کشمیر سے ایودھیا تک ایک ہی ماڈل

0
166

۰۰۰
مشرف شمسی
۰۰۰
جمّوں و کشمیر سے ایودھیا تک مودی اور امیت شاہ کا صرف ایک مقصد رہا ہے کہ بی جے پی کو انتخابی فائدہ کے ساتھ تجارتی فائدہ ہوتا رہے اور اس فائدے میں عام آدمی کی کوئی حصے داری نہ ہو۔
جمّوں و کشمیر سے 5 اگست 2019 کو خصوصی درجہ چھین لیا گیا تھا یعنی دفعہ 370 کے کچھ خاص شق کو منسوخ کر دیا گیا اور 370 کا وہ خاص شق بھارت اور جمّوں و کشمیر کی عوام کے درمیان پْل کا کام کرتا تھا۔دفعہ 370 کا خاتمھ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایجنڈے کا حصہ تھا لیکن بی جے پی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا مقصد جمّوں و کشمیر کو ترقی کی اونچائی پر پہنچانا بتایا گیا۔ہے شک ہندی علاقوں میں بی جے پی کو ووٹ کا فائدہ ہوا لیکن اصل فائدہ ریاست میں کارپوریٹ کو ہوا ہے۔
امیت شاہ اور مودی کی سیاست پر غور کریں تو پیسہ اور پاور اْنکی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔جمّوں و کشمیر سے 370 کو ختم کرنے سے ریاست کی عوام کو کتنا فائدہ ہوا ہے اس کا ڈیٹا سامنے نہیں آیا ہے لیکن ریاست میں جنگجوؤں کی کاروائی ہنوز جاری ہے اور اس طرح کی کاروائی سے عوام کو راحت نہیں مل رہی ہے۔بی جے پی ریاست کی عوام الناس کی خواہش کے عین مطابق دفعہ 370 کو ختم کیا ہے جیسا کہ بی جے پی کا کہنا ہے لیکن جمّوں و کشمیر سے خاص دفعہ ختم کیے جانے کے بعد یہ پارلیمانی چناو پہلا چناو تھا اور بی جے پی نے وادی کی تینوں پارلیمانی سیٹوں پر شکست کے خوف سے اپنے امیدوار نہیں اتارے۔
مودی اور شاہ کے دور حکومت میں صرف جمّوں و کشمیر کی جنگل اور زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش ہوئی ہے ایسا نہیں ہے۔شمالی مشرقی بھارت کی کئی ریاستوں میں جمّوں و کشمیر کی طرح کارپوریٹ کا داخلہ کرا دیا گیا ہے۔منی پور اس کی تازہ مشال ہے۔منی پور میں ایک سال سے خانہ جنگی جیسے حالات ہیں لیکِن بھارت کی مضبوط مودی اور شاہ سرکار اس پر قابو پا نہیں سکی ہے۔کیونکہ اس ریاست میں بھی معدنیات سے زرخیز پہاڑیوں کو کارپوریٹ کے نام کرنا ہے۔چونکہ منی پور میں ہندو مسلم تنازعہ نہیں ہے تو اس سے ووٹوں میں خاص فائدہ نہیں ہو سکتا ہے اس لیے اس موضوع کو ڈھکنے کی کوشش سرکار کر رہی ہے۔لیکن یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ دس سال سے پر امن ریاست منی پور اچانک کیسے سلگ گیا یا اس ریاست کو سلگانے کے پیچھے کوئی خاص مقصد ہے۔آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بھی ایک سال سے منی پور کا مسئلہ حل نہیں ہونے پر سوال اٹھائے ہیں۔صرف منی پور ہی نہیں تریپورہ ،میزورم اور ناگالینڈ جیسے سرحدی ریاستوں میں اپنے خاص کارپوریٹ کو سارے بڑے بزنس دے دیے گئے ہیں یا دینے کی تیاری ہے۔یہاں تک کہ ہماچل پردیش میں بڑے بڑے سیب کے باغات کارپوریٹ کو دینے کی خبر ہے۔ لداخ تو نشانے پر ہی ہے۔
مودی اور شاہ کو عام عوام کی خواہشات کے مطابق کام کرنا مقصود نہیں ہے۔ ایودھیا اور بنارس جیسے مقدس مقامات پر پرانے مندروں کو جس ہے دردی سے توڑا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سرکار ایک مندر کے ارد گرد خاص لوگوں کیلئے پورا بزنس ماڈل کھڑا کر دیا گیا ہے۔ایودھیا میں عالیشان نو تعمیر رام مندر کے چاروں طرف کی زمین سستے میں لے کر اْسی خاص طبقے کو سونپ دیا گیا ہے اور وہی پردیش کے باہر کے لوگ رام مندر کے ارد گرد کی تجارت اپنے قبضے میں کر چکے ہیں۔مقامی آبادی شہر کے اس ترقی یافتہ ماڈل میں خود کو ٹھگا محسوس کر رہا ہے۔یہاں تک کہ اس رام مندر جانے کے راستے کو چورا کرنے کے نام پر کئی مندروں اور عمارتوں کو منہدم کیا گیا ہے۔مقامی لوگوں کی شکایت ہے کہ راستے کو چورا کرنے کے نام پر اْنکے گھر تورے گئے اْنکا معاوضہ بھی نہیں ملا ہے۔یہی حال بنارس کا ہے۔گیان واپ? کوریڈور بنانے کے نام پر پرانے مندروں کو توڑ دیا گیا ہے۔گیان واپی مندر کے ارد گرد بھی وہی بزنس ماڈل ہے جو جمّوں و کشمیر ،لداخ،ہماچل پردیش ،منی پور اور دوسرے شمالی مشرقی ریاستوں میں گزشتہ دس سال میں تیار ہوا ہے جس میں عام اور مقامی لوگوں کو کوئی جگہ نہیں ہے
9322674787

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا