کیا مہاجرمزدوروں کے بچوں کو تعلیم کا حق نہیں ہے؟

0
182

 

 

مکیش کمار یوگی
ادے پور، راجستھان

سال 2009 میں بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق (آڑ ٹی ای) ایکٹ فراہم کرکے انہیں تعلیم سے جوڑنے کے لیے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا گیا تھا۔ اس سے ملک کے ان لاکھوں بچوں کو ضرور فائدہ ہوا جو تعلیم سے محروم تھے لیکن ایکٹ کے نفاذ کے 15 سال بعد بھی اگر زمینی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ہزاروں لاکھوں بچے ابھی تک کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم کی دہلیز سے دور ہیں۔ صرف راجستھان میں دو لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان میں بڑی تعداد مہاجر مزدوروں کے بچوں کی ہے۔جو اپنے والدین کے ساتھ بہتر روزگار کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی مناسب کاغذات نہیں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہجرت کی جگہ کے قریب اسکول بھی انہیں داخلہ دینے سے روک دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال راجستھان کے پالی ضلع میں واقع کالیا مگرا کالونی ہے۔ اس کالونی میں 40 قبائلی خاندان رہتے ہیں، یہ کالونی ضلع کے سمر پور بلاک سے تقریباً 24 کلومیٹر اور سندھورو گرام پنچایت سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ خاندان بہترروزی روٹی کی تلاش میں 35 سال قبل ادے پور ضلع کے کوٹرا بلاک میں واقع مختلف دیہاتوں سے ہجرت کر کے یہاں چلنے والے کریشر (پتھر توڑنے والی مشین) پر کام کرنے آئے تھے۔ لیکن کئی سالوں سے ان کے پاس اپنی شناخت کی کوئی صحیح دستاویز نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ کسی بھی قسم کی سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے سے محروم رہے۔ ان 40 خاندانوں میں 3 سے 14 سال کی عمر کے 80 بچے ہیں جو ابھی تک تعلیم سے محروم ہیں۔
اس حوالے سے 32 سالہ شانتی بائی کا کہنا ہے کہ ان کے تین بچے ہیں جنہیں مقامی اسکول میں داخلہ نہیں دیا گیا، کیونکہ ان کے بچوں کی پیدائش (برتھ سرٹیفکیٹ )کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کے سوال پر شانتی بائی کے پڑوسی 40 سالہ انا رام کا کہنا ہے کہ کالونی میں تمام بچے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ ایسے میں ان کا سرٹیفکیٹ کیسے بنے گا؟ 38 سالہ وردا رام گیمتی کا کہنا ہے کہ ’’ہم مزدور ہیں، اگر ہم اسپتال جائیں گے تو ہماری اجرت کاٹی جائے گی، اسی لیے کوئی بھی مزدور اسپتال کے بجائے گھر پر اپنی بیوی کی ڈیلیوری کرواتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے بچے کا پیدایشی سرٹیفکیٹ دستیاب نہیں ہو پاتا ہے۔‘‘ تاہم، پچھلے کچھ سالوں میں، کوٹرا آدیواسی سنستھان (کے ائے ایس) سمیت مقامی سطح پر کچھ رضاکارانہ تنظیمیں ان خاندانوں کے مفاد میں مسلسل کام کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان خاندانوں کو سرکاری اسکیموں کا فائدہ ملنا شروع ہوگیا ہے لیکن بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے کے اے ایس کے ڈائریکٹر سرفراز شیخ کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے تک ان خاندانوں کے پاس کسی قسم کا شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے انہیں کسی قسم کی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملا۔ ان خاندانوں کو حکومت کی طرف سے محنت کشوں کے مفاد میں بنائی گئی تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا۔
جس کے بعد تنظیم کی جانب سے اس سمت میں پہل کی گئی۔ جس کی وجہ سے آج ان کے آدھار کارڈ بن گئے ہیں اور یہ خاندان کئی اسکیموں کا فائدہ اٹھانے لگا ہے۔ لیکن بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے تنظیم نے سندھورو گرام پنچایت سے بھی رابطہ کیا لیکن سرپنچ نے یہ کہہ کر سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا کہ ان بچوں کے والدین گاؤں کے مستقل باشندے نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہماری طرف سے مختلف سطحوں پر وکالت کا کام کیا گیا۔ وہ جہاں سے ہجرت کر آئے تھے وہاں کی گرام پنچایت سے بھی دستاویزات کے لیے رابطہ کیا گیا۔ لیکن انہوں نے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ گاؤں میں بھی ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر دستاویز دی جا سکے۔ سرفراز بتاتے ہیں کہ کوٹرا کے ایک سماجی کارکن چنی لال نے بھی اس کام میں تنظیم کی مدد کرنا شروع کر دی تھی۔ لیکن ایک دن جب وہ کاغذات کے سلسلے میں کوٹرا بلاک کے سب ڈویژنل افسر سے ملاقات کر کے واپس آ رہے تھے تو سڑک حادثے میں ان کی موت ہو گئی، جس کے بعد ان کے لیے کاغذات کی تیاری کا کام ٹھپ ہو گیا اور بچوں کا داخلہ نہ ہو سکا۔
سرفراز شیخ کا کہنا ہے کہ سال 2015 میں کے اے ایس کی ایک معاون تنظیم لیبر اسسٹنس اینڈ ریفرنس سنٹر کے ذریعے بچوں کی تعلیم کے لیے بھی کوششیں کی گئیں۔ اس کے لیے کالیا مگرا میں ایک کنڈرگاڈن سنٹر بھی بنایا گیا۔ اسے بنانے میں مہاجر مزدوروں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس میں روزانہ 60 بچے پڑھنے آتے تھے۔ لیکن چند سالوں کے بعد جب اس مرکز نے تعاون بند کر دیا تو اسے چلانے کا چیلنج پیدا ہو گیا۔ تاہم محکمہ تعلیم کے افسران کی مداخلت کے بعد نہ صرف ان بچوں کو اندرا کالونی کے قریبی پرائمری اسکول میں بغیر کسی سرٹیفکیٹ کے داخل کرایا گیا بلکہ ان اہلکاروں کی پہل پر بچوں کے سفر کے لیے آٹورکشا کا بھی انتظام کیا گیا۔ لیکن چار ماہ گزرنے کے بعد رقم کی عدم ادائیگی نہیں ہونے کی وجہ سے آٹو ڈرائیور نے آنا بند کر دیا۔ اس سلسلے میں جب محکمہ کے افسران سے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا۔ اس کے بعد سے بچوں کی تعلیم مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو کبھی چھٹی نہیں ملتی۔ ساتھ ہی ان کی اجرت اتنی کم ہے کہ وہ اپنے بچوں کا کسی بھی اسکول میں داخلہ بھی نہیں کروا سکتے۔کے اے ایس کے علاوہ مقامی سطح پر کچھ سماجی کارکنوں جیسے ایڈوکیٹ شنکر لال مینا، مہیپال سنگھ راجپوروہی اور گنیش وشوکرما نے بھی وقتاً فوقتاً ان مہاجر مزدوروں کے بچوں کو تعلیم دینے کی کوشش کی۔ اس کے لیے کالونی میں ہی ایک عارضی اسکول چلایا گیا تاکہ ان بچوں میں تعلیم کا شعلہ روشن کیا جاسکے۔ لیکن یہ تمام کوششیں مستقل ثابت نہ ہو سکیں۔ کبھی وسائل کی کمی اور کبھی سیاسی دباؤ کی وجہ سے یہ سکول زیادہ دیر تک نہ چل سکے۔
جس کی وجہ سے ان مہاجر مزدوروں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اگرچہ کئی بار بچوں کے اہل خانہ نے مختلف سطحوں پر حکام کو میمورنڈم دے کر اسکول یا آنگن واڑی کھولنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن کوئی مثبت حل نہیں نکلا ہے۔
تعلیم سے یہ دوری آہستہ آہستہ بچوں کو چائلڈ لیبر کی طرف دھکیل رہی ہے۔ کچھ بچے گھریلو کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں تو کچھ خاندان چلانے کے لیے ہوٹلوں میں کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ تاہم، تعلیم کا حق ایکٹ کہتا ہے کہ بغیر کسی دستاویزات کے تمام بچوں کو اسکول میں داخل کیا جانا چاہیے۔ لیکن اکثر قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے، سرکاری اسکول بغیر دستاویزات کے بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مہاجر مزدوروں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے؟ اس وقت ضروری یہ ہے کہ حکومت قوانین کو اس قدر لچکدار بنائے کہ ایسے بچوں کے سرکاری اسکولوں میں داخلے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت خود بخود ختم ہوجائے۔ (چرخہ فیچرس)
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا