چٹان پر اٹکا ہوا تاج

0
0

ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)

وہ سربراہ اپنی فرقہ واریت کی دھاڑوں سے ملک کے کمزور اقلیتوں پر ظلم و بربریت کا ایک دہشت ناک کھلی فضا کا ماحول سرگرم کر رکھا تھا۔ آئے دن ان پر جان لیوا حملہ، مارپیٹ، دنگے فساد اس کے پالے ہوئے رکھشکوں کے ذریعہ کی جارہی تھی۔ کبھی ماب لنچنگ کے نام پر، کبھی لو ان ریلیش کے نام پر، کبھی حلال گوشت کے نام پر، کبھی چوپائے کی اسمگ لنگ کے نام پر، کبھی تین طلاق کے نام پر، کبھی حجاب پر پابندی، کبھی جمعہ کی نماز مسجد سے باہر پڑھنے پر، کبھی مسجدوں سے مائیک اتروانے کی سختیاں، اب تو اس ملک میں سب وشتم کے مارے طبقوں کی عبادت گاہوں اوردرس گاہوں کو بلڈوزرکر کے ان پر غاصبانہ قبضہ کر نے کی سازشیں رچی جارہی تھیں۔ اسی طرح دلت ذات کی برادری کو بھی بخشا نہیں جا رہا تھا۔ نو عمر بچیوں کو ہوس کا شکار بنا کر انکے خاندان والوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اس قوم پر بھی عرصۂ حیات تنگ ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ ’امرت مہا اتسو‘ کی آڑ میں زانیوں کو رہائی کر کے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا جارہا تھا۔ہاتھرس اور منی پورمیں ہونے والی ہوس ناکی کا سانحہ ملک کو شرمناکی کے حاشیے پر لا کھڑا کر دیا تھا۔ اب تو اس جنگل راج میں ایک نیا قانون بھی نافذ ہو چکا تھا۔ یہاں کی مسلم اقلیتوں کو اپنے ہی ملک میں سرکار کو مطمئن رہائشی شہری ہونے کا ثبوتCAAاور این ۔ آر۔سی کے ذریعہ دینا لازمی تھا جو ملک کے دستور ی آئین سے منفرد ایک، ’کالا قانون‘ بن کر آیا تھا۔ جس کے پس پشت سرکار یہاں کی مسلم اقلیتوں کے حقوق کو سقوط کرنا چاہتی تھی۔ اس غیر منصفانہ قانون کے خلاف پورے ملک میں اس نفرت کے حکمراں کی مخالف میں آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ اس تحریک کا رد عمل کا نتیجہ کا جواب اس نفرت کے حکمراں نے بڑا ہی درد ناکی سے دیا تھا۔ ایک ریاست میں انیس لوگوں کو پولیس والوں نے گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ تُف ہے! ان مرنے والے کی املاک پرسرکار کی جانب سے مقدمے بھی جاری ہوئے تھے۔ راجدھانی CAAکی مخالفت میں جہاں یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ ان خیموں کو کووڈ۔۱۹ کے نام پر اجاڑ دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ پچاسوں لوگ بلوائیوں کے نذرہو گئے ۔ غریب لوگوں کی جھونپڑیاں نذر آتش ہو گئیں۔ مال و اسباب جل کر راکھ ہو گئے۔ کتنے بے گناہ نوجوان جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیئے گئے ۔ بعض ان میں سے آج بھی کم و بیش چار سالوں سے جیل میں پڑے اذیتوں کی زندگی جھیل رہے ہیں۔ ان کی رہائی کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ ان پر ملک سے غداری کا الزام ہے۔ یہ جمہوری نظام میں اقلیتوں کو اپنے دستوری حق مانگنے کا اتنا بڑا نا کردہ گناہوں کی سزادی جارہی تھی۔ یہ سوچی سمجھی جنگل راج کی سازشیں تھیں جو اس ملک میں اقلیتوں کی نسل کشی کرنا چاہتی تھی۔ ان کی نگاہ میں مسلم اقلیتوں کی جانب سے دیس کی آزادی میں دی جانے والی قربانیاں ایک من گڑھت کہانی بن کر رہ گئی تھی۔ وہ ہمیشہ اقلیتوں کو ملک کے بٹوارہ کی دوسری سرحد کی طرف جانے کی لچر زبان میں دھمکیاں دیتے تھے۔ یہ رام راج کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے حکمرانوں کا مینو فسٹو تھا۔ اسی طرح کسان اندولن کی طاقتوں کو توڑنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔کئی کسانوں کو گاڑی سے روند ڈالا گیا۔
ملک میں ۱۷ ویں الیکشن کا اعلان ہو چکا تھا۔ سا جنگل راج کا سر براہ کھلم کھلا اعلان کر دیا۔ ’اس بار ہماری جیت ہوئی تو ہم اس ملک کے آئین کے سروق سے لفظ ’سیکو لرازم‘ کو نکال پھینکیں گے، یہ لفظ ہمارے لئے توہین کا سبب بنی ہوئی ہے، دوسرا دستوری آئین میں مزید تبدیلیاں بھی کی جائیں گی، ملک میں یکساں سول کوڈ ایک مذہب ، ایک نیشن قائم ہوگا، ہندوسناتن کی بنیاد پر دیس کا نیا نام ’ہندو راشٹر‘ ہوگا‘، اس بار دیس باسیوں سے کہا جا رہا تھا، ’اب کی بار چار سو پار‘ اس بار کا نعرہ اس ملک میں رہنے والی دلت، پچھڑی ذاتی، خط افلاس سے نیچے جھکی جھونپڑیوں کے مزدوروں،کسانوں اور مسلم اقلیتوں کے حلق سے اترتا ہوا دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سارے ملک میں الیکشنی مہم بڑے زور شور سے چل رہی تھی۔ سربراہ کے جلسوں ، جلوسوں اور روڈ شو میں عوامی بھیڑ سیلابوں کی طرح امنڈ رہی تھی۔ تقریروں کے ذریعہ ایک طرف مندر بنانے والوں کا گن گایا جارہا تھا، دوسری طرف مندر ڈھانے اور منگل سوتر چھیننے کی باتیں بیان کر کے ملک میں نفرت انگیز ماحول کو ہوا دی جا رہی تھی۔ کارشناس لیڈروں نے اپنی محنتوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ ووٹوں کا ریڑھا ان کے ووٹ بینک میں مکمل طور پر یکجا ہو چکا ہے۔ وہ سب بہت خوش اور مطمئن تھے ۔ اس بار تندور سے تازہ تازہ گرم روٹیاں نکلنے والی تھیں۔ دیس میں ایک طرف نفرت کی سیاست تھی ۔ دوسری طرف فرقہ پرستی سے لڑنے والوں کی محبت کی دکان تھی جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ہر صورت حال سے بچانے کے لئے کوشاں تھیں۔ ملک کی قسمت کا فیصلہ رائے دہندگان کے ہاتھوں میں تھا۔ تانا شاہی ، شاہ اپنے زعم میں تھا۔ اسے اپنی کرخت، تحکمانہ بھاسن اور پر چاروں پر مکمل یقین تھا۔ اس بار بھی شاہ کی جماعت کو پوری اکثریت ملنے والی تھی۔
کسی بھی ملک میں جمہوریت کی بقا کی زندگی کا نظام سیکولر نفوس کے کثیر ووٹوں پر منحصرہوتا ہے۔ فیصلہ اگرمثبت آئے تو جمہوریت زندہ ہے ورنہ منفی رائے دہی پر فاشزم ملک میں اپنی انانیت اور خود سری کا بے تاج بادشاہ بن جاتا ہے۔الیکشنی مہم ختم ہوتے ہی وقت جشن یوم الہند گان آ گیا۔ فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں تھا۔ جمہوریت زندہ رہتی ہے یا پھر ملک میں مطلق العنانی کا بول بالا ہوتا ہے۔ سب کی حق رائے دہی ووٹنگ مشین میں بند ہو گئی ۔ مہینوں بعد ووٹوں کے نتائج آنے شروع ہو گئے۔ اس الیکشن میں پھر جیت اسی کا ر شناس جماعت کو حاصل ہوئی جن کے ہاتھوں میں ایک دہائی سے ملک کی باگ ڈور تھی مگر اس بار اس جماعت کی قسمت کا ستارہ اوج ثریا کو چھو نہ سکا۔ یہ نا کامیابی کی وجہ شاید اس سربراہ اور اس کی ٹیم کی غرور و رعونت سے بھری ہوئی تقریریں تھیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کے سربراہ کی آن بان اور شان کے بول مویتوں کے دانے کی طرح بکھر گئے۔اس ا بار الیکشن میں پارلیمانی نفری کی تعداد خود کی سرکار بنانے کی ریکھا کو تنہا پار نہ کر سکی۔ آمریت کاچھکڑا ۲۴۰ پر اٹک کر رہ گیا۔ اب سربراہ کی من مانی پر قدغن لگ چکی تھی۔ اب تیسری بار سربراہ کو تاجپوشی کے لئے حمایتی جماعتوں کا بیساکھی کی ضرورت ناگزیر تھی۔
وہ دن تھا۔ فاتح پارلیمانی ممبران و مہمانان سے سارا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تاجپوشی کا پروگرام شروع ہو چکا تھا۔سارا ملک دیکھ رہا تھا۔ سربراہ بیساکھی کے سہارے ڈائس پر حاضر ہوا ۔ وہ اپنے دیس باسیوں کو نمسکار کہہ رہا تھا۔آج سربراہ تھوڑا جھکے جھکے میٹھے میٹھے لہجوں میں دیس باسیوں سے خطاب کر رہا تھا۔ اس کے دائیں بائیں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے کینگ میکر، پارٹیوں کے مکھیا ایک انجانی مسکراہٹ سے سربراہ کو دیکھے جا رہے تھے۔
اس جنگل راج میں ایک غریب خرگوش اپنے کان کھڑے کئے ہوئے لہک لہک اور مٹک مٹک کر ناچ رہا تھا ۔ شاید وہ اپنے پوروجوں سے قارون، ہامان، فرعون، نمرود، شداد، چنگیز خان، ہلاکو، ہٹلر اور مسولینی جیسے مغرور و خود سرد حکمرانوں کی تباہی کا قصہ سن چکا تھا۔ دوسری طرف ملک کی سالمیت کو بچانے والی جماعتیں بھی اپنے خیموں میں جشن منا رہی تھیں۔ انہیں بھی معلوم ہو چکا تھا۔ ملک میں نفرت اور انتشار پھیلانے والے حکمراں کا زوال شروع ہو چکا ہے
:9903651585
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا