مقصود احمد ضیائی
جموں و کشمیر کا ضلع پونچھ جو دور دراز عین ہند و پاک سرحد پر واقع ہے کبھی علم و ادب کا گہوارہ تھا اور تجارتی شاہراہ کے طور پر اپنی ایک خاص پہچان رکھا کرتا تھا بایں وجہ اس خطہ ارضی کے تعلق سے اہل قلم نے والہانہ خراج پیش کیا ہے منجملہ کتب کے معروف سیاح ابو ریحان البیرونی مرحوم کی "کتاب الہند” قابل ذکر تصنیف ہے۔ علاوہ ازیں اردو ادب کے روشن آفتاب ؛ شہسوارِ قلم اور مشہور شاعر مولانا ظفر علی خاں مرحوم کا خوبصورت شعر کہ
خطہ پونچھ کو کشمیر کے عارض کا تل کہیے اسے ہندوستان کی جاں کہیے یا دل کہیے
زبان زد خاص و عام ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پیشتر وقت کی نامور علمی ؛ دینی ؛ ملی اور سماجی شخصیات اپنی اپنی سرگرمیوں اور تحریکات کے سلسلے میں وقت بوقت اپنے قدوم میمنت لزوم سے علاقہ ہذا کی اہمیت کو مزید پروان چڑھاتے رہے۔ بطور خاص امیر شریعت سید عطاء اللّٰہ شاہ بخاری ؛ مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی الحسنی الندوی ؛ حضرت مولانا عبدالرحمن ٹاٹوی ؛ حضرت مولانا چراغ حسن حسرت کی اس علاقہ سے نسبت ماضی بعید میں پونچھ کی شان و شوکت اور اس کی عظمت کا پتا دیتی ہے۔ بقول شخصے
سیاہی طاق کی یہ کہہ رہی ہے کہ اس گھرمیں اجالا رہ چکا ہے
یہ بات دلچسپی کا باعث ہے کہ دو قومی نظریہ کی تیز تلوار کی وار سے شہر پونچھ دو لخت ہو کر کشمیر کے دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ جس کے سبب ہزاروں خاندان ایک دوسرے سے انتہائی قریب ہو کر بھی بہت دور ہوگئے۔ تقسیم ہند سے دانشورانِ قوم و ملت کی آمد و رفت اور علمی و دینی سرگرمیاں یکسر تھم سی گئیں۔ اور پونچھ کی فضاء جہالت و بے دینی کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب گئی۔ صورت حال یہ ہوگئی کہ پونچھ کی تیرہ و تاریک فضائ سے ہر شخص گِھن محسوس کرنے لگا ؛ ایسے حالات میں جس مرد عزیمت نے توحید و سنت کا علم لہرا کر اپنے عزائم اور اپنے عمل سے اعلان کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا وہ استاذ گرامی قدر حضرت اقدس مولانا غلام قادر صاحب دامت برکاتہم ہیں۔ فراغت کے بعد مختلف مدارس سے بحیثیت مدرس حضرت والا کو مدعو کرنے کا سلسلہ شروع ہوا مگر بہت سوچ کے بعد آپ نے راجستھان کے ایک عظیم ادارہ جامعہ محمدیہ قاسم العلوم میل کھڑیلا بھرتپور کو اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے منتخب کیا ؛ جہاں پانچ سال تک آپ نے ایک کامیاب ترین مدرس و منتظم کی حیثیت سے خود کو منوایا۔ لیکن وہاں رہ رہ کر آپ کو اپنے علاقہ کی علمی و دینی فکر ستاتی تھی۔ مگر زیادہ دیر آپ ان حالات سے چشم پوشی نہ کرسکے۔ اور بقول شاعر
یہ فکر مجھے چین سے سونے نہیں دیتی کہ اب کون میری قوم کو بیدار کرے گا
کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے وطن روانہ ہوئے۔ وطن پہنچتے ہی آپ نے اپنے چند مخلص رفقائکے ہمراہ مشورہ یا اور ایک چراغ علمی بنام : "ضیائالعلوم” روشن کرنے کا ارادہ کرلیا۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ اس کی بقاء کا تھا۔ جس نے ان تمام کی دن کے آرام اور رات کی نیند کو مٹا کر رکھ دیا تھا۔ حتٰی کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے تلمیذ رشید اور خطہ کے باتوفیق عالم دین حضرت مولانا فیروزالدین خاکیی عظیم المرتبت شخصیت اس کی بقاء سے مایوس نظر آئے لیکن حضرت مولانا غلام قادر صاحب زیدہ مجدہ کی ہمت و عظمت کو سلام کہ جنہوں نے سب کی ڈھارس بندھائی اور حق تعالٰی کی ذات پر نظر رکھ کر ایک جوش و ولولہ سے سب کے لغزیدہ قدموں کو استقامت و ثبات فراہم کی۔ حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ کے علم و عمل ؛ سیادت و قیادت ؛ شجاعت و دلیری ؛ صبر و تحمل ؛ حلم و بردباری ؛ ہمت و جواں مردی ؛ اعلٰی کردار اور بلند حوصلگی ؛ حسن انتظام و حسن عمل ؛ اخوت و رواداری ؛ اخلاص و للٰہیت ؛ توکل علی اللّٰہ ؛ شرافت و سادگی اور فصاحت و بلاغت اور کمال درجہ کی خوبیوں اور اسلاف کی پاکیزہ روایات کے تسلسل کی بدولت منزل مراد کو جا پہنچے۔ 1974ء میں ٹین کے چھت کی چھوٹی سی مسجد بنام : "بگیالاں مسجد ” میں ایک چھوٹے سے مکتب کی بنا ڈالی ؛ آج پچاس سال بیت جانے پر مختلف مراحل میں اس مسجد کی تین بار تعمیر ہو کر آج وہ جدید فن تعمیر کی عظیم شاہکار مرکزی جامع مسجد کا دعوت نظارہ دے رہی ہے۔ بعینہ مسجد سے تھوڑے فاصلے پر محراب علم و عرفاں ؛ ترجمان علوم و معرفت جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کے احاطہ میں خوبصورت دیدہ زیب اور دیدہ ور چشم و بینا کو محو حیرت کر دینے والی شاندار عمارات کا ایک طویل سلسلہ نظر نواز ہوتا ہے۔ جہاں روز و شب قال اللّٰہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور جامعہ کے محبیین ؛ متعلقین ؛ معاونین اور مخلصین کے لیے باعث راحت قلب و جاں اور مبغضین کے لیے وجہ حسد ہیں۔ مگر
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
جامعہ ضیاء العلوم کا نظام مختلف شعبوں پر منقسم ہے جس میں جامعہ ضیاء العلوم جہاں ناظرہ و دینیات ؛ حفظ فارسی ؛ عربی اول تا دورہ حدیث شریف تک کثیر تعداد طلبہ کی قیام طعام کے معقول بندوبست کے ساتھ قیام پزیر ہے۔ جامعہ کا دوسرا بڑا شعبہ "علوم عصریہ ہائی اسکول” ہے۔ جہاں ہزاروں کی تعداد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جن کے لیے عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ ناظرہ دینیات و اسلامیات اور جامع مسجد بھی ہے جہاں پنجوقتہ باجماعت نمازوں کا اہتمام اور جمعہ و عیدین میں اساتذہ کی نگرانی میں اسکول کے طلبہ تلاوت نعت اور تقاریر اور جمعہ کے خطبات بھی دیتے ہیں۔ جامعہ کا تیسرا شعبہ ادارہ تعلیم نسواں جو کہ "جامعتہ الطیبات” کے نام سے موسوم ہے۔ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جس کا تفصیلی تذکرہ جامعہ کے ترجمان ماہنامہ فکر و نظر کی اشاعت خاص "بعنوان : جامعہ ضیائ العلوم اور اس کی پچاس سالہ بے لوث خدمات” میں بنام : ادارہ تعلیم نسواں جامعتہ الطیبات پونچھ … ضرورت … قیام … ترقی اور اثرات” میں یہ عاجز کر چکا ہے۔ بحمداللّٰہ تعالٰی مؤسس جامعہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ کی حیات و خدمات ؛ اوصاف و کمالات ؛ حالات و واقعات اور رزم و بزم میں روشن کارناموں فکری اور عملی گوشوں پر روشنی ڈالنے والے بلند پایہ مضامین کا یہ دلکش مرقع منصہ شہود پر جلوہ گر بھی ہوچکا ہے۔ اس بیش بہا پیش کش پر مدیر مکرم بجا طور پر مستحق تبریک ہیں۔ جامعہ اور اس کی پچاس سالہ بے لوث خدمات پر جامعہ کی ترجمانی بانی جامعہ اور رفقاء کار کی خدمات کا تعارف اور اشاعت ضروری بھی تھی۔ جاننا چاہیے کہ ہندوستان میں صحافت کی تاریخ بڑی تابناک ہے آزادی کے بعد جب مسلمانوں نے راحت کی سانس لی علماء و صلحاء نے رفتہ رفتہ دینی و تربیتی سلسلہ کو بڑھانا شروع کیا تو ساتھ ساتھ ہی رسائل و جرائد بھی نظر نواز ہونے لگے مسلمانوں کی علمی دینی دعوتی اور ملی سرگرمیوں کی بدولت ہندوستان علم دین کے فروغ و اشاعت کے حوالے سے ایسی سرزمین قرار پائی کہ جہاں ہر طالب کی علمی تشنگی کو مختلف علوم و فنون سے آبیار کیا جانے لگا۔ جہاں علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب شخصیات کے روپ میں تاریخ کا حصہ نظر آتے ہیں۔ وہاں فروغ علم اور اشاعت دین میں کئی علمی رسائل و جرائد بھی مقبول ہیں۔ رسائل و جرائد بہت ہیں , لیکن ایسے جریدوں کی بہت کمی ہے کہ جن کا مقصدِ وجود۔ صحت مند اور صالح قدروں کی ترجمانی ہو۔
بلاشبہ ماہنامہ فکرونظر کی اشاعت خاص سے قابل قدر اضافہ ہوگا۔ بحمداللّٰہ تعالٰی فکرونظر نے تواتر اور تسلسل کی بدولت اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ فکرونظر کے لیے میں بہت کم لکھا ہے۔ لیکن فکرونظر مجھے شروع سے اب تک برابر ملتا آرہا ہے۔ کسی وجہ سے کچھ شماروں کا استثنا ہوسکتا ہے لیکن اکثر و پیشتر میں نے جستہ جستہ پڑھے بھی ہیں۔ اور کچھ بالاستعیاب بھی پڑھے ہوں گے۔ چنانچہ اس خصوصی شمارہ کے مشمولات 29 ہیں۔ شمارہ اپنی تمام تر راعنائیوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ منظر عام پر ہے۔ حسن ترتیب مدیر و نائب مدیر صاحبان کے صاف ستھرے علمی و ادبی ذوق کی غماز ہے۔ اہل ذوق سے بندہ کی سفارش ہے کہ اس شمارہ کو اپنی عالمانہ التفات سے نوازیں اور علمی حلقوں تک اس کی رسائی کو ترغیب و تحریک کے ذریعے ممکن بنائیں۔ جوکہ اس کا حق بھی ہے اور اس کے علمی محاسن کو خراج بھی۔ چنانچہ جامعہ کے ذیلی شعبوں میں تنظیم المساجد ؛ تنظیم المکاتب اور تنظیم امدادالمستحقین بھی شامل ہیں۔ غرض کہ جامعہ ضیائ العلوم ایک تحریک ہے جیساکہ معلوم ہے کہ کسی بھی تحریک کے کام کرنے کے کئی پہلو ہوا کرتے ہیں ؛ مگر عملی طور پر تحریکیں انہیں کاموں میں حصہ لیا کرتی ہیں کہ جس کے لیے ان کے پاس کارکنان موجود ہوں اور کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جب تک کہ اس کے افراد کار فکری قلبی اور عملی اتحاد کی رسی میں پروئے ہوئے نہ ہوں۔ الحمدللّٰہ قدرت نے شیخ الجامعہ حضرت مولانا غلام قادرصاحب مدظلہ کو ان صفات کے حامل افراد کی باکمال جماعت عطا کی جو اخلاص و للّٰہیت میں اپنی مثال آپ تھے اور ہیں۔ حقیقت یہ کہ حق کا یہ علمبردار تنہا نہ تھا بلکہ مخلصین کا ایک کارواں اس کے ہاتھ میں اس طرح ہاتھ دے چکا تھا کہ جن کے خلوص پر ماہ و نجوم گواہ تھے جن کی بے پناہ قربانیوں کو کسی بھی طرح فرماموش نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا جامعہ یا بانی جامعہ مدظلہ کا جب بھی تذکرہ کیا جائے گا ان روشن ضمیروں کے تذکرے کے بغیر ادھورا رہے گا۔ جامعہ ضیاء العلوم پونچھ اپنے قیام کے روز اول سے ہی نت نئے چیلنجوں اور تقاضوں میں سربکف رہا ہے۔ جامعہ کی دینی علمی دعوتی ملی فلاحی اور سماجی خدمات کسی تعارف یا تعریف کی محتاج نہیں ہیں۔ ویسے تو اس ادارے کے پلیٹ فارم سے روز اول سے ہی مثالی پروگراموں کا ایک عظیم تسلسل قائم ہے تاہم جامعہ کا تیس سالہ اجلاس عام بعنوان : "آفاقی پیغام انسانیت کے نام” جامعہ کی اس وقت تک کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ دیر اور دور تک اس کی تعریف کا چرچہ سماعتوں سے گزرتا رہا ؛ اس پروگرام کی انفرادیت کا اندازہ اجلاس کے مندوب خصوصی اور ہمدرد قوم و ملت حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب مدظلہ کے ان الفاظ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے حضرت والا نے گہرے تاثر کے ساتھ بر اسٹیج ہزاروں کے مجمع کے روبرو خطاب میں فرمایا تھا کہ لوگو! دنیا گھوم چکا ہوں اور بڑے بڑے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن اس اجلاس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مقررین کے ساتھ سامعین بھر ملک بھر سے آئے ہوئے ہیں۔ لوگو! سوچنے کی بات یہ ہے کہ پورا ہندوستان اس چھوٹے سے شہر میں کیسے سمٹ آیا ہے۔ اللّٰہ پاک نظر بد سے بچائے اور یہ شعر پڑھا کہ
ہجوم کیوں ہے اس قدر شراب خانے میں فقط یہ بات کے پیر مغاں ہے مرد خلیق
بحمداللّٰہ تعالٰی! جمعیتہ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا دو روزہ صوبائی مشورہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ ملک بھر سے حضرات اکابر کی تشریف آوری سے جامعہ میں خوشی کا ماحول رہا۔ بلاشبہ مسرتوں اور ترقیوں کا یہ سہرا بانی جامعہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ اور نائب مہتمم مولانا سعیداحمد حبیب صاحب مدظلہ کے سر جاتا ہے جن کی محنت شاقہ سے یہ مرحلہ کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ اہل نظر کہتے ہیں کہ لوگ اپنی وراثت و جائداد کو ضرور اپنی اگلی نسلوں میں منتقل کرتے ہیں لیکن کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو اولاد میں بھی علم و ہنر منتقل کرتے ہیں بلاشبہ بانی جامعہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ کا شمار ان روشن ضمیروں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی اولاد میں بھی علم و ہنر کو منتقل کیا۔ بطور خاص حضرت مولانا سعیداحمد حبیب صاحب جنہوں نے اپنے والد عظیم کی حیات ہی میں جامعہ ضیاء العلوم کی نیابت کی ذمہ داری سنھبال لی ہے۔ مولانا موصوف ایک روشن فکر شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں ؛ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو مانوس کرنے میں ان کو کمال حاصل ہے ؛ ان کو مطمئن کر دیتے ہیں ؛ ان کی الجھنیں دور کر دیتے ہیں ؛ سر دست اپنے حلقہ میں اس انداز کی شخصیت بظاہر نظر نہیں آتی۔ جب سے آپ جامعہ کے نائب مہتمم متعین ہوئے ہیں ؛ ادارے کو ایک نئی جہت دے رکھی ہے۔ آپ نے اپنے والد محترم کے کاموں میں رنگ بھرنے اور انہیں ترقی دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ خدا کرے آپ ان کے ادھورے خوابوں کی تعبیر ثابت ہوں ؛ آں محترم کی قیادت میں ملی فلاحی اور سیاسی کاموں اور انسانیت کے فروغ میں جو کام ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ سے ملیں تو صاحب بصیرت کا احساس اور ادارہ دیکھیں تو بصیرت عیاں نظر آتی ہے۔ جس طرح ادارے کے بارے میں منصوبہ بندی ہے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں خطہ کشمیر کے لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ راحت بھری خوشی یہ بھی ہے کہ حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کے جمیع فرزندان ارجمندان اپنے والد بزرگوار کے کاموں میں دست بازو ثابت ہو رہے ہیں۔ جامعہ ضیاء العلوم کے "علم و ایثار” کے پچاس مکمل کرنے پر ایک بار پھر جامعہ اس موڑ پر ہے کہ اس گلشن علم و فن کی خدمات کو دور دور تک پھیلے معاونین و محسنین کو دکھایا جائے جو ان کا حق ہے۔ طریق کار کیا ہو اس سلسلہ میں ماہ صیام سے قبل بھی حضرت مولانا سعیداحمد حبیب صاحب نے اساتذہ جامعہ سے رائے طلب کی تو اس موقع پر اس عاجز کی رائے یہ رہی تھی کہ تیس سالہ میں سامعین ملک بھر سے آئے تھے اور اب پچاس سال مکمل کرنے پر ملک بھر سے معروف و مشہور علماء کرام کو وقتًا فوقتًا مدعو کیا جاتا رہے اور یہ سلسلہ مجالس کی شکل میں دیر تک جاری رہے۔ چنانچہ بعد رمضان یہ نوید سماعتوں سے گزری کہ "جمعیتہ علماء ہند” کی مجلس عاملہ کا دو روزہ اجلاس جامعہ ضیاء العلوم میں ہونا طے پایا ہے یہ نوید کانوں کی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں نبض حیات میں ارتعاش آگیا۔ امید کامل ہے کہ اس کے خطہ پونچھ اور خصوصاً جامعہ ضیاء العلوم کے لیے انتہائی مفید اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ علمائو صلحاء اور اکابر امت کے اس سر زمین پر قدم پڑے ہیں جو یقیناً بہت وقت اور اخراجات کے بعد متوقع ہوتے ہیں ؛ ایک ہی وقت میں اتنے اکابر کی آمد واقعی بہت بڑی خیر و برکت کا ذریعہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس اجلاس کو قبول وکامیاب فرمائے اور جامعہ کی دوسری نصف صدی کے لیے مخلصانہ دینی ، تعلیمی اور علمی خدمات کا ذریعہ بنائے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر جمعیتہ علماء ہند کا مختصر تعارف بھی ہدیہ قارئین کر دیا جائے۔ 1866ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے فرزندوں نے ملک و ملت کے لیے بے مثال اور بے لوث قربانیاں پیش کیں۔ 1911ئ میں دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم اور پہلے فاضل شیخ الہند اسیر مالٹا حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نے استخلاص وطن کے لیے زمین دوز عالمی تحریک "تحریک ریشمی رومال” کا آغاز کیا۔ 1914ء میں اس تحریک کی مخبری کے باعث شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی حجاز سے گرفتار کرکے مالٹا کے جزیرے میں نظر بند کر دئیے گئے۔ 1919ء میں علماء کی ایک مستقل جماعت "جمعیتہ علمائد” کے نام سے قائم کی گئی ؛ جس نے ہندوستان کی آزادی میں ملک کی عظیم الشان خدمات انجام دیں "جمعیتہ علماء ہند” کا سوادِ اعظم علماء دارالعلوم دیوبند ہی پر مشتمل رہا ہے۔ اس لحاظ سے گویا کہ "جمعیتہ علماء ہند” کی تاریخ دارالعلوم دیوبند کی ہی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے اور دارالعلوم دیوبند آزادی کے علمبرداروں کے لیے ہمیشہ ہی قوت اور فیضان کا سرچشمہ رہا ہے۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ دارالعلوم دیوبند کے چار بڑے کام ہیں۔ کامیاب درس ؛ عمدہ قسم کا تزکیہ ؛ دعوت و تبلیغ کی محنت اور فاتحانہ سیاست۔ 1919ء ہی کے اخیر میں برطانوی حکومت کی سازش سے خلافت عثمانیہ تاراج ہوئی تو ہندوستان میں اس کی بحالی کے لیے تحریک خلافت کا آغاز ہوا۔ 1920ء میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کو پارلیمنٹ کی تحریک پر رہا کیا گیا۔ تو پورا ہندوستان بمبئی کے ساحل پر سفینہ ملت کے اس عظیم ناخدا کو ہدیہ سپاس پیش کرنے کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر کے ہمراہ موجود تھا۔ 1921ء میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ 1928ئ میں ہندوستان کی آزادی کے لیے سب سے پہلے "جمعیتہ علماء ہند” ہی نے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔
حضرت حاجی امداداللّٰہ مہاجر مکی ؛ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؛ حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی ؛ حضرت مولانا محمد منیر نانوتوی ؛ حضرت حافظ ضامن شہید؛ حضرت مولانا رحمت اللّٰہ کیرانوی وہ اکابر و اسلاف دارالعلوم دیوبند ہیں کہ جنہوں نے 1857ئ کی تحریک آزادی میں حصہ لیا اور شاملی کے میدان میں دادِ شجاعت حاصل کی۔ ملک و ملت کے اس قدیم اور عظیم "جمعیتہ علماء ہند” کی مجلس عاملہ کے اس اجلاس کے جامعہ ضیاء العلوم میں انعقاد پر محبین ؛ متعلقین ؛ معاونین اور مخلصین جامعہ اپنے بزرگ علماء و مشائخ کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے اپنی شفقتوں سے ہمیں نوازا اور اپنی تشریف آوری سے ہم سب کی حوصلہ افزائی فرمائی اور اپنی تشریف آوری کی برکت سے اس سنگلاخ وادی کا سرِ افتخار بلند فرمایا۔
پروردگارِ عالم ان بزرگوں کے ظل عاطفت کو قائم و دائم رکھے اور جامعہ ضیاء العلوم ان کی شفقتوں سرپرستیوں اور عنایتوں برکتوں اور دعاؤں سے ترقی کی منزلیں طے کرتا رہے۔ منتظمین اور ادارہ دونوں اللّٰہ کے فضل و کرم کے مستحق رہیں بطور خاص شیخ الجامعہ مدظلہ کے صاحبزادگان کو اللّٰہ رب العزت اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں رکھے اور ان کا ہر قدم خیر اور بہتری کی طرف ہی اٹھتارہے۔
۰۰۰۰