جئے دستور ہند ‘ اسپیکر کا اعتراض

0
227

عارف شجر
حیدرآباد( تلنگانہ)
8790193834

اگر آپ نے اس بات کو اب بھی تسلیم نہیں کیا ہے تو آج ہی مان لیں اور سمجھ لیں کہ 2014کے بعدسے ملک کا سیاسی منظر نامہ پوری طرح سے بدل چکا ہے۔ اب آپ کو سیاسی سماجی ادبی اخلاقی اور بہترمعاشرتی میدان میں کام کرنے کے لئے بڑی جد وجہد کرنی پڑے گی۔موجودہ سیاسی منظر نامے میں جس طرح سے آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔2014 کے بعد سے یعنی ان دس سالوں کے دوران مودی حکومت نے جس طرح سے آئین و دستورہند کو بلا ئے طاق رکھ کر آمرانہ حکومت کی اسے کوئی نہیں بھول سکتا جہاں جہاں منتخب سرکاریں تھیں وہاں وہاں مودی حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے اپنی طاقت کے زور پر گرا دی اور وہاں اپنی پارٹی کے نمائندوں کو مسند اقتدار پر بیٹھا دیا۔ ای ڈی سی بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کو اپوزیشن قائدین کی گرفتاری اور انہیں جیل بھیجنے کے کام میں لگا دیا ۔ مودی حکومت کی حکم پر ایجنسیوں کی تابڑ توڑ چھاپہ ماری سے سیاسی قائدین میں بے چینی بڑھ گئی اور ایسے میں کچھ نڈر بے باک سیاسی قائدین تھے وہ مودی حکومت کی آمرانہ رویہ سے سمجھوتہ نہیں کئے وہ جیل جانا پسند کیا لیکن بی جے پی میں جانا گوارا نہیں کیا ۔جنکی دو مثالیں میرے سامنے ہیں ایک دہلی کے سی ایم اروند کیجریوال اور دوسرا جھارکھنڈ کے سابق سی ایم ہیمنت سورین جنہوںنے پی ایم مودی کی غلط پالیسیوں سے لڑنا بہتر سمجھا لیکن اپنے سر کو مودی کے سامنے جھکانا توہین سمجھی۔ وہیں پی ایم مودی کے ایجنسیوں کے ڈر خوف سے جو بدعنوان قائدین تھے انہوں نے آناً فاناً میں پارٹی کا دامن تھام لیا جس سے پی ایم مودی خوش ہوکر انکے سارے الزامات کو معاف کر دیے جنہوں نے خود ایک عوامی جلسہ کے دوران ایک سیاسی قائد کے خلاف کروڑوں روپئے کی بد عنوانی کرنے کا الزام لگایا تھا آج انہیں ہر خطا اور گناہوں سے مبرا کر دیا گیا ہے یہی نہیں بلکہ انہیں ایک اعلیٰ عہدے سے بھی سر فراز کردیا گیاہے۔ اسکے علاوہ بھی مودی حکومت کے دس سالوں کا اگر ہم جائزہ لیں تو انکے جس طرح کام کرنے کا انداز تھا وہ کہیں سے بھی عوامی مفاد سیاسی مفاد اور سماجی مفاد میں دکھائی نہیں دیا۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ مودی حکومت کے ان دس سالوں کے دوران آئین کی جس طرح سے دھجیاں اڑائی گئیں اسے ملک کے اپوزیشن قائدین نے ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسکی مذمت کی گئی۔ جسکا عالم یہ تھا کہ مودی حکومت کے آمرانہ رویہ سے بیزا ر ہو کر ملک کے مختلف سیاسی اپوزیشن قائدین نے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک جگہ جمع ہوئے اور پھر انہوں نے انڈیا اتحاد کا نام دے کر ایک پلیٹ فارم بنائی اور 2024 کے لوک سبھا کے عام انتخابات میں آئین و دستور ہند کی حفاظت کو ہی موضوع بنا کر الیکشن کے میدان میں کود پڑے جسکا انہیں بھر پور فائدہ بھی ملا۔رائے دہندگان نے آئین پر حملہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جم کر ووٹ کئے اور مودی حکومت کو بتا دیا کہ ہم آئین میں نا تو کوئی تبدیلی چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی مداخلت۔ ملک کے عوام نے اپنے ووٹ کو ضائع ہونے سے بچا لیا اور انہوں نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دے کر اپوزیشن یعنی انڈیا اتحاد کی ہر ریاست میں سیٹیں بڑھا دیں جس سے بی جے پی اور انکی اتحادیوں کو کافی جھٹکا لگا ۔ عوام کی زبر دست ناراضگی دیکھ کر پی ایم مودی کے کھلتے ہوئے چہرے اتر گئے۔ وہ اپنی جیت کے بعد بھی بی جے پی کے ہر پروگرام میں مایوس نظر آئے ۔
اب جبکہ ملک میں پی ایم مودی کے اقتدار کا تیسرا ٹرم چل چکا ہے تو اس تیسرے ٹرم میں بھی لوگوں کو یہ محسوس ہو چلا ہے کہ پی ایم مودی کی حکومت میں کچھ بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہی تیور وہی انداز وہی آمرانہ رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے تو وہ ہے مودی کی حکومت، مودی کی گرانٹی مودی ہے تو ممکن ہے کا سلوگن، اب یہ سلوگن پی ایم مودی کے منھ سے سننے کو نہیں مل رہے ہیں اب یہ این ڈی اے حکومت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی ایم مودی کے وزراء سے لے کر اسپیکر تک وہی پرانے تیور اپنائے ہوئے ہیں۔ جس کی تازہ مثال ایوان میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حلف برداری کے دوران جہاں کانگریس رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کے ذریعہ جئے دستور ہند (جئے سنودھان) بولنے پر اسپیکر اوم برلا نے اعتراض جتایا تو وہیں جئے ہندو راشٹر بولنے والے رکن پارلیمنٹ پر پورٹیم اسپیکر کیوں خاموش تھے انہیں جئے ہندو راشٹر بولنے کے لئے چھوٹ کیوں دی گئی۔ عجیب بات ہے کہ جہاں کی آئین سے ملک کی تعمیر ہو رہی ہے جہاں کی آئین اٹھا کر ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی حلف اٹھا رہے ہیں جہاں ہمارے ملک کی آئین کی عالمی سطح پر تعریف ہو رہی ہے اس کے جئے دستور ہند بولنے پر اعتراض جتایاجا رہا ہے ؟ چہ معنی دارد۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ زعفرانی تنظیموں اور بی جے پی کے چند فرقہ پرست قائدین کو یہ بات واضح ہو جانا چاہئے کہ جب تک آئین کے معمار بابا صاحب بھیم راو امبیڈکر کا آئین اس ملک میں قائم ہے تب تک یہ ملک سیکولر ہی کہلائے گا یہ ہندو راشٹر کبھی نہیں بن سکتا چاہے۔
بہر حال ! ہمیں اسپیکر اوم برلا سے یہ قطعی امید نہیں تھی کہ وہ جئے دستور ہند کہنے پر اس طرح اعتراض جتائیں گے لیکن وہیں انکے اس اعتراض کو لے کر تعجب بھی نہیں ہوا ۔کیوں کہ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ سے ویسے بھی وہ ہمیشہ خفا خفا ہی دکھتے ہیں بھلے ہی وہ چہرے پر مسکان لئے کیوں نہ ہوں اسپیکر کے اپوزیشن کے خلاف کام کرنے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگ جاتا ہے ۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ آئین کی حفاظت کو لے کر الیکشن میں ایشو بنا کر کامیاب ہونے والے اراکین پر اسپیکر کا غصہ ہونا لازمی تھا چرچہ یہ ہے کہ اسپیکر او برلا کا آر ایس ایس سے گہرا تعلق ہے اب آپ سمجھ لیں کہ جئے آئین ( جئے سنودھان) بولنے پر انکا اعتراض کیوں ضروری تھا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ انہیں اپنے آقا کو بھی خوش رکھنا تھا حالانکہ اسپیکر کے اعتراض پر اپوزیشن قائدین نے اسپیکر کو صلاح دی کہ آپ اعتراض نہیں کر سکتے لیکن انہیں ڈانٹ کر بیٹھنے کو کہاگیا۔کل ملا کر یہ بات صاف ہو گئی ہے اور اپوزیشن کو بھی سمجھ میں آ گیا ہے کہ آپ اپوزیشن میں جتنا بھی مضبوط کیوں نہ ر ہیں مودی حکومت اور انکے وزراء کے تیور میں ذرا سا بھی فرق نہیں آئے گا ۔وہ جیسے پہلے حکومت چلاتے تھے ویسے ہی چلائیں گے۔ اپوزیشن کی یہ خوش فہمی تھی کہ انکے نمبر ایوان میں زیادہ ہیں تو پی ایم مودی ان سے دب جائیں گے اور وہ کچھ کہنے یا کرنے سے اپوزیشن سے رائے مشورہ لیں گے لیکن انکی یہ خام خیالی تھی۔ آج بھی اپوزیشن کے بولنے پر مائک کا کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے۔ جس طرح10 سال تک ایوان میں اپوزیشن کو بولنے نہیں دیا جاتا تھا وہی حالات آج بھی برقرار ہیں۔ این ڈی اے ہو یا مودی حکومت تیور اور غرور وہی ہے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ جیسا کہ الزام ہے کہ نیٹ پر بحث کرنے کو لے کر اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی جب بولنے لگے تو انکی مائک کی آواز کاٹ دی گئی اسی طرح کانگریس صدر ملکا ارجن کھرگے کی بھی مائک کی آواز کاٹ دی گئی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اسی طرح سے ایوان کی کاروائیاں چلتی رہی تو ملک کے مسائل اور مجبور و لاچار لوگوں کی آواز اپوزیشن قائدین کتنا اٹھائے پائیں گے یہ سوال بڑا ہے۔ دوسری بات ایوان جیسے عظیم پنچائت میں جئے ہندو راشٹر اور جئے شری رام بولنے پر پوری طرح پابندی لگا دینی چاہئے کیوں کہ یہ ابھی سیکولر ملک ہے یہی نہیں بلکہ ایسے دوسرے متنازعہ سلوگن پر بھی پابندی لگا دینی چاہئے تاکہ ایوان کا وقار قائم رہ سکے۔ یہاں صرف کام کی باتیں ہوں اور ارکان پارلیمنٹ کے ذریعہ سے مظلوموں کی آوازیں بلند رہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا