کہابی جے پی نے حکمت عملی کے طور پر آئین اور ملک کے نظام پر حملہ کرنا شروع کیا ہے
لازوال ڈیسک
نئی دہلی؍؍لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے پیر کو ایوان میں اپنی پہلی تقریر میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ملک کے ہر طبقے اور فرد کو خوفزدہ کرتے ہیں جبکہ کانگریس کی علامت بھگوان شیو، اسلام، گرو نانک، مہاتما بدھ، مہاویر کی ’ابھے مدرا‘ہے جو ملک میں سچائی، عدم تشدد اور بے خوفی پھیلا رہی ہے۔
صدر کے خطاب پر بحث میں اپوزیشن کی قیادت کرتے ہوئے مسٹر گاندھی نے ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ کی تقریر میں بھارتیہ جنتا پارٹی پر شدید حملے کیے اور ایجنسیوں کے غلط استعمال، بے روزگاری، مہنگائی، اگنی ویر، کسانوں کی تحریک وغیرہ مسائل پر حکومت کو گھیرے میں لیا اور خود لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کی بھی تنقید کی۔ مسٹر گاندھی کی تقریر کے دوران وزیر اعظم کو دو بار مداخلت کرنی پڑی، جب کہ وزیر داخلہ امت شاہ کو تین بار اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور زراعت اور دیہی ترقی کے وزیر شیوراج سنگھ چوہان کو ایک ایک بار مداخلت کرنی پڑی۔ اس دوران کانگریس پارلیمانی پارٹی کی لیڈر محترمہ سونیا گاندھی اور کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی بھی لوک سبھا کی ناظرین گیلری میں بیٹھی تھیں۔
انہوں نے بھگوان شنکر، گرو نانک دیو، مہاتما بدھ، مہاویر، اسلام میں عبادت کرنے والے ہاتھوں کی تصویریں دکھائیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر تشدد اور نفرت پھیلانے کا الزام لگایا، لیکن ایک بیان سے خود مسٹر گاندھی کو بھی ایوان کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ جب انہوں نے کہا کہ خود کو ہندو کہنے والے تشدد اور نفرت پھیلا رہے ہیں۔
مسٹر گاندھی کے اس بیان کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی خود کھڑے ہوئے اور کہا کہ پورے ہندو سماج کو پرتشدد اور نفرت پھیلانے والا کہنا ’سنگین موضوع‘ہے۔ حکمران جماعت کے لوگوں نے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر گاندھی سے کہا کہ انہوں نے پورے ہندو سماج کو پرتشدد کہا ہے اس لئے انہیں پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے۔ایوان میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان کئی منٹ تک جاری رہنے والے تنازعہ کے بعد مسٹر گاندھی نے اپنا بیان بدلتے ہوئے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان ہندو ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ہندو متشدد نہیں ہوتا جبکہ یہ نفرت پھیلاتے ہیں اور تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔
صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسٹر گاندھی نے کہا کہ بی جے پی نے حکمت عملی کے طور پر آئین اور ملک کے نظام پر حملہ کرنا شروع کیا ہے۔ حکومتی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اقلیتوں اور اپوزیشن ارکان پر حملے ہورہے ہیں اور انہیں جیل بھیجا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں خود مودی حکومت کے اس حملے کا شکار ہوا ہوں۔ مجھے دو سال کے لیے جیل بھیجنے کا حکم ملا، مجھے پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا گیا، میرا گھر چھین لیا گیا اور جب ایسے حملے ہوتے ہیں تو پوری اپوزیشن آئین مخالف سوچ کے خلاف اکٹھی ہو جاتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر کے ان حملوں پر حکمراں پارٹی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگانے شروع کر دیے، جس پر مسٹر گاندھی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ’جئے آئین‘ کہہ کر جواب دیا۔مسٹر گاندھی نے ایوان میں بھگوان شیو کی تصویر دکھائی، لیکن جب اسپیکر نے انہیں روکا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا بھگوان شیو کی تصویر نہیں دکھائی جا سکتی۔ بھگوان شیو ابھے مدرا میں ہوتے ہیں۔ گرو نانک جی ابھے مدرا میں ہوتے ہیں۔ ابھے مدرا میں بھگوان مہاویر کی تصویر بھی دکھائی۔ انہوں نے کہا کہ تمام عظیم انسانوں نے عدم تشدد کی بات کی، خوف کو ختم کرنے کی بات کی اور کہا کہ مت ڈرو، ڈراو مت۔ ابھے مدرا کا مطلب ہے ڈرو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب دوسری تصویریں دکھائی جاتی ہیں تو بھگوان شیو کی تصویر دکھانے میں کیا حرج ہے؟ شیو شکتی ہے اور ترشول شکتی کی علامت ہے اور شیو جی کا ترشول عدم تشدد کی علامت ہے لیکن جو خود کے ہندو ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ تشدد کرتے ہیں اور نفرت پھیلاتے ہیں۔ عدم تشدد ہماری علامت ہے۔اس پر حکمران جماعت کے ارکان کھڑے ہوگئے اور ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ مسٹر گاندھی نے کہا، ’’تیر دل پر جاکر لگا ہے، اس لیے وہ چیخ رہے ہیں۔‘‘ مسٹر مودی نے اس پر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کا پورے ہندو سماج پر تشدد کرنے کا الزام ایک سنگین موضوع ہے۔ مسٹر گاندھی نے واضح کیا کہ صرف بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہی پورا ہندو سماج نہیں ہے۔ مرکزی وزیر بھوپیندر یادو نے کہا کہ پورے ہندو سماج کو پرتشدد نہیں کہا جا سکتا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر تشدد کی بات کرتے ہیں اور آئینی عہدہ پر فائز شخص کا تشدد کو کسی مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔ انہوں نے ایمرجنسی اور دہلی میں سکھ فسادات کی بھی یاد دلائی اور اپوزیشن لیڈر سے پورے ملک سے معافی مانگنے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں قواعد پر عمل کیا جانا چاہئے۔ بی جے پی کے نشی کانت دوبے نے کہا کہ آئین کسی مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے اپوزیشن لیڈر کو معافی مانگنی چاہیے۔
ٍٍ ہنگامہ آرائی کے درمیان اسپیکر برلا نے کہا کہ ایوان کا وقار ہے، اس لیے بولتے وقت باوقار الفاظ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ اپوزیشن لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تحمل سے بات کریں، کسی مذہب پر مداخلت نہ کریں اور کرسی پر مائیک بند کرنے کا الزام لگانا درست نہیں۔مسٹر گاندھی نے کہا، ’’ہندو کبھی نفرت اور تشدد میں ملوث نہیں ہوتے ہیں، لیکن بی جے پی 24 گھنٹے خوف پھیلا رہی ہے اور تشدد اور نفرت کو فروغ دے رہی ہے‘‘۔ اجودھیا کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر گاندھی نے کہا کہ اجودھیا نے اس الیکشن میں بی جے پی کو پیغام دیا ہے۔ فیض آباد سیٹ سے منتخب اودھیش پاسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اجودھیا کے لوگ خوفزدہ ہیں۔ اجودھیا کے غریب شہریوں کی دکانیں اور مکانات گرائے گئے اور انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ اجودھیا کے غریب باشندوں کو افتتاحی پروگرام کے قریب بھی نہیں آنے دیا گیا اور اڈانی امبانی جیسے امیر لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ اس کی وجہ سے اجودھیا نے انتخابات میں یہ پیغام دیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں مسٹر گاندھی نے دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم نے دو بار سروے کرایا تھا کہ آیا وہ اجودھیا سے الیکشن لڑ سکتے ہیں، لیکن ان کے مشیروں نے بتایا کہ مسٹر مودی اجودھیا میں ہار سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ وارانسی واپس چلے گئے، جہاں سے وہ کسی طرح بچ نکلے۔ انہوں نے اجودھیا کے لوگوں کو ڈرایا، ملک کے لوگوں کو خوفزدہ کیا۔اپوزیشن لیڈر نے مسٹر مودی پر بھی حملہ کیا اور کہا کہ مسٹر مودی کا پرماتما سے براہ راست تعلق ہے اور ایک انٹرویو میں انہوں نے خود کو نان بایولوجیکل بتایا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ گاندھی جی مر چکے تھے اور ملک کو ان کے بارے میں فلم گاندھی سے معلومات ملی۔
مسٹر گاندھی نے حکمراں پارٹی پر اگنی ویر اسکیم لا کر ملک کی سرحدوں کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے کا الزام لگایا۔ اگر اگنی ویر مارا جاتا ہے تو اسے نہ شہید کا درجہ ملتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی پنشن یا معاوضہ ملتا ہے۔ اس پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ان کے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگنی ویر جیسی اسکیم امریکہ اور برطانیہ میں بھی چلتی ہے۔ اسے ہندستان میں 158 تنظیموں سے مشاورت کے بعد لایا گیا ہے اور اگنی ویر کی شہادت پر اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے دیے جاتے ہیں۔ بے روزگاری کے مسئلہ پر مسٹر گاندھی نے کہا کہ ایم ایس ایم ای ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ انکم ٹیکس، جی ایس ٹی وغیرہ سے چھوٹے تاجروں کو ختم کرکے ارب پتیوں کی مدد کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ اسی لیے ڈیمونیٹائزیشن کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس بار ہم گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دیں گے۔ نیٹ امتحانات امیر بچوں کے لیے ہیں۔ غریب ہونہار بچوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مسٹر گاندھی نے زرعی پالیسی کے حوالہ سے حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی حکومت نے کسانوں کو سڑکوں پر لانے کا کام کیا ہے۔ کسان حکومت سے کم از کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن حکومت کسانوں کو دہشت گرد کہہ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو احتجاج کرنا پڑا۔ کسانوں کے لیے کالے قوانین بنائے گئے جس کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور دباؤ میں آکر یہ قانون واپس لینے پڑے۔
وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان نے مسٹر گاندھی کے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے بارے میں الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ غلط بول رہے ہیں۔ کسانوں کو ایم ایس پی دیا جا رہا ہے جبکہ مسٹر گاندھی جھوٹے دعوے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اقلیتوں پر حملے کا معاملہ اٹھایا تو حکمراں جماعت کی جانب سے ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی، جس پر اسپیکر نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کو قواعد پر عمل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کے قوانین ارکان نے خود بنائے ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اسپیکر نے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف رولز پر عمل کریں۔اپوزیشن لیڈر نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ اس پارٹی کے اندر خوف کا ماحول ہے، وہیں کانگریس میں گروپ 23 وغیرہ ہیں، جو ہماری پارٹی کے اندر جمہوریت کی علامت ہے لیکن بی جے پی میں ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ملک کے لوگوں نے آپ کو اقتدار دیا ہے اور آپ کو کسانوں اور ملک کے دیگر طبقات کی بات سننی ہوگی۔ ہم اپوزیشن کے ممبر ہیں اور انہیں دشمن کی طرح نہ لیا جائے۔ ایوان کو جارحیت سے نہیں بلکہ مل کر چلایا جا سکتا ہے‘‘۔وزیر داخلہ امت شاہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ قاعدہ کہتا ہے کہ اگر کوئی رکن ایوان میں اپنی تقریر کے دوران کوئی غلط اور بے بنیاد بات کہتا ہے اور اس کی تصدیق کا مطالبہ ہوتا ہے تو اس کی تصدیق کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے اپنی تقریر میں ایسے بہت سے حقائق کہے ہیں جنہیں حکمران جماعت کے وزراء نے غلط قرار دیا ہے۔ اس لیے ان کی تصدیق ایوان کی کارروائی کے قواعد کے مطابق کی جائے۔ اس پر اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ تصدیق ہوگی۔