عبدل لطیف ملک : ایک ہمہ گیر شخصیت

0
547

 

 

 

ازقلم:
آصف احمد ملک صوتی
ایم سی فزکس
لیگل مڑلوجی ڈیپارٹمنٹ..
تحریر یکم جولائی 2024

کڑے سفر کا تھکا مسافر, تھکا ہےایسا کہ سوگیا ہے
خود اپنی آنکھیں توبند کرلِیں, ہر آنکھ لیکن ، بِھگو گیا ہے..
الحمد للہ و صلوۃ علی رسول اللہ امابعد! اللّٰہ سبحان و تعالی نے اس عظیم کار خانہءِکائنات میں بے شمار مخلوقات میں جس مخلوق کو عظمت سے نوازا وہ بلا شک و شبہ انسان ہے جس کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا اور خلافت الارضی اس کے حوالے کی گئ تاکہ وہ اپنی فہم و فراست سے اور چشمئہِ ھدایت ِربّانی کے نور سے منّور و سرفراز ہو کر اس دنیاوی زندگی کے انتظام و انصرام کو چلا سکے تاکہ انصاف اور امن کا بولا بالا ہو اور بندگانِ خدا کو راحت اور سکون میّسر آسکے، اس حوالہ سے ہر انسان کو یہ صلاحیت بخشی گئ کہ وہ اعلیٰ قسم کی اور مشکل ترین زمے داریوں کو بہ حسنِ خوبی انجام دے سکے اور اپنی مدتِ عمل میں کار ہائے نمایاں کرکے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اپنے خالق کے حضور پیش ہو جائے..یہ سلسلئہ روز و شب انسان کو اسی بات کی تعلیم دیتا کہ یہ ہر دن کی روشنی کو رات کا اندھیرا لپیٹ لیتا ہے اور ہر رات کے اندھیرے کو دن کی روشنی زائل کرتی ہے اسی طرح سے پوری کائنات میں روز نئ تعمیر و تخریب کا کام ہوتا رہتا ہے اور اس طرح یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کائنات میں ایک بقاء و فنا کا نظام قائم ہے اور اس اصو ل کہ تحت كُلُّ مَنۡ عَلَيۡهَا فَانٍ‌( الرحمن:26)جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور یہ فنا ایک نیے عالم کو جنم دیگا جس کانام عالمِ آخرت ہے، اور اسی اصولِ فنا کا دوسرا نام موت ہے جس کے لئے قرآن نے اسطرح بیان کیا: کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ
ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے (ال عمران 185) اور یہ موت ہی اس کو عالمِ دنیا سے عالم برزخ اور عالم برزخ سے عالمِ آخرت کی طرف محوِ پرواز کرے گی، موت عالم آخرت کے سفر کی ایک کڑی ہے بقول اقبال
موت کو سمجھا ہے غافل اختتام زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ داوامِ زندگی
اور بقول میر تقی میر
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کے
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا انکار کوئی دھریہ بھی نہں کرسکتا اور نہ ہی کوئی نفس اس سے راہِ فرار اختیار کرسکتا ہے سورہ جمعہ میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہےکہ ﴿ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾[ الجمعة: 8](اے نبی ﷺ !) آپ کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ملاقات کر کے رہے گی پھر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اس ہستی کی طرف جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔ چنانچہ یہ بات عیاں ہو گئ کہ اگر کوئی مضبوط قلعوں میں بھی پناہ گزیں ہے وہ بھی ملک الموت کو آنے سے روک نہں سکتا کیونکہ اللہ سبحا نہ و تعالٰی کا ارشاد ہے اَيۡنَ مَا تَكُوۡنُوۡا يُدۡرِكْكُّمُ الۡمَوۡتُ وَلَوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُرُوۡجٍ مُّشَيَّدَةٍ‌ ؕ (النساء،78)(النساء،78)تم جہاں کہیں بھی ہوں گے موت تم کو پالے گی خواہ تم بڑے مضبوط قلعوں کے اندر ہی کیوں نہ ہو. اس سے یہ بات واضع ہوگئ کہ موت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور اس کڑوی حقیقت کو تسلیم کرکے انسان کا ہر وقت اس کی تیاری میں لگے رہنا فرضِ عین کی حثیت اختیار کرتا ہے. حال ہی میں ہمارے ایک انتہائی رقیق القلب، مشفق، عاجزی اور انکساری کا مجسم اور ایک خاموش طبعیت کی مالک شخصیت مرحوم عبد الطیف ملک صاحب اس دارِ الفانی سے رخصت ہوے، إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ( البقرہ 156) ("ہم خدا کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔) موصوف مرحوم ایک معتدل مزاج شخصیت کے حامل تھے، آپ کی پیدایش علاقہ بھلیس کے موضع صوتی منشی محلہ میں سن1943ء میں ہوئی اس کے بعد آپ نے موضع صوتی(ملک محلہ) کی طرف ہجرت کی اور آخری دم تک یہئیں کے ہو کے رہ گئے، آپ ملک خانوادے کے ایک بااثر اور قابلِ رشک چشم چراغ تھے، آپ کی زندگی نہایت ہی ایمانداری اور خدمت خلق کے کاموں میں گزری، سرکاری ملازم ہونے کے ناطے آپ کے اثر ورسوخ، ایماندای اور شرافت کےچرچے پورے ضلع ڈوڈہ اور دیگر مختلف علاقاجات تک پہنچے اور دشمن بھی داد دئے بغیر نہ رہے، انہوں نے نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) میں بطور تفتیش کار کام کیا۔ بعد میں آپ محکمہ منصوبہ بندی planning Department میں بحثیت Statistical Officer کے 2004 تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور اس کے بعد بقیہ زندگی دین کو سیکھنے اور ذکرِخداوندی میں شب و روز مگن ہو کر گزاری، آپ کی دین سے ہمدردی اور سیکھنے کی ٹرپ کا یہ عالم تھا جب محلہ مسجد صوتی میں سن 2009ء میں قرآن کلاس کا افتتاح والدِ گرامی القدر الحاج ماسٹر بشیر احمد ملک صاحب (حفطہ اللہ تعالی) کے زریعے ہوا تو مرحوم عبد الطیف ملک صاحب موت کے ایک روز پہلے تک ( 24 جون 2024.وفات)اس کلاس میں مسلسل شریک رہے اور قرآن مجید سے ان کا شغف اس قدر بڑھ گیا تھا کہ ایک ایک لفظ کو انتہائی توجہ اور دھیان کے ساتھ سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے تھے، کبر سنی کے باوجود کبھی کسی درس میں غیر حاضر نہں رہے، ان کی وفات ہم سب کے لئے ایک صدمہ ہے،اور بے ساختہ یہ اشعار زہن میں آتے ہیں..
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
وہ بزمِ جاں کی جان تھا وہ انجمن پذیر تھا
وہ کاروانِ زندگی کا گویا اک امیر تھا
وہ با کمال شخصیت کی خود ہی اک نظیر تھا
کسے سنائیں اب یہاں جو میرا حال زار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے..

قران سے ان کا شغف اور لگاو دیدنی تھا، انہوں نے رازِزندگی کو پالیا تھا اور ہمیں یہ پیغام دے گیے کہ اصل راستہ کیا اور کس چیز کو اپنا مقصدِ حیات بنانا ہے،، اس کے علاوہ ان کی انفرادی زندگی بھی قابلِ رشک ہے بحثیت شوہر، بحیثیت باپ کے وہ ایک عظیم کردارکے حامل رہے، اپنےبچوں کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کراکے ان کو بھی خدمت خلق، دین سے محبت اور عاجزی اور انکساری کا درس دیا، تعلقِ بااللہ کے حوالے سے بھی ہر وقت ذکر و فکر میں مشغول رہنا ان کی بہترین خوبیوں میں شامل ہے، وه جوانی کے طویل عرصہ سے شیخ طریقت الحاج غلام قادر غنی پوری رح کی صحبت میں رہے اور مستفید ہوے اور ذکر اللّه انکا معمول بن گیا۔قرآن اور ذکر و اذکار کا یہ سرمایہ آخرت میں ان کے لئے اجر و ثواب کا باعث بنے(آمین).

ہم اللہ سے دست بدعا ہیں کہ ان کی سیّات کو حسنات میں بدل کر ان مغفرت فرماے اور ان کو جنت الفردوس میں سکونت نصیب فرمائے، آمین

ثمر مری دعا ہے یہ کہ قبر میں قرار ہو
جہاں چلے گئے ہیں وہ حضور کا جوار ہو
خدا کی رحمتیں ہوں واں کہ جنتی بہار ہو
لو خلد میں ملیں گے پھر ہمیں یہ اعتبار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار…ثمر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا