ہر بچے کی پیدائش پر ماہانہ 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان

0
123

جنوبی کوریا میں حکومت کم ترین شرح پیدائش کے مسئلے کے حل کے لیے کروڑوں ڈالرز خرچ کرنے کے لیے تیار
یواین آئی

سیول؍؍جنوبی کوریا میں حکومت کم ترین شرح پیدائش کے مسئلے کے حل کے لیے کروڑوں ڈالرز خرچ کرنے کے لیے تیار ہے۔کوریا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کی وزارت خزانہ نے بچوں کی شرح پیدائش میں اضافے کے غرض سے والدین کی حوصلہ افزائی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت انہیں ایک بڑے معاوضے کی پیش کش کی گئی ہے۔
اس حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اس وقت دْنیا میں سب سے کم شرح پیدائش رکھنے والا ملک ہے اور کمی کو پورا کرنے کیلئے مذکورہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔گزشتہ روز وزارت خزانی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل فی بچے کی پیدائش پر دیے جانے ماہانہ معاوضہ 1.5 ملین وان سے بڑھا کر 2.5 ملین وان کیا جا رہا ہے۔
امریکی کرنسی میں یہ رقم 1,809 ڈالر کے برابر ہے جبکہ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 5لاکھ ایک ہزار 3سو روپے بنتی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بچے کی پیدائش کے ایام میں اگر والدین کسی بچے کی دیکھ بھال کے لیے عارضی طور پر اپنی ملازمت چھوڑتے ہیں یا چھٹی لیتے ہیں تو انہیں یہ رقم انہیں معاضے کے طور پر دی جائے گی۔
اس کے علاوہ حکومت بچوں کی دیکھ بھال کیلیے کی جانے والی والدین کی چھٹی کی مدت کو موجودہ 12 ماہ سے بڑھا کر 18 ماہ کردے گی۔یہ منصوبہ ان اقدامات میں شامل ہے جس میں ہاؤسنگ لون کی سہولت فراہم کرنا، بچوں کی تعداد میں اضافہ اور سستی ابتدائی تعلیم شامل ہے۔یہ شرح پیدائش میں کمی کو روکنے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں، غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا میں گذشتہ برس شرح پیدائش 0.72 کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی۔
صدر یون سک یول نے بدھ کو اس مسئلے پربات کرنے کے لیے ایک اجلاس طلب کیا تھا جس سے ملک کی عمر بڑھنے کے عمل کو تیز کرنے اور پیداواری صلاحیت اور مالی صحت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا کی سکڑتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ملک کو "قومی ہنگامی صورتحال’’ کا سامنا ہے۔بچوں کی پیدائش کے لیے نوجوانوں کی ہچکچاہٹ پر متعدد عوامل کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں رہائش کے زیادہ اخراجات اور مسابقتی تعلیم کا منظرنامہ شامل ہے۔واضح رہے کہ جنوبی کوریا حکومت شرح پیدائش بڑھانے کی کوششوں پر اب تک کئی ارب ڈالر خرچ کرچکی ہے، تاہم اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکیاور اب تک بہت کم کامیابی ملی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا