پروفیسر مشتاق احمد
اپنے وطنِ عزیز ہندوستان میں حالیہ تین مہینے انتخابی تشہیری ماحول کی وجہ سے ہنگامی رہا کہ ہر ایک سیاسی جماعت نے اپنا قدم جمانے کی کوشش کی مگر اس عرصے میں نہ جانے کتنے ایسے واقعات رونما ہوئے جو اس شور میں گم ہو کر رہ گئے۔اسی اثناء میں ایک ایسی خبر آئی جس نے لاکھوں نوجوان کے خوابوں کو چکناچور کردیا اور اس خبر نے صرف ان کے لئے ہی نہیں بلکہ عوام الناس کے ذہن ودل میں بھی طرح طرح کے وسوسے پیدا کردئیے۔واضح ہو کہ جس دن پارلیامانی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا یعنی 4؍ جون کو اسی دن نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی (NTA) نے ٹسٹ برائے میڈیکل داخلہ (NEET) کا بھی نتیجہ شائع کیا۔اس نتیجے نے نہ جانے کتنے نوجوانوں کی نیند اڑا دی اور نہ جانے کتنے بچوں کے والدین کی امیدوں پر پانی پھر گیا ۔ظاہر ہے کہ جب ریزلٹ پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ اس امتحان میں بڑے پیمانے پر مبینہ بد عنوانیاں ہوئی ہیں تو لوگ باگ کا فکر ہونا فطری عمل ہے۔ہمارے ملک میں میڈیکل میں داخلے کے لئے لاکھوں نوجوان دن رات محنت کرتے ہیں ،وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دہلی،کوٹا، بنارس جیسے کوچنگ مراکز کا رخ کرتے ہیں اس کے باوجود اگر ان کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو ان کے ذہن ودل پر اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں اس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ ہر ایک سال کس طرح کے قومی امتحانات کے ریزلٹ کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے یہ غمناک خبریں آتی ہیں کہ کئی طلبا نے خود کشی کرلی ۔بالخصوص کوٹا راجستھان جہاں ملک کے مختلف حصوں سے لاکھوں طلبا وطالبات میڈیکل اور انجنیرنگ کالجوں میں داخلہ کے لئے نجی کوچنگ میں تیاری کرتے ہیں وہاں اس طرح کے واقعات قدرے زیادہ رونما ہورہے ہیں ۔
بہر کیف! اس سال جو نیٹ کا ریزلٹ آیا ہے اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہمارے ملک میں نئی نسل کے مستقبل سے کس طرح کھلواڑ کیا جا رہاہے اور ہمارے سرکاری ادارے صاف وشفاف امتحان لینے میں کتنے ناکام ثابت ہورہے ہیں۔اس سال کے نیٹ امتحان کے چھ مراکز پر 1563امتحان دہندہ کو خصوصی گریس دینے کی وکالت این ٹی اے کے ذمہ داران کر رہے ہیں بالخصوص اس کے ڈائرکٹر جنرل سبودھ کمار سنگھ نے یہاں تک کہا ہے کہ گریس کا دیا جانا غیر قانونی نہیں ہے ۔جب کہ تلخ سچائی یہ ہے کہ اس ریزلٹ کے نمبرات کو دیکھ کر ہی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ اس بار کے نیٹ امتحان کے نتائج میں کچھ نہ کچھ دال میں کالا ہے۔کیوں کہ ماہرین نے جس طرح کے سوالات اٹھائے ہیں وہ عام لوگوں کے لئے بھی معلوماتی ہیں اور ثابت ہوتا ہے کہ اس بار کے نیٹ کے امتحان میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگی ہوئی ہے کیوں کہ اس امتحان میں ایک سوال کے جواب پر چار نمبر مختص ہیں اور غلط جواب پر ایک نمبر کی تخفیف کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں کسی امیدوار کو 717یا 719نمبر کیسے آسکتا ہے۔ایک ہی امتحان مرکز کے درجنوں امتحان دہندہ کو 720نمبر تک آئے ہیں ۔ غرض کہ ہزاروں طلبا کو اتنے زیادہ نمبر آئے ہیں کہ اس سال کے داخلہ کٹ آف میں 600تک نمبر لانے والے کو بھی سرکاری کالج ملنا مشکل ہو جائے گا بلکہ اچھے پرائیوٹ کالج میں بھی داخلہ نہیں مل سکے گا۔واضح ہو کہ نیٹ امتحان کے دوسرے دن ہی پیپر لیک کا معاملہ عام ہوا تھا اور یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس بار کے نیٹ امتحان میں بڑے پیمانے پر بد عنوایاں ہوئی ہیں ۔ مگر اس وقت انتخابی ماحول تھا اور مختلف تنظیموں کے مطالبے کے باوجود این ٹی اے نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ جب کہ ریاست بہار میں پیپر لیک کرنے والے گروہ کی گرفتاری بھی ہوئی تھی اور اس کی جانچ بھی چل رہی تھی باوجود اس کے ریزلٹ شائع کیا گیا ۔اتنا ہی نہیں مقررہ وقت سے پہلے ریزلٹ شائع کیا گیا کہ جب پارلیامانی انتخاب کے نتائج پر سب کی نظر تھی ویسے وقت میں این ٹی اے نے میڈیکل کا ریزلٹ شائع کیا جس کی وجہ سے اس ریزلٹ پر تاخیر سے ہنگامہ شروع ہوا ہے بالخصوص کانگریس پارٹی کے لیڈر راہل گاندھی نے اس ریزلٹ پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے ہیں اور اس کے نتائج میں بڑے پیمانے پر مبینہ بد عنوانی کو اجاگر کیا تو آخر کار این ٹی اے نے اس کے لئے جانچ کمیٹی تشکیل دی ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ اس جانچ کمیٹی کا چیرمین پردیپ کمار جوشی کو بنایا گیاہے جو خود اس ادارہ کی گورننگ باڈی کے چیئر مین ہیں ۔واضح ہو کہ پردیپ کمار جوشی 2020سے 2022تک یو پی ایس سی کے چیئر مین رہ چکے ہیں اب جب یہ حقیقت سامنے آئی ہے تو نو تشکیل شدہ جانچ کمیٹی بھی متنازعہ فیہ ہو گئی ہے ۔اگر واقعی این ٹی اے کو اپنی ساکھ بچانی ہے تو کسی دوسرے ادارے یا پھر کسی جانچ ایجنسی کے ممبران کی کمیٹی بنا کر اس کی جانچ کرائیں تاکہ حقیقت سامنے آسکے اور پیپر لیک کرنے والوں پر نکیل کسا جا سکے یا کسی طرح کی اگر بد عنوانی ہوئی ہے تو اس میں ملوث افراد پر شکنجہ کسا جا سکے کیوں کہ ملک میں اس طرح کی بد عنوانی کو فروغ دینے والے افراد ہماری نئی نسل کے مستقبل کے قزّاق ہے اور وہ جب تک آزاد رہیں گے اسی طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور ملک کے لاکھوں نونہالو ں کے خواب چکنا چور ہوتے رہیں گے ۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر کسی طرح کی سیاست نہیں ہونی چاہئے بلکہ تمام تر ذہنی تعصبات وتحفظات سے بالا تر ہو کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہئے تاکہ پیپر لیک اور قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں بے ضابطگی و بد عنوانی پر روک لگ سکے۔کیوں کہ مختلف ریاستی اور مرکزی محکموں کی اسامیوں کو پُر کرنے کے لئے جب بھی امتحانات کرائے جاتے ہیں تو پیپر لیک کی وجہ سے امتحان رد کئے جاتے ہیں اور لاکھوں امیدواروں کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ پارلیامانی انتخابات میں اپوزیشن اتحاد نے پیپر لیک معاملے کو لے کر بر سراقتدار پارٹی کے خلاف صدا بلند کی اور جس کا انہیں خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا ہے کہ پیپر لیک کا معاملہ ملک کے متوسط طبقے کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔یہ اچھی بات ہے کہ نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی نے نیٹ امتحان میں بے ضابطگی کی جانچ کے لئے حامی بھر لی ہے لیکن وہ جس طرح بہت کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور جانچ کمیٹی کی تشکیل میں بھی اپنی منشا ظاہر کی ہے اس سے ایک بار پھر این ٹی اے شک وشبہات کے دائرے میں آگئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جو جانچ کمیٹی بنائی گئی ہے وہ میڈیکل میں داخلے کے لئے کونسلنگ شروع ہونے سے پہلے اپنی رپورٹ دیتی ہے کہ نہیں کیوں کہ اگر کائونسلنگ کا آغاز ہو جاتاہے اور کامیاب طلبا کسی کالج میں داخلہ لے لیتے ہیں تو اس کے بعد رپورٹ بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی اس لئے اگر واقعی این ٹی اے عوام الناس کے شک وشبہات کو دور کرنا چاہتی ہے تو اسے کونسلنگ کے قبل سب کچھ عیاں کرنا ہوگا کہ نیٹ کے امتحان میں کہاں اور کیسے بے ضابطگی ہوئی ہے ۔دریں اثناء یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ تک پہنچ گیاہے اور عرضی گذاروں نے عدالت سے مؤدبانہ گذارش کی ہے کہ کونسلنگ پر روک لگائی جائے اور جب تک اس پیپر لیک اور نتائج میں جو بے ضابطگی ہوئی ہے اس کا خلاصہ نہیں ہوتا ہے اس وقت تک داخلہ پر پابندی لگائی جائے لیکن عدالتِ عظمیٰ نے فی الحال روک لگانے سے انکار کیا ہے البتہ پورے معاملے کی جانچ کا اشارہ دیاہے۔ امید ہے کہ اس قومی مسئلے کا حل ضرور نکلے گا کہ ہماری عدالت بھی حالیہ پیپر لیک معاملے کی سنگینی سے بخوبی واقف ہے ۔