ہندوستان پھر بنا ٹی 20 کا شہنشاہ

0
52

سنسنی خیزمقابلے میںجنوبی افریقہ کو سات رن سے شکست دی،
وراٹ مین آف دی میچ جبکہ بمراہ مین آف دی سیریزقرار
یواین آئی

باربڈوس؍؍ایک ارب 40 کروڑ ہندوستانیوں کی دعاؤں اور توقعات پر پورا اترتے ہوئے روہت شرما کی قیادت والی ٹیم نے ہفتہ کو اتحاد، ہمت اور تحمل کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دلچسپ مقابلے میں جنوبی افریقہ کو سات رن سے شکست دے کر 17 سال بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت لیا۔اس سے قبل ہندوستان نے 2011 میں آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ جیتا تھا جس کے بعد ہندوستان نے 2013 میں چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی۔ اس لحاظ سے ہندوستان نے 11 سال بعد آئی سی سی ٹرافی جیتی ہے۔ روہت شرما اور وراٹ کوہلی کے لیے یہ ورلڈ کپ کافی اہم تھا کیونکہ دونوں عظیم کھلاڑی جلد ہی ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ سے ریٹائر ہو سکتے ہیں۔ یہ ورلڈ کپ کوچ راہل ڈراوڑ کے لیے بھی کافی اہمیت رکھتا تھا۔ ڈراوڑ کی کپتانی میں ہندوستان 2007 میں ون ڈے ورلڈ کپ کے گروپ مرحلے میں ہی باہر ہو گیا تھا۔
ہندوستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سات وکٹوں پر 176 رن بنائے جس کے جواب میں جنوبی افریقہ کی ٹیم آٹھ وکٹوں پر صرف 169 رن بنا سکی۔ 17 سال بعد یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان نے ٹی 20 ورلڈ کپ جیتا ہے۔ہینرک کلاسن (52) اور ڈیوڈ ملر (21) کی شاندار بلے بازی کی بدولت جنوبی افریقہ آسانی سے ہندوستان کی طرف سے دیئے گئے ہدف کے قریب پہنچ گیا اور اسے 30 گیندوں پر 30 رن درکار تھے۔ اس نازک لمحے میں ہاردک پانڈیا (20 رن کے عوض 3 وکٹ) نے کلوسین کا وکٹ لے کر ہندوستان کی امیدوں کو بڑھا دیا جس کے بعد سوریہ کمار یادو نے ہاردک کی گیند پر باؤنڈری لائن پر ڈیوڈ ملر کا شاندار کیچ لیا اور میچ کا رخ ہندوستان کی طرف موڑ دیا۔
وراٹ کوہلی (76) کی سوجھ بوجھ والی نصف سنچری اننگز اور اکشر پٹیل (47) کے ساتھ 72 رن کی اہم شراکت داری کی مدد سے ہندوستان نے ہفتہ کو آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے کھیلتے ہوئے سات وکٹوں پر 176 رن بنائے۔ تقریباً پورے ٹورنامنٹ میں خاموش رہنے والا وراٹ کا بلا، آج خطابی میچ میں جم کر دہاڑہ۔ وراٹ نے مارکو جانسن کے پہلے اوور میں تین چوکے لگا کر اپنے ارادوں کا اظہار کیا۔ ہندوستان نے پہلے اوور میں 15 رن بنائے تھے، اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ اس پچ پر 200 سے اوپر کا اسکور ممکن ہو گا، لیکن جنوبی افریقہ کے گیند بازوں نے زبردست واپسی کرتے ہوئے پہلے پاور پلے میں ہی ہندوستان کے تین اہم وکٹ شرما (9) رشبھ پنت (0) اور سوریہ کمار یادو (3) کے وکٹ لے کر نیلی جرسی ٹیم کو بیک فٹ پر دھکیل دیا اور میدان پر خاموشی چھا گئی۔
کیشو مہاراج نے روہت اور رشبھ کے وکٹ حاصل کئے جب کہ سوریہ کمار کیسیگو ربادا کی گیند کو پُل کرنے کی کوشش میں ڈیپ اسکوائر لیگ پر کیچ ہوگئے۔ اس مشکل وقت میں وراٹ کا ساتھ دینے آئے اکشر نے تحمل سے بلے بازی کی اور ہندوستان کے اسکور بورڈ کو چلتا رکھا اور دونوں بلے بازوں نے چوتھے وکٹ کے لیے 72 رن کی اہم شراکت کی۔ دھماکہ خیز انداز میں اننگز کا آغاز کرنے والے وراٹ نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باؤنڈری کے بجائے وکٹوں کے درمیان دوڑنے کو ترجیح دی جبکہ آخری اوور میں انہوں نے گیئرز بدلے اور اپنے مانوس انداز میں جنوبی افریقہ کے گیند بازوں کے بخئے ادھیڑ دیئے۔ وہ اننگز کے 19ویں اوور میں مارکو جانسن کا شکار بنے جب مڈل اور لیگ میں بیک آف لینتھ پُل کرنے کی کوشش کے دوران گیند بلے سے ٹھیک طرح سے رابطہ نہیں کر پائی اور ربادا نے دوڑ کر ان کا کیچ لیا۔ انہوں نے 59 گیندوں میں چھ چوکے اور دو چھکے لگائے جبکہ اکشر نے چوتھے وکٹ کے لیے رن آؤٹ ہونے سے قبل اپنی 31 گیندوں کی اننگز میں ایک چوکا اور چار چھکے لگائے۔
آخری اوور میں شیوم دوبے (27) رن ریٹ بڑھانے کی کوشش میں اینریچ نورکھیے کے ہاتھوں اپنا وکٹ گنوا بیٹھے۔ رویندر جڈیجہ (2) بھی نارکھیے کا شکار بنے۔ پانڈیا پانچ رن بنانے کے بعد ناٹ آؤٹ واپس لوٹے۔177 رنوں کے ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کی شروعات اچھی نہیں رہی اور دوسرے ہی اوور میں جسپریت بمراہ نے ریزا ہینڈرکس (4) کو بولڈ کر کے پویلین بھیج دیا۔ اگلے ہی اوور میں ارشدیپ سنگھ نے کپتان ایڈن مارکرم (4) کو آؤٹ کر کے جنوبی افریقہ کو دوسرا دھچکا دیا۔ اس کے بعد کوئنٹن ڈی کاک اور ٹرسٹن اسٹبس نے اننگز کو سنبھالا۔ دونوں کے درمیان تیسرے وکٹ کے لیے 58 رن کی شراکت داری ہوئی۔ اس شراکت کو اکشر پٹیل نے نویں اوور میں 21 گیندوں میں اسٹبس (31) کو آؤٹ کر کے توڑا۔ ہینرک کلاسن بیٹنگ کے لیے آئے اور ڈی کاک کے ساتھ محاذ سنبھالا۔ 13ویں اوور میں ارشدیپ سنگھ نے ڈی کاک کو 31 گیندوں میں 39 رن پر آؤٹ کرکے پویلین بھیج دیا۔ ہینرک کلاسن رکے نہیں اور جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 27 گیندوں پر 52 رن جوڑکر اپنی ٹیم کو فتح کی جانب گامزن کردیا۔ ہاردک پانڈیا نے 17 ویں اوور کی پہلی گیند پر کلوزن کو آؤٹ کر کے میچ کا رخ بدل دیا۔ اس کے بعد مارکو جانسن (2) بمراہ کا شکار بنے۔
جسپریت بمراہ پلیئر آف دی سیریز نے اپنے خیالات کااِظہارکرتے ہوئے کہا’’میں نے پرسکون رہنے کی کوشش کی۔ ہم اس کے لیے کھیل کھیلتے ہیں، میں واقعی چاند پر ہوں، میرا بیٹا یہاں ہے، خاندان یہاں ہے، ہم اس کے لیے بہت محنت کر رہے ہیں، اس سے بہتر کوئی نہیں۔ اس سے زیادہ ہم بڑے مراحل کے لیے کھیلتے ہیں، آپ کو پورے ٹورنامنٹ میں بہت واضح اور پرسکون محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک وقت میں ایک گیند کو لے سکتا ہوں۔ اوور، لیکن اب کام ہو گیا ہے کہ میں نے سوچا کہ لینتھ گیند ایک آپشن ہے، یہ ریورس سوئنگ تھی اور مجھے اس پر عمل کرنے میں خوشی ہوئی۔‘‘
ویراٹ کوہلی پلیئر آف دی میچ نے اپنے جذبات وتاثرات کااظہارکرتے ہوئے کہا ’’یہ میرا آخری T20 ورلڈ کپ تھا، اور یہ وہی ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن آپ کو لگتا ہے کہ آپ رن نہیں لے سکتے، پھر چیزیں ہوتی ہیں۔ خدا بہت بڑاہے، اور میں نے اسے حاصل کیا۔ ٹیم کے لیے اس دن کیا کام جو اب یا کبھی نہیں، بھارت کے لیے اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، یہ ایک کھلا راز تھا۔ یہ اگلی نسل کے سنبھالنے کا وقت ہے، کچھ حیرت انگیز کھلاڑی ٹیم کو آگے لے جائیں گے اور پرچم کو بلند رکھیں گے۔‘‘
ویراٹ کو کندھوں پر اٹھانے کا وقت ہے، 2011 میں ایک لا ٹنڈولکر۔’’روہت نے نو T20 ورلڈ کپ کھیلے ہیں، یہ میرا چھٹا ہے، وہ اس کا مستحق ہے۔ میں گزشتہ چند میچوں میں پراعتماد نہیں تھا، لیکن اس وقت شکر گزار اور عاجز ہوں، اور میں اپنا سر جھکاتا ہوں، اور کھیل کے جذبات… چیزوں کو روکنا مشکل ہے…‘‘
آخری اوور کرنے والے پانڈیا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا:’’اس کا مطلب بہت ہے۔ یہ بہت جذباتی ہے۔ ہم نے بہت محنت کی لیکن کچھ کلک نہیں ہو رہا تھا۔’’مجھے یقین تھا کہ اگر میں سخت محنت کرتا رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ میں چمک سکتا ہوں اور وہ کروں گا جو میں ہمیشہ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔’’جیتنا ایک خواب تھا اور خاص طور پر اس طرح کا موقع ملنا اسے اور بھی خاص بنا دیتا ہے۔‘‘ہمیں ہمیشہ یقین تھا کہ ہم یہ کر سکتے ہیں۔ یہ صرف اس بارے میں تھا کہ ہم نے اپنے منصوبوں کو کیسے عملی جامہ پہنایا اور دباؤ کو ان پر آنے دیا۔جسی [بمراہ] اور تیز گیند بازوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے آخری پانچ اوورز کس طرح پھینکے۔ اس نے سب کچھ بدل دیا‘‘۔’’میں جانتا تھا کہ اگر میں پرسکون نہیں ہوں تو یہ میری مدد نہیں کرے گا۔ میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر گیند پر میں نے 100 فیصد کا عزم کیا‘‘۔’’میں اس کے لیے بہت خوش ہوں [راہول ڈریوڈ]۔ اسے اس طرح الوداعی دینا بہت ہی شاندار ہے۔‘‘
سراج، جو فائنل کے لیے الیون میں نہیں تھے، میچ کے بعد یہ کہنا چاہتے تھے: ’’میں صرف جسی بھائی [جسپریت بمراہ] پر یقین رکھتا ہوں۔ وہ گیم چینجر ہے۔’’یہ ایک ناقابل یقین احساس ہے. میں احساس بیان نہیں کر سکتا۔‘’’ہر پیشہ ور کرکٹر ورلڈ کپ فائنل کھیلنا چاہتا ہے۔ میں خوش قسمت ہوں۔‘‘۔جیسے ہی وہ آخری گیند پھینکی گئی، کئی ہندوستانی کھلاڑی بے یقینی کی حالت میں زمین پر گر گئے۔روہت شرما اور ہاردک پانڈیا گھاس پر تھے جو پچھلے 30 منٹ میں رونما ہونے والے واقعات پر کارروائی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا