میں ریٹائرمنٹ اور سبکدوشی کا کوئی قانون نہیں ہوا کرتا، بلکہ مثل مثہور ہے کہ ساٹھا تب پاٹھا،
یعنی جب عمر ساٹھ کے قریب ہوتی ہے تب پڑھانے میں مزہ آتا ہے، یہی حال تنظیموں کا ہے یہاں بھی سبکدوشی کا کوئی معنی مطلب نہیں ہے، آدمی کام کرنیکے لائق نہیں رہا، تو اس شخص کا خود بخود ادارہ سے الگ ہوجانا یا ذمہ داروں کے ذریعہ الگ کر دیا جانا ایک فطری چیز ہے، لیکن اگر آدمی کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا تھوڑی بہت صلاحیت کمزور ہو گئی ہے تو بھی اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب سے جب کسی مسئلہ پر ہم لوگ اختلاف کرتے تو فرماتے: مولوی صاحب آپ کا علم ہم سے زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن مولوی صاحب تجربہ ہمارے ہی پاس ہے، میں طویل مدت سے امارت کے کاموں کو دیکھ رہا ہوں اور واقعتا وہی صحیح ہوتا، جو حضرت کی رائے ہوا کرتی تھی، اس لیے کہ ان کی رائے تجربہ پر مبنی ہوا کرتی تھی، ہمہ گیر تعلیمی مہم، ہنر منصوبہ پر امارت شرعیہ نے کام کیا، وہ امارت شرعیہ کے بینر تلے ان دونوں کاموں کے ہمیشہ مخالف تھے، بڑے اصرار کے بعد اجازت انہوں نے دی تھی، وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کا انکار درست تھااورہماری دلیلیں ان منصوبوں سے جڑنے کی چاہے جتنی مضبوط رہی ہوں، غلط تھیں، یہی وجہ ہے کہ جوانوں کو موقع دینے کے مطالبہ کے باوجود ملی، تنظیموں اور مدارس میں مرنے سے پہلے انہیں ہٹایا نہیں جاتا، ان دو شعبوں کو چھوڑ کر بقیہ سب جگہ آپ کے کام کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے، اس لیے اگر صلاحیت ہے اور بڑھتی عمر کے سایے نے آپ کی کار کردگی کو کمزور نہیں کیا ہے اور آپ اپنا کیریر کسی دوسری جگہ بنانا چاہتے ہیں تو ایساکر سکتے ہیں، ورنہ جوکھم مت اٹھا ئیے، اس لیے کہ آپ بیروزگار ہو سکتے ہیں، اور مالی دشواریاں انسان کو کبھی کبھی کفر کے قریب پہونچا دیتی ہیں، عربی میں کہا جاتا ہے، کاد الفقر ان یکون کفرا۔ یہی وجہ ہے کہ جو حضرات بینک وغیرہ میں ملازمت کرتے ہیں، جہاں سود وغیرہ کا کام ہوتا ہے، مفتیان کرام متبادل ملنے تک بادل نا خواستہ اس میں لگے رہنے کی اجازت دیتے ہیں، اس لیے کہ اگر آدمی سڑک پر آگیا تو اسے زیادہ بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے اھون البلیتین دو میں سے جو ہلکی ہے اسے قبول کیے رہنے کی اجازت دی جاتی ہے، اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ متبادل ملازمت کی تلاش کی جائے، لیکن بہت غور وفکر کے بعدایسا نہ ہو کہ اچھے کی تلاش میں موجودہ ملازمت بھی جاتی رہے اور مثل مشہور ہے کہ آدھی چھوڑ ساری کو جائے۔ آدھی رہے نہ ساری پائے۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا