محمد ہاشم القاسمی
9933598528
ہندوستان کی تاریخ میں سن 1951 میں ہونے والے پہلے انتخابات کے بعد سے 73 برس کے انتخابی دور میں تقریباً 32 سال ملک میں مخلوط حکومت رہی ہے اور اقتدار کے 31 سال ملک میں واضح اکثریت والی حکومتیں رہی ہیں۔ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے 10 برس بھی شامل ہیں۔
مخلوط حکومت میں سب سے اہم وزارتوں کی تقسیم ہے اور ہر پارٹی کی اپنی پالیسیوں کے حوالے سے کافی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
نریندر مودی کے لیے یہ پہلا تجربہ ہو گا جب مخلوط حکومت کی قیادت کرنی ہو گی، جو شاید ان کے آمرانہ رویے کی وجہ سے آسان کام نہیں ہوگا تاہم مخلوط حکومت چلانا ایک مشکل کام ہے، جس میں حمایتی پارٹی اور حزب اختلاف میں توازن کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے.
بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی مخلوط حکومت کے دور میں ”مخلوط دھرم” کی ایک اصطلاح ایجاد کی تھی اور اب ان کے سیاسی وارث نریندر مودی کو تیسری بار حکومت بنانے پر اسی مخلوط دھرم کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔
ہندوستان میں حکومت سازی کے لیے کسی بھی پارٹی یا اتحاد کو لوک سبھا کی کم از کم 272 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے، تاہم بی جے پی گو کہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، لیکن وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر 272 کا جادوئی نمبر عبور کرنے میں ناکام رہی اس بار مودی برانڈ صرف 240 نشستیں ہی حاصل کر پائی ہے، اس لیے اسے حکومت سازی کے لیے اب اپنی حلیف پارٹیوں کے تعاون پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
بی جے پی نے اس انتخابات میں اتحاد کے لیے تین درجن سے زیادہ پارٹیوں کو اپنے ساتھ جمع کیا تھا، تاہم مخلوط حکومت سازی کے لیے اسے چندرا بابو نائیڈو کی علاقائی پارٹی تیلگو دیشم پارٹی اور نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹیڈ کی حمایت ناگزیر ہو گئی ہے۔ چونکہ ان دونوں پارٹیوں نے بالترتیب 16 اور 12 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور مرکز میں حکومت سازی کے لیے ان کی حمایت کے بغیر چارہ نہیں۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کتنے دنوں کی مہمان ہے کچھ بھی کہنا مشکل ہے چونکہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے مدنظر فی الحال کوئی حتمی نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہو گا، کیونکہ نریندر مودی جن دو بڑی حلیف پارٹیوں پر انحصار کر رہی ہے وہ ماضی میں اپوزیشن کانگریس کے ساتھ اتحاد کر چکی ہیں۔
موجودہ الیکشن کے نتائج کے بعد بی جے پی کا پچاس سال حکومت کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے اور مودی جو "ایک اکیلا سب پر بھاری اور 56 انچ کا سینہ ” ٹھوکتے نہیں تھکتے تھے اب ان کا گھمنڈ ٹوٹ گیا ہے، اس لیے کہا جا رہا ہے کہ "ملکی سیاست ابھی زندہ و برقرار ہے ” ان انتخابات کو کانگریس کی قیادت والے ‘انڈیا اتحاد’ کے لئے تاریخی کہا جا سکتا ہے جس میں اس نے غیر متوقع کامیابی حاصل کی ہے، اور 2014 میں مودی کے” کانگریس مکت” کا نعرہ کو عوام مسترد کرتے ہوئے انہیں 99 سیٹوں پر شاندار واپسی کا اشارہ دے کر واضح کر دیا کہ اس ملک میں کانگریس کی بے مثال قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، اس کا سہرا کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے سر باندھا جائے گا جنہوں نے خون منجمد کر دینے والی سخت سردی کی پروا کئے بغیر صرف ایک ٹی شرٹ پہن کر دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں نفرت کے خلاف لوگوں میں محبت بھرنے کے لئے سڑک پر اترنے کا فیصلہ کیا، اور یکے بعد دیگرے دو دو پد یاترائیں کیں، یہ پیدل یاترا کوئی عام ‘پد یاترا’ نہیں تھی بلکہ ایک قومی لیڈر کے ذریعہ سڑک پر اترنا اور کئی ہزار کلو میٹر پیدل چل کر عام لوگوں سے ملنا اور انہیں محبت کا پیغام دے کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے والا وہ اہم قدم تھا جسے پورے ملک کے عوام نے قبول کیا ہے . جبکہ چار سو پار کے نعرے کے ساتھ قانون میں تبدیلی کا خواب دیکھنے والی مودی سرکار اب ایک ناکام اور شکست خوردہ راجہ کے طور پر ہندوستان کے تخت و تاج میں نہایت کمزور بیساکھیوں کے سہارے براجمان ہوئے ہیں۔کمزور بیساکھی کے سہارے قائم ہونے والی مودی حکومت کے لئے آنے والے پانچ سال سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا کیوں کہ اس وقت مودی کو خود اپنے اتحادیوں سے ڈر اور خوف کے سایہ میں رہنا ہوگا کہ کہیں خدا نخواستہ اگر یہ پلٹ گئے تو مودی حکومت کے تخت و تاج بھی اوندھے منہ گر جائیں گے .
وزیر اعظم مودی کی زندگی پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے گجرات میں بطور وزیر اعلیٰ 13 برس اور مرکز میں 10 برس تاناشاہ کی طرح جو چاہا وہ کیا اور خود کو ماوری الخلقت جانا۔ بقول مودی "کبھی کبھی تو لگتا ہے مجھے بھگوان نے کوئی خاص کام لینے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور جو صلاحیت مجھے بخشی گئی ہے وہ ایک عام انسان سے زیادہ ہے”۔ اب اس "خاص انسان” اور ناقابل تسخیر برانڈ مودی کی چمک ماند پڑنے کے بعد لوک سبھا میں اپوزیشن کی مضبوط دیوار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ خاص انسان جس نے 10 برس کی حکومت کے دوران ایک بھی پریس کانفرنس کا سامنا نہیں کیا اب اسے یہ ثابت کرنے کی سخت آزمائش درپیش ہے کہ وہ خاص انسان اور تاناشاہ نہیں بلکہ ایک ایسا نیتا ہے جو مخلوط حکومت برقرار رکھنے کے لیے "پلٹو رام” جیسے پیادوں کے سامنے بھی ہاتھ جوڑ کر کھڑا رہنا پڑے گا۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو 303 سیٹیں حاصل ہوئیں تھیں اور حکومت سازی کے لیے انہیں اپنے اتحادیوں کا محتاج ہونا نہیں پڑا۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) مودی حکومت کا حصہ رہی تاہم بی جے پی کو اس دوران اپنے شراکت داروں کو مطمئن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.
شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیا گٹھبندھن نے حکومت بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا مناسب سمجھا کہ لاغر، کمزور سی کابینہ کے ذریعہ حکومت میں بیٹھنے سے بہتر ہے کہ مضبوط اپوزیشن کے ساتھ ٹکر دیا جائے۔
اٹل بہاری واجپائی مخلوط حکومت چلانے کے مثالی رہنما سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے مغربی بنگال کی شیرنی اور موجودہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو اچھی طرح سے سنبھالنے کا کام کیا تھا۔ اور اس کے بعد کانگریس پارٹی نے بھی سن 2004 سے 2009 تک اور پھر 2009 سے 2014 تک وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے کی مخلوط حکومتیں اچھے انداز سے چلائیں تھیں۔ ع اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا.
٭٭٭