عید قرباں اب، رسم جہاں تو نہیں

0
249

۰۰۰
جعفر حسین ماپکر مہاراشٹر
+91 86685 56701
۰۰۰
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانی کرنا، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی ثابت ہے. پھر یہ سْنت، ہراْمت میں مشروع (دستور) رہی.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اْن کے بیٹے اسماعیل کی قربانی کا قصہ، گاہے بگاہے ہر خاص وعام کی زبان پر رہا کرتاہے. اللہ تعالیٰ کو ان دونوں کا جذبہ ایثار اتنا پسند آیا کہ، اْمت محمدی کو بھی قربانی کا حکم دیا. فصل لربک وانحر (الکوثر ) ترجمہ: اپنے رب کے لئے نماز پڑھئیے اور قربانی کیجیے. اِس پر خاتم النبیین نے عمل کیا اور اپنی اْمت کے صاحب نصاب لوگوں کو بھی قربانی کرنے کی تاکید کی. ذبح اسماعیل کا اصل مقصد حضرت ابراہیم کی آزمائش تھی کہ بْڑھاپے میں ملی ہوئی اولاد کی محبت، اْن کے لئے برتر ہے یا خالق حقیقی کی. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عمل سیثابت کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا، انہیں اپنے آل، مال وزر سے زیادہ عزیز ہے. لہذا ہمارے لئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حج کے بعد، عید کے تین دنوں تک، جانوروں کی قربانی کرنا، خصوصی عبادت رہی ہے. ایام عید میں، اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے محبت سے پالے ہوئے جانوروں کو بغیر رنج وملال کے، قربان کیا جانا ہی ہماری نیتوں کا امتحان ہے. ہماری زندگی اور موت صرف اللہ کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا، ہمارا نصب العین. اے کاش کہ ہمارا ظاہری اور باطنی ایماں و عمل، حضرت ابراہیم سا ہوشریعت کو شاید یہ عْذر بھی قابل قبول ہو کہ شہروں میں جانوروں کو پالنا مْمکن نہیں، اس لئے انہیں قبل از عید خرید کر اللہ کی رضا کیلئے قْربان کیا جائے، مگر ریاکاری، نمود ونمائش نہ ہو اور نہ ہی مول تول پر واہ واہی. حد یہ ہے کہ ہماری اکثریت، اس بات سے واقف ہی نہیں، کہ ہم قربانی کیوں کرتے ہیں. سردست گاؤں کے لوگوں میں بھی وہ جانوروں کو پال کر اللہ کی راہ میں قربان کیا جانے کاجذبہ ناپید ہوا ہے. وہ بھی شہر والوں کی تقلید میں عید کے دو چار دن پہلے، قربانی کا جانور خرید لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
خوشنودی کی تو خیر اللہ ہی جانے، مگر آجکل قربانی محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے.جیسے ہم قصاب سے بکرا خرید کر، سب کے ساتھ مل جل کر، ایک پارٹی منانے جارہے ہوں. عیدالاضحی کا دوسرا دن عمومی طور پر گھومنے پھرنے یا پھر رشتے داروں کے گھر آنے جانے اور ملنے ملانے میں گزارا جاتا ہے کیوں کہ نوے فیصد گھرانوں میں عید کے پہلے دن قربانی ہوچکی ہوتی ہے۔ جن دس فیصد گھروں میں عید کے دوسرے دن قربانی ہوتی ہے وہ بھی صبح ہی صبح جانور کو، ذبح کرکے فارغ ہوجاتے ہیں اور شام تک رشتہ داروں کے یہاں گوشت بانٹتے رہتے ہیں۔ ان دونوں ہی صورتوں میں سارا زور، اپنے عزیز و اقارب یاروں اور دوستوں سے ملنے ملانے پر رہتا ہے۔
عید الاضحی کے دنوں میں گوشت کے پکوان کھانے کی روایت شاید اتنی ہی قدیم ہے جتنی قربانی کی سْنت۔ گھر میں قربانی ہو اور نئے نئے پکوان نہ بنیں یہ بھلا کس طرح ممکن ہے۔ ہند وپاک کی بات کریں تو یہاں بریانی اور تکے کھانے اور پکانے کا رواج بہت پراناہے. عید کے دوسرے ہی دن بیشتر افراد اپنے رشتے داروں کے گھر کا رخ کرتے ہیں جہاں سہ پہر سے ہی بریانی تکہ اور پارچوں کی تیاری شروع ہوجاتی ہے. دامادوں کو سسرال میں بنی بریانی اور تکوں کا سوچ کر ہی، منہ میں پانی آجاتا ہے۔ ایسے میں بیٹیاں بھی اپنے میکے والوں کی طرف سے ہونے والی ضیافتوں پر پھولے نہیں سماتیں، بلکہ اپنے اپنے شوہروں کے سامنے میک اپ کرکے، ایک نء ادا سے اِتراتیں پھرا کرتیں ہیں. اللہ کا ذکر اور شکر، خال و خال ہی ہوتا ہے
قربانی میں بظاہر تویہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان، ایک جانورذبح کررہا ہے ،لیکن حقیقت قربانی کچھ اور ہی ہے جو’’ بندئہ مومن‘‘ کی تربیت کے لیے اپنے اندر بڑے رموز واسرار رکھتی ہے. حضرت ابراہیم علیہ السلام کوخواب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح وقربان کردینے کاجوحکم ملا تھا وہ جسمانی قربانی سے بڑھ کر رمز تھا بڑی روحانی قربانی کا. اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوتی ہے کہ انسان کو دنیا میں سب سے زیادہ اپنی اولاد ہی عزیز ہوتی ہے. حتی کہ اس کی زندگی کی ہر محنت و کوشش بھی اولاد کے لیے ہوتی ہے، اور شاید ہمیشہ ہی رہیگی. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلا دینا رمز تھا اس بات کا کہ، اْن کی پوری زندگی، تمام خواہشات سب احکام خداوندی کے لیے وقف ہیں. چنانچہ پہلی قربانی تو انہوں نے یہ دی کہ اپنے ہرے بھرے ،شاداب وسدابہار وطن، شام (Syria) کو چھوڑ کرمکہ کی ویران وسنسان جگہ، جہاں دوردور تک پانی بھی نہ تھا، اباد ہوئے. اْتنا ہی نہیں بلکہ اسی ویرانہ میں، جہاں کوئی ابادی نہ تھی، اپنے شیرخوار بچے اوربیوی کوچھوڑ کر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں چلیگئے.
ہمارا لکھنا اسان، آپ لوگوں کا پڑھنا اسان، لیکن کوئی بھی انسان جس کے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل ہو اور اسے اپنی بیوی اور بچے سے محبت بھی ہو تو، کیا اپنی بیوی اوربچے کو اس طرح بے سہارا چھوڑ کر جاسکتا ہے؟ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی بے تکلف تعمیل کی. وہ عرصہ کے بعد مکہ مکرمہ لوٹتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ پانی کاچشمہ بھی جاری ہے ،انسانی ا?بادی بھی ہوگئی ہے. اب پہلی قربانی سے مشکل، بہت مشکل، دوسری قربانی کا وقت آتا ہے. اْس بیٹے ہی کو قربان کردینے کاحکم ملتا ہے جس کو وہ اس ویرانہ میں چھوڑ کر گئے تھے. کیا آپ میں سے، کسی کے پاس اس طرح کا ایمان یا پھر دل گردہ ہے؟ مشکل ہے، ناممکن نہیں. عیدالاضحی میںئ￿ ے جانور اس لیے نہیں قربان کیے جاتے کہ کھانے کھلانے کی چہل پہل ہو بلکہ یہ تو یادگار ہے، اللہ کے حکم سے اپنے دل کے ٹکڑے اسماعیل کی گردن پرچْھری چلادینے کی کہ، جب دل کے ٹکڑے کو مالک کے حکم کی تعمیل میں ذبح کیا جاسکتا ہے تو دیگر چیزوں کو قربان کرنا کیا مشکل ہے. مگر ہم میں وہ جذبہ ایمان ابراہیمی کہاں ہے؟پھر بھی قربانی کرتے وقت دل سے نیت کرتے ہوئے دعا کی معنویت پر غور کیجئیے. جانور کی گردن پر چْھری چلانے سے پہلے اپنے رب کے سامنے اقرار کرکے کہیے کہ میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ رْخ ٹھیک خدا کی طرف کرلیا ہے، جس نے یہ ا?سمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت سب رب العالمین کے لیے ہے، میں اقرار کرتا ہوں کہ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اورمیں مسلمان اور فرمانبردار ہوں، خدایا! یہ تیرے حضور جانور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے، اور تیرے خوشنودی کے لئے میں اسے قربان کررہا ہوں، اسے یا رب قبول فرماحدیثوں میں آیا ہے کہ، ایام تشریق میں اللہ تعالیٰ کو قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو ’’عیدالاضحی‘‘ کے موقع پر حتی الامکان قربانی کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ صدقہ، خیرات، رفاہی خدمات یا دیگر کوئی نیک عمل اس کا نعم البدل نہیں ہوسکتا. عید کا خْطبہ سْننا واجب ہے. اسے ترک کرکے، قربانی کرنے کے لئے بھاگنا کریہہ عمل ہے.مگر وقت اور حالات ایک جیسے نہیں ہوتے، آجکل تو بالکل نہیں. جیسے جیسے، عید قریب آتی جا رہی ہے، ہم پر مزید سرکاری پابندیاں عائد ہوسکتی ہے. سْنا ہے کہ حکومت علامتی قربانی کے حق میں ہے، جس کی افادیت حکومت اور ماحولیاتی اداروں کو ہو تو ہو، مگر شرعاً اس کی قدروقیمت کْچھ بھی نہیں ہے. سردست مہاراشٹر میں سیاسی جماعتوں کی اْتھل پْتھل جہاں تشویش ناک ہے، وہاں قربانی کے جانوروں کو لیکر شدّت پسندوں کی آرائیاں، سرکاری سطح پر پابندیاں، لاسکتی ہے. مسلمانوں میں نماز عید اور قربانی کو لیکر ملک گیر بیچینی، ہمیشہ سے رہی ہے. ایسی صورت میں مسلم رہمناؤں نے ارباب اختیار سے اپیل کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کو ذبیحہ خانوں میں قربانی کرنے کی اجازت دی جائے. اب ہوسکتا ہے کہ حکومت غوروفکر کرنے کے بعد، مسلمان رہنماؤں کی عرضداشت قبول یا پھر خارج کردے. اگر واقعتاً حکومت گر جاتی ہے تو، اجتماعی نماز اور ذبیحہ کا مسئلہ، بہت جگہ ہوسکتا ہے. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملکی سطح پر شریعہ کونسل نے، ان سارے مسائل پر غور کیا ہوگا اور حل بھی نکالاہوگا. پنی مقدْور بھر سمجھ کے ماتحت یہ سمجھاتا چلوں کہ قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدق? فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سیزائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے. قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی مال ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے. شافعی حضرات، سنن ابن ماجہ کی حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے، ایک جانور کی قربانی تمام اہل وعیال کی جانب سے دیتے ہیں جو ان کے ساتھ اور ان کے زیر کفالت رہتے ہیں. یہاں پر چند پیچیدگیوں کا ذکر ضروری ہے. جن صاحب حیثیت لوگوں پر قربانی واجب ہو، اور وہ سرکاری پابندیوں یا دیگر ممانعت کی وجہ سے قربانی نہ کرسکیں، تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ دوسرے مقام پر جہاں قربانی ہوتی ہو، تو وہاں قربانی کروانے کی کوشش کریں. کسی وجہ سے یہ امر ممکن نہ ہو تو ایک حصہ ہی لیں کیونکہ قربانی کرنے کا نعم البدل کچھ نہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا