ڈاکٹر جی۔ایم۔پٹیل
9822031031
اب کی بار جو گھر جانا تو سارے البم لے آنا
وقت کی دیمک لگ جاتی ہے یادوں کی الماری میں
محترمہ عذرا نقوی ایک خوش فکر، حساس شاعرہ ،بہترین افسانہ نگا ر ،موثر ترجمہ نگار ، بچپن ہی سے سماجی سروکار وں ، ہم عصروں سے سرگرمی اورفراغ دلی رکھنے والی اُردو ادب کی قدآور عالمی شہرت یافتہ، شائستہ و با سلیقہ خاتون تھیں۔آپ عالم میں جہاں بھی رہیں ہمیشہ ُاردو زبان اوراُردو ثقافت کے ایک سفیر کے طور اپنا فرض نبھایا ۔سعودی عرب میں قیام کے دوران عربی زبان و ادب کے شۂ پاروں کی ،خصوصی طور سے وہاں کی ادبی خواتین مصنفین کی نمائیندہ تحریروں کو ُاردو کا قالب عطا کیا اور آپ نے اپنی رسائی اس سر زمین کی خواتین کے صنفی مسائل تک کرادی جو قبائلی روایتوں اور مذہبی شدت پسندی کے آ ہنی پردوں میں پوشیدہ تھے۔اسی طرح عرب معاشرے میں ثقافت سے بھی اُردو داں حلقوں کو متعارف کرا نے میں کافی جدو جہی کرتی رہیں۔ آپکی سوچ و ذہنی کیفیت بچپن ہی سے مثبت، انداز بیاں باغیانہ ایک آزاد خیال ، امن و جمہوریت پسند ، اُردو ادب کا ایک روشن ستارا ! نظم ’’داستان زندگی لکھتے مگر رہنے دیا‘‘ کے چند چنندہ اشعار سے آپکی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا ہے
دل کے ہر موسم نے بخشی دولت احساس و درد
صرف اس سرمائے کو زاد سفر رہنے دیا
وقت کے بہتے ہوئے دریا پہ کشتی ڈال کر
سارے اندیشوں سے خود کو بے خبر رہنے دیا
خود غرض تھو ڑا سا ہونا بھی ضروری تھا مگر
تجربوں سے سیکھ کر بھی یہ ہنر رہنے دیا
کون دامن گیر ہے اکثر یہ کرتا ہے سوال
کرتو سکتیں تھیں بہت کچھ تم مگر رہنے دیا
عذرا نقوی ۲۲ فروری ۱۹۵۲ میں امروہہ کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ابتدا میں آپ ’’ شمع زہرہ‘‘ اس گھریلو نام سے جانی جاتی تھیں ۔آپ کے والد محترم ’حسین احمد قیصرنقوی ‘ ماہر تعلیم اور سماجی خدمت گار تھیں۔آپ کا سلسلہ نسب کرشمائی بزرگ ’ سید حسین شرف الدین ‘ سے ہوتا ہوا ’ امام علی نقی ‘ سے جا ملتا ہے۔ اسطرح عذرا نقوی ننیہال کی طرف سے ’امام زین العابدین ‘ اور ددیہال کی جانب سے ’ امام علی نقی ‘ کی نسل سے ہیں۔عذرا نقوی کے د ادا جان ’سید غلام احمد صاحب‘‘ مشہور کاتب اور خطاط تھے۔ دینی شاعری میں آپ کو کافی عبور حاصل تھا، انہیں کی نظم کردہ مناجات کا شہرہ دور دور تک تھا۔ عذرا کے چچا جان ’ غلام حیدر ‘ اطفال ادب کے لئے ’ ساہتیہ اکادمی ‘ کی جانب سے اعزاز یافتہ تھے ۔آپ کی والدہ محترمہ ’ فرحت بخش ‘ صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی، مشہور شاعرہ تھیں جنہوں نے اپنے
’عالمی کلاسیک‘ میں اپنے متاثر کن علم سے تمام عالموں و ادیبوں کو حیران کر دیا تھا۔ پیدائشی شاعرہ نے بچوں کی نظمیں لکھیں اور آزادی کے بعد وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی اد بی تحریروں کو اُردو زبان میں شائع کیا ۔عذرانے ان کی بہت سی غیر مطبوعہ مضامین، نظموں کو اکٹھا کیا اور انہیں ’’ کلیاتِ سیدہ فرحت ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ۔ انہیں کی بدولت تعلیم ،تربیت پر خود کو مرکوز رکھا ۔ آپکی ادبی زندگی کا آغاز اس دن سے ہوا جب آپکی والدہ نے اپنی تصنیف کردہ لوریاں اور نغمے سناکر تھپکیاں دے کر اپنی شفقت سے ادب کو آپ کے ذہن کو آراستہ کیا ۔آپ کے دادا جان غلام احمد صاحب نے اپنے دلکش ڈرامائی انداز میں پرانے قصے کہانیاں ،پہیلیاں اور مکرنیاں سنا تے اوااس طرح آپ کو اردو کی تعلیم دیتے۔
عذرامعروف گاندھیائی دانشور ،ماہر تعلیم اور مجاہد آزادی جناب’ ڈاکٹر سید عابد حسین ‘ کی بھتیجی اور ُاردو کی معروف ادیبہ ‘ صالحہ عابد حسین ‘ آپ کی بھتیجی ہیں۔اسی خانوادہ کی
ایک اہل قلم اور فرد صاحب طرز افسانہ نگار اور نقاد ’ ڈاکٹر ’صغرہ مہدی ‘ آپ کی سگی خالہ جان تھیں۔اُردو ادب میں بہ حیثیت مجموعی خاتون اہل قلم کی تعداد فیصد اہل قلم کارمردوں کے لیحاظ سے بہت کم لیکن آپ کے خانوادہ میں خواتین اہل قلم کار روں کا فیصد مردقلمکاروں کے آس پاس ہی تھا۔علی گڑھ میں آپ کا بچپن ،وہاں کے ادبی ،ثقافتی اور تہذیببی ماحول نے آپ کی شخصیت کو تشکیل دی۔ آپ کے والدمحترم روشن ضمیر ،باعمل انسا ن جا معہ ملیہ اسلامیہ کے سوشل ایجوکیشن آفیسر کے طور پر فعال رکن بن گئے اور انہوں ہی نے اپنی سماجی سرگرمیوں میں اپنے سارے خاندان کو شامل رکھا۔وہی آپ کے ، روح ِرواں، رہبر و رہنما تھے۔زندگی کو ایک مثالی بناے میں کامیاب اقدام اختیار کرنے میں، کن مصلحتون اور اُصولوں کو ساتھ لے کر زندگی سے مفاہمت کی جانی چاہئے اس سے واضح کیا ۔
عذرا نقوی نے عبداللہ گرلز اسکول سے تعلیم حاصل کی ، جہاں تعلیم حاصل کرنا باعث فخر تھا بعد ازاں یہی اسکول خواتین کا کالج او راے ایم یو ایک حصہ بن گیا ۔آپ نے
’جے این یو ‘سے تصرف ارتقائی حیاتایت میں ’ایم ۔فیل ‘ کیں ۔والد صاحب نے بچوں کی کتابوں کی ایک لائبریری آپ کی گڑیوں کے گھروندے میں بنائی تھی ڈاکٹر عابد حسین ،صالحہ عابد حسین کی بے مثال زندگی ہی آپ کے علم و ادب سے عبارت تھی۔زندگی میں مشاہدات اور تجربات کی ایک وسیع و زرخیز ادبی ماحول کو میسر تھا۔آپ نے تاریخ ساز علمی ادارے علی گڑھ مسلم یونہورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ حاصل تھا۔اس ادارے کے مخصوص کردار نے آپ کی ذہنی نشو و نما میں بے حد اہم رول ادا کیا ہے۔روشن خیال ،تنگ نظری ، روایت پرستی ا ور جدت پسندی کا ایک ا یسا امتزاج ملا جس نے معروضی انداز سے چیزوں کو دیکھنا اور پرکھنا سکھا یا ۔علی گڑھ سے’ ایم ایس سی‘ کرنے کے بعد دو سال دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں گزارنے کا موقعہ ملا جہاں کی آزادیٔ فکر اور تعلیمی فضا نے ذہن کی کچھ اور پرتیں کھول دیں۔اسی دوارن’ ’آل انڈیا ریڈلو کی اُردو سروس‘‘ میں جزوقتی بطور پر ا نا ؤنسر کا کام کرنے کا موقعہ ملا ۔ علی گڑھ کے بعد دہلی جاکر اندازہ ہوا کہ اس دنیا میںایک سے ایک قابل لوگ موجود ہیںاور یہ رواں دواں دنیا کسی کا انتظار نہیں کرتی۔
۱۹۷۶ کے وسط میں ایک( کمپیوٹر سائنٹسٹ) آئی ٹی پروفیشنل’ ڈاکٹر پرویزاحمد ‘ سے شادی کی اور آپ اپنے خاوند کے ہمراہ عراق تشریف لے گئیں اور وہاں سے ۱۹۷۹ کو کینڈا میں ’ مونٹریال ‘ چلی گئیںجہاں آپ نے ’’ آرٹیفشیل انٹیلی جنس ( مصنوعی ذہانت) ‘‘ میں ڈاکٹریت میں داخلہ لیا ۔فرانسیسی زبان سیکھیں ۔آپ نے’ تعلیم ‘میں پوسٹ گریجویٹ کیا اوروہیں ایک’ کنڈر گارٹن‘ میں تعلیمی پیشہ اختیار کیا۔کینڈا میں ۱۲ سالہ قیام کے دوران جنوبی ایشیاء کی خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ہم خیال خواتین کے ساتھ کام کیا ۔ابتدا میں آپ نے ہندوستانی خواتین سے شروعات کی لیکن جلد ہی آپ کو احساس ہوا کہ پاکستانی خواتین کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔۱۹۸۰ کے آس پاس جنوبی ایشیائی خواتین کی انجمن کا انعقاد کیا ، جس کا نام ’’ ساوتھ ایشین ویمن کمیونٹی سینٹر (SAWCC ) تھا۔ صرف ۲۰ خواتین کی شمولیت سے اس انجمن کو فعال رکھااور انہیں ثقافتی فرق کی تعلیم حاصل کرنے اور ٹیکس خواندگی کی تعلیم دی۔جس کے لئے باقائدہ ورک شاپ شروع کیا۔رفتہ رفتہ یہ امجمن ایک ایسے مرکز کے طور پر ترقی کر گیا جہاں جنوبی ایشیا ء کی خواتین کسی بھی نوعیت کی رہنمائی کے لئے رابطہ کر سکتی تھیں۔ اس انجمن کو حکومت کا تعاون بھی حاصل رہا۔
’ تیسری دنیا ‘‘ نامی تھئٹر گروپ کے قائم کرنے میں فعال کردار ادا کیا جسے تھئٹر شایقین کے گروپ نے جاری کیاتھا ۔ ،جس میں اسی گروپ کے ڈرامہ نگار ، فنکاروں کا انتخاب اور ایک منجھے ہوئے ہدایت کا ر ی میں معاشرتی مسائل کے ڈراموں کو پیش کیاکرتے تھے۔اس تھئٹر گروپ ایک سنجیدہ و تجربہ کا ر مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے’’ رانا بوس‘‘ تھے۔ اور اسی گروپ سے’ اے ایم یو ‘ میں انگریزی ’پروفیسر زاہدہ زیدی‘ کا تحریر کردہ ایک اُردو ڈامہ ’’ وہ صبح کبھی تو آئے گی‘‘ کو بڑی کامیابی سے پیش کیا اور وہیں سے زندگی اور حالات پر مبنی طنزیہ ڈراموں کو اسٹیج کا سلسلہ جاری ر کھا۔بعد ازاں کچھ فرانسیسی ،ایرانی اور فلسطینی گروپ نے شمولیت اختیار کی۔راہول ورما نے ’’بھوپال گیس سانحہ ‘‘ ایک بہترین ڈرامہ پیش کیا ۔
شہر’ جدّہ ‘ سے شائع ہونے وا لے اردو روز انامہ ’’ اردو نیواز ‘‘ اور انگریزی رو نامہ ’’ سعودی گزٹ ‘‘ میں ایک آزاد صحافی کے طور پر منسلک رہیں ۔آپ نے ایک سنجیدہ اور متن لہجہ کی شاعرہ کے طور پر اپنی شناخت قائم کر لی۔آپ کی شاعری ،افسانوی ،انشائیوں ،اخبار کالم اور مضمامین کے مجموئے شائع کئے اور عالمی شہرت یافتہ ادیبہ
افسانہ نگار ، شاعرہ اور ایک صحافی کے طور پر اُردو دنیا میں اپنے سکہ ثبت کردیا۔ جذبۂ اردو ادب اور گہری سوچ اور ایک عزم حاصل کرنے کی قصدو جدو جہد و مطالعہ نے اپنے جذبات کی جدّت نے اپنی شاعری کو خوب نکھارا۔
ْْْْآپ شاعری اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کرتی ہوئیں آپ کی ذاتی زندگی اور دنیا کے مابین جو لین دین ہے جو رد عمل ہے آپ کے لئے تخلیق کا سر چشمہ ہے۔یہ اظہار
ذات بھی ہے اور روح کی غذا بھی ہے۔جو بھی آپ کی خامہ فرسائی ہے وہ آپ کی شخصیت کو کچھ اور مکمل او ر شمع ہستی کو کچھ اور روشن کر دیتی ہیں۔ذیل اشعار پر غور فرمائیں
جو پتھر سے الفاظ میں جان ڈالے
وہ انداز سحرالبیاں ڈھونڈتی ہوں
کسی خیال کی حدت سے جلنا چاپتی ہوں
میں لفظ لفظ غزل میں پگھلنا چاہتی ہوں
پہن کے خواب قبا ڈھو نڈ لوں گی چاند نگر
سہج سہج کسی بادل پہ چلنا چاہتی ہوں
حقیقتیں تو مرے روزو شب کی ساتھی ہیں
میں روز و شب کی حقیقت بدلنا چاہتی ہوں
عذرا سعودی عرب میں قریب ۱۵ سالہ طویل قیام کے دوران آپ کو کچھ قوانین کی سختی اور پابندیاں کافی سخت اور غیر معقول لگے۔ سعودی میں تارکین وطن کی ایک اور ہی دنیا آباد تھی جو کینڈہ اور امریکہ کے مہاجروں سے کافی مختلف تھی۔ اس میلے میں نئے نئے لوگ انکی مختلف زبانیں ،مختلف روئے ، مختلف ثقافت ،ان مختلف زاویوں سے سجی سجائی ایک نرالی، رنگا رنگ بدلتے مناظر ایک طلسماتی ،دلربائی دنیا ،جہاں تمام آباد لوگ جو اپنی محبتوں ،خوشیوں ،خوبیوں ،کمزوریوں ،اپنے خوابوں اور اندیشوں کے سے جی رہے اور آبا د تھے۔سعودی عرب میں ہندوستانی بچو کی نرسری اور ذہنی طور پر معذور بچوں کے لئے ایک نگہداشت کے مرکز میں تقریباََ چار سے پانچ سال تک ان کی اصلاح ،فلاح اور تربیت کا موقعہ فراہم ہوا تو زندگی کی تلخیوں کو قریب سے دیکھا اور خوب مایوس ہوئیں۔ سعودی خواتین مصنفین کی تحریر کردہ کہانیوں کا مجموعہ
’’ voice of change ‘‘ اس کتاب کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کیا ، آپ کافی حیران رہیں کہ سعودی خواتین نے بڑی بے تکلفی، جرأت سے اپنے تمام مسائل کا جائزہ لیا ۔اُردو میں ترجمہ شدہ اس مجموعہ کو کافی پذیرائی ملی اور آپ نے اس ترجمہ شدہ کتاب کو ۲۰۰۸ میں شائع کیا۔انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر نے میں بھی مہارت حاصل تھی۔ ’’ سعودی قلم کار خواتین کی منتخب کہانیاں ‘‘ ۔علاوہ از ایں سعودی صحافی ’ احمد الصبی‘ کی انگریزی یاد داشتوں ’’ the english memoirs‘‘ ’ میرے شب و روز‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔ اپنی تحریر کردہ ۱۵ مختصر کہانیوں کا مجموعہ ’’ آنگن جب پردیس ہوا ‘‘ میں مرتب کیا۔ان میں کچھ کہانیاں ثقافتی اور تارکین وطن کے حالات زار کو بیان کرتی ہیں۔سعودی عرب کی تنظیم ’ہم ہندوستانی کی جانب سے ’’ دختر ِ اُردو ‘‘ اعزاز آپ کو عطا ہوا ۔ ’ ریختہ فاونڈیشن ‘ کے بانی جناب ’ سنجیو سراف ‘ کی اُردو خدمات کی کافی سراہنا کیں۔اور آپ خود ریختہ فاونڈیش سے قریب چھ سال وابسطہ رہیں۔ آپ کی ’ ہندی کتاب ’ اُردو شبدوں کا گلدستہ ‘ ۴۵ ابواب پر مشتمل اس کتاب کو’ جشن ریختہ‘ سے اس وقت ریلیز کیا جب عوام covid 19 کی اس وبا سے گھر میں مقیم تھے ۔
ُعذرا نقوی کی کچھ مشہور تصانیف کی فہرست کچھ اس طر ح ہے ۱۔ ’ آ نگن جب پردیس ہوا ‘۔ ۲۔ ’ دل کے موسم ‘۔ ۳۔ ’جہاں بنالے اپنا نشیمن ‘۔ ۴۔ ’ میرے شب و روز‘ ۔
۵۔ ’ شعر ،کتابیں ،یادیں ‘۔ ۶۔’ ’جِھٰات‘ ۔آپکی مرتب کردہ تصانیف ’میرے وطن کی خوشبو‘ اور ’ کلیات سیدہ فرحتؔ‘
خاندانی اور سماجی ورثے میں آپ کو ایک اعلیٰ اخلاقی ،سماجی اور ادبی اقدار عطا ہے کہ جس آپ کو نازتھا۔یہی دلی کیفیت کو آپ نے یوں بیان کیا۔
اے مری ارض وطن ، مجھ کو لوٹا دے وہی
میرے پرکھوں کی وراثت ، وہی رخشندہ خواب
تاکہ میں اپنی نئی نسل کوبھی انکی امانت سونپو
انکی آنکھوں میں سجا دوں ،وہ خوش آئندہ خواب
٭٭٭