خلیل مامون ہماری ادبی وراثت کے امین تھے:محمد اعظم شاہد

0
186

کہا مرحوم شعری خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے
لازوال ڈیسک

بنگلور؍؍خلیل مامون ہماری ریاست کے نمائندہ نظم گو شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعے ”نشاط غم”،”آفاق کی طرف ”،”جسم و جاں سے دور”، ”بن باس کا جھوٹ”، ”سرسوتی کے کنارے”،” لا الہٰ”، اندھیرے اُجالے”ان کی ادبی سوغات ہیں، جو ہمارے ادبی سرمایہ کا ناقابل فراموش ورثہ ہیں۔بطور،مترجم ان کی ”انیس للہی” نظمیںادبی حلقوں میں سراہی گئیں۔انگریزی اور کنٹرا کا منتخب شعری ادب بھی انھوں نے اُردو میں پیش کیا۔جنوبی ہند میں مخدوم محی الدین کے بعد خلیل مامون دوسرے شاعر ہیں ،جنہیں مرکزی ساہتیہ اکادمی نے شاعری کے زمرے میں اعزاز سے نوازا تھا۔ پچھلے مہینوں انھیں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی جانب سے شعری خدمات کے لیے”غالب ایوارڈ ” سے نوازا گیا تھا۔ریاست کرناٹک کا باوقار” راجیہ اتسو ایوارڈ ”بھی ان کی گراں مایہ خدمات کے اعتراف میں تفویض کیا گیا تھا۔وظیفہ یاب آئی پی ایس افسر جناب خلیل مامون کو کرناٹک اُردو اکادمی کا صدر نشین بھی نامزد کیا گیا تھا۔ ادبی صحافت سے بھی صاحب موصوف وابستہ رہے۔ان کی ادارت میں سہ ماہی ”نیاادب” نے اپنی ایک خاص پہچان بنائی تھی۔حکومت کی معاونت کے بغیر انھوں نے اپنے ادبی فورم ”اُردو منچ” سے پہلی مرتبہ بنگلور میں عالمی ”اُردو کانفرنس”کا اہتما م کیا تھا۔کن کن باتوں اور یادوں کا ذکر کیا جائے۔ان سے جڑی بے شمار یادیں ہیں۔مجھے خلیل مامون صاحب بہت عزیز رکھتے تھے۔کبھی بالمشافہ یا فون پر کئی اُمور پر گھنٹوں ان سے گفتگو ہوتی۔ہر بار میں نے ان کی بصیرت سے استفادہ کیا ہے۔انھیں،اب مرحوم کہتے خود پر یقین نہیں آرہا ہے۔وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔بے باک طریقے سے اپنا ادبی موقف پیش کرنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔نہ صرف ریاست بلکہ ملک کی ادبی تاریخ میں انھیں ان کے شعری سرمایہ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کے مالک خلیل مامون صاحب سیماب صفت اوصاف کے حامل تھے۔ اختراعیت ان کی طبیعت کا وصف خاص تھی۔جناب خلیل مامون کی رحلت سے ادبی حلقے سوگوار ہیں۔ دُعا ہے کہ مولائے کریم ان کی بھرپور مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین،دوست احباب اور قدر دانوں کو صبر جمیل سے نوازے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا