غافلوں کی خدا نہیں سنتا!

0
175

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
بستیاں جل جائیں،عورتیں بیوہ،بچے یتیم ہو جائیں،
خدا نہیں سنتا!
یہ فیصلہ ہے دین فطرت کا،غافلوں کی خدا نہیں سنتا!
مسلمان قربانی کا حوصلہ و مقام رکھتاہے
تاریخ کے قدم قدم پہ لہو کا نشان رکھتا ہے
اس پر خطر دور میں ہر جگہ،ہر سمت میں بسنے والا انسان مسلمانوں سے بے زاری کا اظہار کر رہا ہے(الا ماشاء اللہ) دینِ اسلام کو رو ارض سے مٹانے کی مہم ہر سازشوں کے ساتھ جاری ہے۔
شام کی در و دیوار مسلمانوں کے خون سے لال ہو چکی ہے،فلسطین میں مسلمانوں کا خون مشرکوں اور ظالموں نے حلال کر لیا ہے،میانمار کی فضائ￿ مسلمانوں کی آہ بکاں سے گرد آلود ہو چکی ہے،لیبیا میں ہم پر طرح کی مصیبتوں کا نزول ہوا،بنگلہ دیش،بھارت اور افغانستان میں بھی ہم پر ظلم ک? گ? اور اب بھی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری وساری ہے،سرزمین عراق ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے خون سے سرخ ہو چکی ہے،
غرضیکہ پچھلے کچھ سالوں سے ہرجگہ پرصرف مسلمان ہی نشانے پر ہیں،
دور حاضر میں مسلمانوں پر طرح کی، ہر قسم کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،مسلمانوں کی زوال کی داستان جو کچھ سال قبل شروع ہوئی اپنے عروج کی داستانیں لکھنے کے بعد اپنے ہی ہاتھوں سے انحطاط کا شکار ہو گئی۔ہم کسی دوسرے کو اس تنزلی کا مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔یہ گرہیں ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے لگائیں اور انہیں خود ہی کھولنی پڑیں گی۔ اس کی بنیادی وجہ اتفاق و اتحاد میں کمی، اخلاقی گراوٹ، دانشوری و سائنس میں عدم دلچسپی، منافق بازی، وعدے کی پاسداری نہ کرنا، دین میں نئی اختراع و من پسند کو اپنی زندگی میں لاگو کرنا، تجارت میں دھوکہ دہی، انصاف کا قتل عام، جھوٹی گواہی دینا، معاشرے کو قرآن کے قوانین پر استوار نہ کرنا، تعلیم میں فقدان، اشیاء میں گراوٹ و ناپ تول میں کمی، عوام کا استحصال، حقوق کی پامالی، میرٹ کا قتل عام اور سب سے بڑھ کر کتاب اللہ سے دوری ہے۔مسلمان ایک آفاقی تہذیب جس میں ہر رنگ و نسل و خطے کے لوگ مساوی حقوق کی بنیادوں پر اپنے اقلیتوں کے ساتھ رواداری کا سبق دیتے اپنی ترقی کا علم سر بلند کیے رہے تو دنیا ان کے زیر نگیں رہی۔ محنت و مشقت جن کا خاصہ تھا، علمی ترقی، فنون لطیفہ، آرٹ، قرآن کی روشنی میں کائنات پر کمندیں ڈالنے والے ہمارے آباو اجداد تھے لیکن ہم کیا ہیں؟ ہم اقوام عالم میں کس جگہ کھڑے ہیں ہمارا کیا مقام ہے یہ سوال اہمیت کا حامل ہے۔مسلمان علماء کی طرف سے اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے ل امت مسلمہ کی نجات اور دشمنان اسلام کے ذلیل ورسوا ہونیکے لئے پوری امت مسلمہ نے جگہ جگہ پر قنوت نازلہ کا بھی اہتمام کررہی ہے،یہاں تک کہ پاک ومقدس سرزمین حرمین وشریفین سے بھی مسلسل دعائیں کی جارہی ہے مگر ہائے افسوس ہم مسلمانون کی بدنصیبی وبدبختی دیکھئے کہ نہ توہمارے حالات بدل رہے ہیں اورنہ ہی ہماری دعائیں قبول کی جارہی ہے اورنہ ہی ہمارے اوپر سے مصیبتوں کے بادل چھٹ رہے ہیںآخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لئے اتنی زیادہ دعائیں کی جارہی ہیں اور ہم سب خود اپنے رب سے گریہ وزاری کررہے ہیں مگرنہ تو ہماری دعائیں قبول ہو رہی ہیں اورنہ ہی ہماری حالتیں بدل رہی ہیں اور نہ ہی ہم مسلمانوں کی مصیبتیں دور ہورہی ہیں،ہم مجبور ولاچار،بے بس ہیں مگر پھر بھی ہماری فریاد رسی نہیں ہورہی ہے جب کہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ میں ہر مصیبت زدہ کی پکار کو سنتاہوں اور اس کی مصیبتوں کو دور کردیتاہوں۔اللہ تعالی سب کی دعائیں قبول کرتا ہے،لیکن مضطر کی درخواست میں زیادہ طاقت اور خضوع و خشوع ہے اسلئے استجابت دعا کے لئے اضطرار کو شرط ہے۔اضطرار انسان کی حقیقی طلب کی نشانی ہوتی ہے۔مضطر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی شدید پریشانی یا مصیبت کی وجہ سے اللہ سے پناہ مانگے اور غیر اللہ سے مکمل نا امید ہو جائے۔اللہ تعالیٰ مجبوروں اور لاچاروں کی فریاد سنتا اور ان کی دادرسی فرماتا ہے،نبی کریم نے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کا ایک طریقہ سکھایا ہے، چنانچہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم نے مجبور کی دعا کے بارے میں فرمایا (کہ وہ یوں دعا مانگے:)‘ یعنی ایاللہ ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں ،تو مجھے انکھ جھپکنے کی دیر بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے سارے کام درست فرما دے، تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے۔( مسند ابو داود طیالسی، ابو بکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ص۔117، الحدیث:869)مجبور اور لاچار مسلمان تو خاص طور پر یہ دعا مانگے جبکہ عمومی طور پر ہر مسلمان کو یہ مبارک دعا بکثرت مانگنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اوراپنے نفس کے حوالے نہ ہونے کا ہر مسلمان حاجت مند ہے اور اپنے کام درست ہونے کاہر مسلمان طلبگار ہے۔کیا ہماری فریادوں میں،دعاؤں میں،آہ و بکاں میں اضطراری کیفیت ہے؟دعا سے قبل پوری توجہ کے ساتھ توبہ النصوح فرض ہے۔اللہ کو پکارتے وقت،گریہ و فریاد کرتے وقت،دعا کرتے ہوئے ریا کاری سے گریز کیا جائے۔کیا ہمارے اعمال ریاکاری سے خارج ہیں؟ہم دین کا صرف لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں،سارے کام غیر اخلاقی اورغیر مذہبی کرتے ہیں۔ہم مذہب کو صرف دکھاوے کے طور پر استعمال کرنا جانتے ہیں،ایک مسلمان بھی شائد ہی اللہ کے ل? کوء نیک عمل کرتا ہو؟ہماری دعاؤں میں اخلاص کی کمی ہے۔اخلاص کے ساتھ دعا کرنے والے کو یہ نظریہ ضرور رکھنا چاہئے کہ صرف اللہ تعالی کو ہی پکارا جاسکتا ہے، اور وہی اکیلا تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔کتاب اللہ کی روشنی میں عاجزی، انکساری، خشوع،و خضوع،قبولیت کی امید اور دعا مسترد ہونے کاخوف،حقیقت میں دعا کی روح، دعا کا مقصود ،اور دعا کا مغز ہے۔
پانچ شرائط!
(1) دعا مانگنے والا عبادت گزاروں کے گروہ میں شمار ہوتا ہے کہ دعا فِی نَفسِہ یعنی بذاتِ خود عبادت بلکہ عبادت کا مغز ہے۔(2) جو شخص دعا کرتا ہے وہ اپنے عاجز اور محتاج ہونے کا اقرار اور اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی قدرت اور کرم کا اعتراف کرتا ہے۔(3) دعا مانگنے سے شریعتِ مطہرہ کے حکم کی بجا اوری ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا اور دعا نہ مانگنے والے پر حدیث میں وعید ائی۔(4) سنت کی پیروی ہو گی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہْ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ دعا مانگا کرتے اور اوروں کو بھی تاکید فرماتے۔(5) دعا سے افات و بَلِّیّات دور ہوتی ہیں اور مقصود حاصل ہوتا ہے۔(فضائل دعا، فصل اول، ص۔54۔55، ملخصاً)اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ‘ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو ‘ جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔خوف اس لئے کہ تم اس کے غضب سے بچ جاو? اور طمع اس لئے کرو کہ وہ تم سے راضی ہوگا اور اجر دے گا۔ جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر وہ اسے دیکھ نہیں رہے تو ان کی حالت ایسی ہو کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے۔ جیسا کہ حدیث کے مضمون میں آتا ہے تو یہ ہے احسان۔ حضور کی تعریف کے مطابق۔ایک بار پھر قرآن کریم اس کھلی کائنات کا ایک دوسرا ورق انسان کے مطالعے کیلئے الٹتا ہے۔یہ ورق تو ہمارے سامنے ہر وقت کھلا رہتا ہے لیکن ہم غفلت میں اس کے پاس سے گزر جاتے ہیں ہیں ہم اس سے کوئی تاثر نہیں لیتے، ہم اس کی پکار کو نہیں سنتے۔ یہ وہ صفحہ ہے کہ آیت سابقہ میں رحمت الہیہ کے ضمن میں اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ یہاں رحمت الہیہ کے ایک نمونے کے طور پر اسی صفحے کو کھولا جا رہا ہے۔ آسمانوں سے پانی گر رہا ہے ‘ زمین سے مختلف قسم کی فصلیں اگ رہی ہیں اور زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے یعنی سرسبز ہوجاتی ہے۔مسلمانوں مت گھبراؤ،ناامیدی کفر ہے،دعاؤں کی قبولیت کے ل اللہ کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا جائے،کھانے ، پینے، پہننے، جائے اقامت اور سواری میں حرام مال استعمال ہو،ہمیشہ سچائی کاساتھ دیں،جھوٹی گواہی نہ دیں،کسی عالم میں بھی،کسی ماحول میں بھی حق کا دامن نہ چھوڑے،ذریعہ آمدنی حرام کاموں پر مشتمل نہ ہو، دلوں پر گناہوں کا زنگ چڑھا ہوا نہ ہو، دین میں بدعات کا غلبہ نہ ہو، اور قلب پر غفلت کا قبضہ نہ ہو۔ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کر دے تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملا دے۔قحط سالی ہو گئی ہو اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسادے۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا