نئی نسل کماؤنی بولی اور زبان سے کیسے جڑے گی؟

0
187

 

 

شروتی
کپکوٹ، اتراکھنڈ

”بیدو پکو بارو ماسا، نارائن! کفل پکا چئتا میری چیئلا” (بیدو بارہ مہینوں پکتا ہے، لیکن کافل صرف چت کے مہینے میں پکتا ہے) اتراکھنڈ کا یہ مشہور کماؤنی گانا گاتے ہوئے 95 سالہ بچولی دیوی کے چہرے پر ایک الگ مسکراہٹ آنے لگتی ہے۔ وہ جوش و خروش سے بتاتی ہیں کہ کماؤنی میں بہت سے لوک گیت ہیں جو اکثر گاؤں میں رہنے والے بزرگ مرد اور عورتیں گاتے ہیں۔ لیکن نئی نسل اب کماؤنی زبان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔وہ اسے بولنا تو دور سمجھ بھی نہیں پاتی ہے۔ بچولی دیوی اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع کپکوٹ بلاک کے کنیالی کوٹ گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ جہاں کے بزرگ کماونی بولتے ہیں وہیں نئی نسل یہاں ہندی بولتی ہے۔درحقیقت کماؤنی ادب یا دیگر دستاویزات کے بطور زبان بہت کم ثبوت موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ صرف ایک بولی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ تاہم گڑھوالی کی طرح کماونی کو بھی اتراکھنڈ کی پرانی زبان اور بولی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ریاست 24 سال پہلے ان دو زبانوں کی بنیاد پر بنی تھی۔ ریاست میں کل 13 اضلاع ہیں۔ جو بولی کی بنیاد پر گڑھوالی اور کماؤنی ڈویژنوں میں تقسیم ہیں۔ گڑھوالی بولنے والے علاقوں میں 7 اضلاع اترکاشی، چمولی، رودرپریاگ، ٹہری گڑھوال، پوڑی گڑھوال، ہریدوار اور دہرادون شامل ہیں،جبکہ کماؤن ڈویژن میں 6 اضلاع پتھورا گڑھ، باگیشور، الموڑہ، چمپاوت، نینیتال اور ادھم سنگھ نگر شامل ہیں۔

اس سلسلے میں کنیالی کوٹ کی 87 سالہ خانوتی دیوی کہتی ہیں،”اپنی زندگی کی تقریباً نو دہائیوں میں، میں نے جتنی مقامی سطح پر ترقی دیکھی ہے،اتنا ہی میں نے کماونی بولی اور ثقافت کا زوال بھی دیکھا ہے۔ ایک وقت تھا جب شادیوں اور تہواروں میں کماؤنی لوک گیت گائے جاتے تھے، لیکن اب یہ سب کچھ بدل گیا ہے، اب لوک گیت کی جگح نئے فلمی گانے بجائے جاتے ہیں۔خود میرے پوتا اور پوتی کماؤنی زبان بولنے میں شرماتے ہیں۔ایسے میں وہ کماوئنی لوک گیت کہاں گائنگے؟ وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ گاؤں چھوڑ کر شہر گئے ہیں، وہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں،ایسے میں ان کے بچے گاؤں کی زبان کیسے سمجھیں گے؟“بیسانی گاؤں کی ایک بزرگ پنولی دیوی کماونی میں بولتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ”میں نے اپنی زندگی کے 70 سال اس بولی اور ثقافت کے درمیان گزارے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری نئی نسل کو اسے سمجھنے میں دشواری ہو گی۔میرے پوتا اور پوتی انگریزی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرنی چاہئے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی زبان اور ثقافت سے دور ہو جانا چاہئے۔آج جب میں ان بچوں سے کچھ کہتی ہوں تو وہ مجھ پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ دادی ہمیں تمہاری زبان سمجھ میں نہیں آتی ہے، ہندی میں ہمیں بتاؤ۔ اب اس عمر میں میں اس زبان کو کیسے سیکھوں؟ کیا بچے کماؤنی نہیں سیکھ سکتے ہیں؟کیا اپنی زبان سیکھنے میں انہیں شرم آتی ہے؟زبان اور ثقافت کے تئیں ان کی بے حسی دیکھ کر مجھے پریشانی ہوتی ہے۔“

دوسری طرف نئی نسل کماوئنی بولنے میں زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتی ہے۔ مقامی بولی چھوڑ کر نئی زبان اختیار کرنے والی لڑکیاں اس بارے میں کھل کر بات کرتی ہیں۔ بیسانی کی کماری پوجا، جو 12ویں کلاس میں پڑھتی ہے، کہتی ہے، ”میں کماؤنی بولنا جانتی ہوں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اس میں بات کرنا ہمارے لیے پرانے زمانے کا لگتا ہے اور بعض اوقات ہمیں شرم بھی محسوس ہوتی ہے۔ جب ہم شہر میں کہیں جاتے ہیں اور کماونی بولتے ہیں، جب ہم بات کرتے ہیں تو لوگ ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم گاؤں سے آئے ہیں اور پھر ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہمیں بہتر نہیں سمجھتے ہیں، اس لیے ہم ہندی میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔“گاؤں کی ایک اور نوجوان 17 سالہ جیوتی کہتی ہیں،”جیسے جیسے ہم بڑے ہو رہے ہیں، ہماری ذہنیت ایسی بن گئی ہے کہ ہندی اور انگریزی ہمارے روزمرہ کے معمولات کے لیے ضروری ہو گئی ہے۔ ہم نئی نسل کا ماننا ہے کہ جب دفتر یا کہیں بھی ہم سے صرف انگریزی یا ہندی میں بات کی جائے گی، تو اس زبان کو بولنے سے کیا فائدہ؟اس لیے ہم کماؤنی نہیں بولنا چاہتے ہیں۔“ 11ویں کلاس میں پڑھنے والی پنکی کہتی ہے”گھر پر ہمارے والدین ہم سے ہندی میں بات کرتے ہیں۔ وہیں اسکولوں میں بھی اساتذہ ہندی میں ہی پڑھاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اب ہمیں صرف بزرگ ہی کماؤنی بولتے نظر آتے ہیں، اس لیے ہمیں ان کی بولی زیادہ سمجھ نہیں آتی ہے۔ ہم اب بھی اسے کسی حد تک سمجھتے ہیں کیونکہ ہم گاؤں میں رہتے ہیں، لیکن جب شہروں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بچے گاؤں آتے ہیں تو وہ اسے بالکل نہیں سمجھ پاتے ہیں۔“کنیالی کوٹ کے 65 سالہ کیدار سنگھ کہتے ہیں، ”ایک وقت تھا جب گاؤں میں صرف کماؤنی بولی جاتی تھی۔ اسکولوں میں بھی اساتذہ بچوں کو یہ پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن آج نئی نسل کماؤنی بولنے سے کتراتی ہے۔ اس میں ہم بھی برابر کے قصوروار ہیں کہ ہم گھر میں کماؤنی نہیں بولتے ہیں۔ لیکن میں ہمیشہ چاہتا ہوں کہ ہمارے بچے اپنی زبان بولیں چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی رہیں ہمیشہ استعمال کریں اور بولیں تاکہ ہم جہاں بھی جائیں ہماری شناخت برقرار رہے۔“

اس سلسلے میں سماجی کارکن جیوتی کی رائے ہے کہ ”کماؤنی بولی تقریباً محدود ہو گئی ہے۔ نئی نسل اسے برائے نام بولتی ہے۔ اس کی دو وجوہات خاص طور پر ذمہ دار ہیں، ایک کماؤنی کازبان کے طور پر شناخت نہ ہونا اور دوسری بڑی تعداد میں ہجرت کا ہونا۔ جیوتی کے مطابق، کماؤنی ادب ایک زبان کے طور پر پڑھنے کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اسے نئی نسل تک منتقل نہیں کیا جا سکا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کرنے والوں کے بچے اب کماؤنی بولنے سے بالکل محروم ہیں۔ اگرچہ صرف تفریح کے طور پر ہی سحی، فلم انڈسٹری کے ذریعہ کماونی میں تیار کیے گئے گانوں نے نسل کو اس سے جوڑنے کا کام ضرور کیا ہے۔ لیکن جب تک اسے زبان و ادب کا درجہ نہیں مل جاتا اور اسے کتابوں اور کہانیوں کی شکل میں شائع نہیں کیا جاتا، کماؤنی کو نئی نسل تک پہنچانا اور اسے زندہ رکھنا بہت مشکل ہو گا۔ اس کے لیے سماجی سطح پر بھی کوششوں کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا