تباہ کاریوں کے درمیان غزہ میں عیدالاضحیٰ بھی گذر گئی

0
101

 

 

محمد اعظم شاہد

غزہ پٹی میں بسے فلسطینیوں پر حماس کے ایک دن کے حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے فضائی اور زمینی حملے آٹھ مہینوں سے برابر جاری ہیں۔ جنگ تو ویسے دونوں فریقین کے درمیان اسلحہ کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ اب اسلحہ صرف اسرائیل کے ہاتھوں میں ہی ہے اور فلسطینی نہتے ظلم وستم اورتباہ کاریاں سہتے رہے ہیں۔ غزہ اب ایک اجتماعی قبر بن گیا ہے۔ اسرائیلی جنگی حملوں نے تمام عمارتوں کو ملبے میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں آزادیٔ انسان اور حقوقِ سکونت کی پاسداری کرنے والے اب مجموعی اعتبار سے خاموش تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ اسرائیلی دہشت گردی اور بربریت کھلے عام جاری ہے۔ بشمول انجمن اقوام متحدہ unoاور icjعالمی عدالت برائے انصاف کوئی جنگ بندی کروانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا مددگار اور جنگی وسائل فراہم کرنے والا ملک رہا ہے۔ غزہ میں مچی تباہ کاریوں میں امریکہ کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ تو دوسری جانب عالمی سطح پر جنگ بندی کے لئے ثالثی کردار ادا کرنے میں بھی وہ آگے ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کروانے اور جنگ زدہ علاقے میں امن کے قیام کے لئے امریکہ آگے رہا ہے۔ بیانات اور اپنے موقف کی وضاحت کرنے امریکہ تھکتا نہیں ہے۔ مصر اور قطر ان دونوں ممالک نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے لئے اب تک کئی بار کوششیں کی ہیں۔ مگر اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ امریکہ بار بار اصرار کرتا رہا ہے کہ ثالثی کوششوں میں کچھ عملی نتائج واضح ہونے ضروری ہیں۔ حماس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلاء ، پناہ گزین کیمپوں میں مقیم غزہ کے فلسطینیوں کا ان کے آبائی شہروں اور قصبوں میں دوبارہ سکونت کے لئے منتقلی، اور بیرونی ممالک کی رَسد اور امداد کو بغیر رکاوٹوں کے لئے غزہ تک رسائی جیسے شرائط معاہدے کے لئے پیش کرچکا ہے، مگر اسرائیل ان شرائط پر ایمانداری سے عمل کرنے تیار نہیں ہے۔ وہ (اسرائیل) حماس کی جانب سے صرف یرغمال اسرائیلی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اب تک کے حالات بتارہے ہیں کہ اسرائیل مسلسل اپنے بڑھتے حملوں اور مظالم سے غزہ کے فلسطینیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل نے کئی بار یہ کہا ہے کہ اس کا نشانہ حماس اور اس کی دہشت گردی رہی ہے۔ مگر حماس سے انتقام لینے کی آڑ میں غزہ میں بسے دو کروڑ تیس لاکھ فلسطینیوں کی زندگی کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔
گزشتہ سال7؍اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں پر روک تھام کے لئے جنگ بندی کا مطالبہ کئی بار ہوتا رہا۔ سال رواں میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل جنگ بندی کی کوششیں ہوئیں۔ پھر عیدالفطر سے قبل جنگ اور فلسطینی باشندوں کے غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کے خاتمے کی امیدیں لگائی گئیں۔ فضائی اور زمینی حملے اسرائیل کی جانب سے رمضان اور عید کے دوران بھی جاری رہے۔ ان تشویش ناک حالات پر امن کے قیام کے حامی کئی ممالک نے اپنی اپنی فکر جتائی۔ مگر نسل کشی کا سلسلہ جاری رہا۔ اسرائیلی حملوں کے درمیان عمارتوں کے ملبے کے احاطے میں غزہ کے کئی مقامات جیسے خان یونس وغیرہ میں عیدالاضحیٰ کی نماز پناہ گزیں کیمپوں میںبسے فلسطینیوں نے ادا کی۔ اسرائیلی مظالم اور حملوں کے درمیان رمضان کے بعد یہ عید بھی آئی اور چلی گئی۔ بے یاس ومددگار پریشان حال اپنے مکانوں کے ملبوں سے دور کئی غزہ باشندوں کو سوشیل میڈیا اورالجزیرہ کی خبروں میں یہ کہتے دیکھاگیاکہ عیدالاضحیٰ کے دوران قربانی کے لئے ان کے پاس نہ جانور خریدنے، ذبح کرنے کی سکت اور اہلیت اب باقی رہ گئی ہے۔ اب تو بس ان کی جانیں ہی قربان ہورہی ہیں اور عید رنج والم میں ہی گذرتی رہی ہے۔ ان حالات میں غزہ کے فلسطینیوں کا جذبۂ ایمانی، اللہ کی ذات اقدس پر کامل یقین وتوکل، عیدالاضحیٰ کی نماز کے دوران ستم رسیدہ بچوں، خواتین اورمرد حضرات میں دیکھنے میں آیا۔ اب شہری سکون اور مکان میں قیام غزہ کے مکینوں کے لئے خواب بن کر رہ گیا ہے۔
غزہ سے وابستہ یوسف الجمال جو امریکہ میں مقیم تجزیہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی کئی بار مکمل طور پر غزہ تباہ ہوچکا ہے۔ اور ہر بار راکھ سے دوبارہ ابھرتا رہا ہے۔ یوسف اپنے ایک حالیہ تجزیہ میں غزہ کی تباہ کاریوں کی تفصیلات بیان کرتے لکھتے ہیں کہ اسرائیلی حملوں کے باعث غزہ میں اب تک 36 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں 15ہزار بچے اور 10ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔ بیس لاکھ سے زائد لوگ اپنے مکانات جنگی حملوں کی نذر ہونے کے باعث پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم ہیں۔ 2 لاکھ 81 ہزار مکانات کے حصے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ 445اسکولس، 615 مساجد،322طبی ادارے (اسپتال) 203آثار قدیمہ کی یاد گاریں اور3گرجا گھر تباہ ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں356ڈاکٹرس اور ان کے معاون، 160صحافی اور 168 اقوام متحدہ کے کارندے شامل ہیں۔ پوری دنیا میں بالخصوص طلبہ کی جانب سے یونیورسٹیوں میں اسرائیلی حملوں کی مذمت میں ہوئے مظاہروں نے غزہ کے ستم رسیدہ احباب میں امن کے قیام کی امیدیں روشن کی ہیں۔ مگر ہر دن صبح تا شام اور رات غیر یقینی حالت میں گزارتے غزہ کے مکیں حالات کے بدلنے کے منتظر ہیں۔ جانے کب بدلیں گے ان کے حالات۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا