’’ آخر ہم کب تک غلامانہ زندگی بسر کرینگے؟‘‘

0
160

قیصر محمود عراقی

اگردیکھا جا ئے تو جسمانی غلامی اتنی معیوب نہیں جتنی ذہنی غلامی ہے ۔ اگر کسی قوم کی فکر اور سوچ آزاد نہ ہو تو وہ کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کر تی اور موقع پاتے ہی خود کو آزاد کر وا لیتی ہے ، جبکہ کسی قوم کا ذہنی غلامی میں مبتلا ہو جا نا اس کے اندر سے سوچنے تک کی صلاحیت کو ختم کر کے رکھ دیتا ہے ۔ ذہنی غلامی کا شکار قوموں کی ترجیحات ہی بدل جا تی ہیں ، جیسے کوئی ریوڑ ہانکا جا رہا ہو ، نہ تو کہ سوچنے کی صلاحیت رہتی ہے اور نہ ہی حالات کو اپنی نظروں سے دیکھتی ہیں بلکہ ان کے آقا جس طرف چاہتے ہیں ان کی سوچوں کا رخ موڑ دیتے ہیں ، پھر اس پر ستم بالائے ستم کہ یہ بے چارے غلام یہی سمجھ رہے ہو تے ہیں کہ ہم آزاد سوچ کے مالک ہیں ۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں کو ہر قدم پر نازک حالات سے نبرد آزما ہو نا پڑا ۔ حضور اکر م ﷺ کے وصال کے فوراً بعد اٹھنے والا ارتداد کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہ تھا ۔ اگر اسلام کی بجائے دنیا کا کوئی اور مذہب ہو تا تو اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا لیکن اس خطرناک فتنہ سے مسلمان سرخرد ہو کر نکلے ۔ 1258ء میں فتنہ تا تار درحقیقت ساری دنیا سے مسلمانوں کا وجود مٹا دینے کی سازش تھی ، تاتاری ایک کے بعد ایک مسلم علاقہ فتح کر تے جا تے تھے ، یوں لگتا تھا کہ اس تباہی مچاتے خونی سیلاب کو کوئی نہیں روک پائے گا ۔ کیونکہ کسی قوم کے لئے اس سے بڑی مایوس کن خوف کی بات کیا ہو گی کہ اس کے دار الخلافہ کی اینٹ بجادی جا ئے ا ور خلیفہ وقت کو چٹائی میں لیٹ کر گھوڑوں کے سمُوں تلے روند ڈالا جا ئے لیکن اس سب کے باوجود بھی مسلمان ہمت نہیں ہارے اور تا راریوں کے خلاف میدان جہاد میں نکل آئے اور بالا آخر ان کو شکست دی۔ غرض یہ کہ جب تک مسلمانوں میں خلافت رہی مسلمان کبھی کسی قوم کے ذہنی غلام نہیں بنے بلکہ ان کی سوچیں ہمیشہ آزاد رہیں لیکن خلافت ٹو ٹنے کے بعد جہاں ایک طرف مسلم علاقوں پر کافر قبضہ کر تے چلے گئے وہیں ان کے ذہن بھی کافروں کی غلامی میں جا تے رہے ۔ اس غلامی کے اثرات اتنے موئثر اور دیر پا ثابت ہو ئے کہ جسمانی آزادی کے باوجود بھی مسلمان ذہنی طور پر کافر طاقتوں کے غلام ہی رہے ۔ ذہنی غلامی کی سب سے بڑی نحوست یہ ہو تی ہے کہ ایسی قومیں اچھے کو برا اور برے کو اچھا ، نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع ، دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن سمجھ رہی ہو تی ہیں ۔ اس ذہنی غلامی کے زہریلے اثرات نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اس دور میں اسلامی حلافت کی کوئی ضرورت نہیں اور اب جمہوریت کا دور ہے ۔ اس ذہنی غلامی میں مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے مطابق سوچنے کی صلاحیت سے قاصر کر دیا کہ وہ حالات کا قرآن و حدیث کی روشنی میں تجزیہ کر سکیں ۔
آج دنیا تبدیل اور لوگ بدل چکے ہیں ، ہمارے خیالات ، خواہشات ، مقاصد ، تہذیب ، کلچر اور سب سے بڑھ کر سوچ عجیب صورتِ حال سے دوچار ہے ، انسانیت نام کی کوئی چیز ہم میں نہیں رہی ، ہم گہری دلدل میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنا مشکل نظر آتا ہے ، ہم دوسروں کی نقل کر کے فخر محسوس کر تے ہیں ، اپنی زبان سے زیادہ دوسروں کی زبان کو ترجیح دیکر خوشی محسوس کر تے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال خراب رہی ہے کیونکہ ہم اپنے فرائض کو اہمیت نہیں دیتے ، ہماری زندگی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے ، جس کا دل چاہتا ہے اس سے آسانی سے کھیل سکتا ہے ۔ ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ، ہماری سوچ میں ذاتی مفادات پہلی اہمیت ہے ، ہماری زندگی کا مقصد دولت کا حصول ہے وہ چاہے کسی بھی راستے سے حاصل کر نے پڑے ۔ ہم اپنی اولاد کو با ادب ، تہذیب یافتہ نہیں بلکہ امیر دیکھنا پسند کر تے ہیں ، ہم جدیدٹیکنالوجی کی وجہہ سے ایک دوسرے سے کس قدر دور ہو چکے ہیں کہ کسی کو کسی کی خبر نہیں ، اسی منفی سوچ کے باعث ہمارے مخالفین اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر کے ہمیں ہی نقصان پہنچاتے ہیں ، ہمیں یہ تک نہیں پتہ چلتا کہ ہم دوسروں کی نقل کر نے اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ ان کی برائیوں کو ہم اپنا رہے ہیں اوروہ ہماری اچھائیوں کو اپنا کر امن اور سکون سے زندگی گذار رہے ہیں ۔ ہمارے قوم کی سب سے بڑی خامی یہ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ شخصیت پرست رہی ہے ، یہ جن کو مان لیتے ہیں ان کے کر دار ، قول و فعل کو بالکل در گزر کر دیتے ہیں ۔
قارئین محترم ً! آخر آج ہم مسلمان کب تک غیروں کی آلا کار بن کر زندگی گذارینگے ، کب تک غلامانہ زندگی بسر کرینگے اور کب تک بیوقوف بنتے رہینگے اور یہ ایمان کے دشمن ہم پر مسلط ہو کر ہمارا خون چوستے رہینگے اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہینگے ۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ کے زاویوں کو بندلنا ہو گا ، تنقید کی بجائے اصلاح کی جانب آنا ہو گا ، منافقت کے لبادے سے نکل کر ہمیں دشمنوں کی نہ صرف نشاندہی کر نا ہو گی بلکہ ان کا محاسبہ بھی خود ہی کر نا ہو گا ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ہمیں اس سمت سوچنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کر نا پڑے گا کہ آج اکثر پڑھے لکھے لوگوں کے سوچنے کا انداز مغربی ہے اور لوگ مغرب کی ذہنی غلامی کا شکار ہیں ۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی قوم کا عقیدے اور نظریئے اپنی بنیادی اور اصولوں سے گہرا تعلق رہے گا وہ قوم اس وقت تک کسی کی ذہنی غلام نہیں بن سکتی ، دنیا کا کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنا وجود بر قرار رکھ سکتی ہے جب تک اس کا اپنے افکار و نظریات ، عیقدے اور اصولوں کے ساتھ گہرا تعلق رہتا ہے چنانچہ اگر آج بھی ہم اپنی منزل کو پا نا چاہتے ہیں اور حالات کو درست انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اصولوں اور بنیادوں کی طرف لوٹنا ہو گا ، جب تک ہم پتہ نہیں لگا لیتے کہ موجودہ دور کے بارے میں قرآن و حدیث کیا کہتے ہیں تب تک ہم صورتِ حال کو بالکل بھی نہیں سمجھ سکتے۔
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 629169768

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا