قیصر محمود عراقی
مردوں کے غلبہ سے بھرپور اپنے اس خوشبودار معاشرے میں عورت کا تصور ہمیشہ سے کافی بے چارا سا رہا ہے۔ ہمارے ناولوں ، کتابوں ، ڈراموں اور فلموں میں عورتوں کو بے بس دکھایا جاتا ہے، ہم اس بے چارگی کو دیکھنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اگر ہمیں کہیں مضبوط عورت دکھائی دے تو ہم اسے دل ودماغ سے قبول ہی نہیں کر پاتے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہر دور میں محکومی اور مظلومی عورت کا مقدر رہی ہے، وہ اذیت اور ذلت کا بوجھ اٹھائے تاریکیوں کے جنگلوں میں بھٹکتی رہی ہے۔ نورِ اسلام سے قبل کہیں صنفی امتیاز کے سبب عورت کو زندہ دفن کیا گیا تو کہیںشوہر کی وفات پر خود سوزی پر مجبور کیا گیا ، جب اسلام کا مہر تاباںطلوع ہوا تو عورت کی بے نور زندگی عفووکرم ، حسن سلوک سے منور ہوگئی، بلاشبہ اسلام وہ واحد دین فطرت ہے جو عورت کو اس کے تمام حقوق سے نوازتا ہے۔
بدقسمتی سے آج کے اس جدید دور میں ہم زمانہ جاہلیت سے بھی بد تر ہوچکے ہیں۔ آج کی عورت جتنی مظلوم ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی، خاص طور پر ایسی عورتیں جن کے خاوند فوت ہوچکے یا جو طلاق یافتہ ہیں۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیںمگر آزادی کے کئی سال بعد بھی ہم پر سے ہندومعاشرے کی چھاپ اترنے کا نام نہیں لے رہی، ہمارے دوہرے رویئے اور منافقانہ طرزِ عمل نے عورت کو مشکلات میں مبتلا کررکھا ہے۔ اگر کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون اپنے ماں باپ یا بھائی کے گھر رہنا چاہتی ہے تو رشتہ دار، پڑوسی اور دوسرے لوگ اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، اسے طعنے دیتے ہیں کہ وہ واپس گھر آکر بیٹھ گئی ہے، والدین اور بھائی پر بوجھ بن گئی ہے، اس پر جلتی پر تیل کا کام بھائی کی بیوی یعنی بھابھی کرتی ہے، جو خود عورت ہوتے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدا نخواستہ یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے وہ یہ کہتے ہوئے ذرا سا بھی شرم محسوس نہیں کرتی’’یہ منحوس، ڈائن اپنے بندے کو کھاگئی ، اسے چاہئے یہ خود کمائے‘‘ اس قسم کی لغویات کا سامنا اس قسمت کی ماری بیوہ یا طلاق یافتہ کو سننا ہی پڑتی ہیںاور اگر اس بیچاری کے بچے ہوں تو ظلم وستم کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے اور بھابھیاں یہ کہتے نہیں تھکتی کہ پہلے ہمارے بچوں اور گھر کا خرچا کیا کم تھا جو یہ لوگ آکر ہمارے سر پر سوار ہوگئے، ان کو چاہئے یہ اپنا اور اپنے بچوں کا خرچا اٹھانے کیلئے نوکری کریں۔ آخرکار روز روز کے ان طعنوں سے تنگ آکر وہ عورت نوکری کرنے پر مجبور ہوہی جاتی ہے، اس اکیلی عورت کیلئے جانوروں کے ریوڑمیں خراب نظروں اور جھلسا دینے والے جملوں کو سہنا کوئی آسان کام نہیں ، الغرض گھر سے باہر نکلنے پر اس بیوہ یا طلاق یافتہ اکیلی عورت کو بے پنا ہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دوسری صورت میں اس بیوہ عورت سے جینے کا حق بھی چھین لیاجاتا ہے جب وہ دوسری شادی کرنے کا شرعی کام یعنی دوسرا نکاح کرتی ہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں، اس کو بہت آگ لگی ہوئی تھی، اس کی شوہر کو مرے ہوئے زیادہ عرصہ بھی نہیں گذرا ، ابھی تو شوہر کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور اس نے دوسری شادی کھڑکا لی، اسے دوسری شادی کی ضرورت ہی کیا تھی اور اگر طلاق یافتہ عورت دوسرا نکاح کرلے تو اس کے کردار پر ایسا کیچڑ اچھالاجاتا ہے کہ اللہ کی پناہ ، اس کا تو پہلے سے ہی کوئی ٹانکا ، پیچا ، چکر یعنی معاشقہ چل رہا تھا، اس نے تو طلاق لی ہی اپنے پرانے عاشق کیلئے ، تیسری صورت میں اگر بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی نہ کرے ، وہ اپنے بچوں کو لیکر علیحدہ گھر میں رہے تو پھر بھی معاشی مشکلات کا مقابلہ اپنی جگہ اس کے رشتہ دار اور محلے دار مدد کرنے کے بجائے اس پر تنقید کے نشتر چلانے کے ساتھ اس کی ایسی کڑی نگرانی کرتے ہیںکہ نہ ہی پوچھیئے۔
قارئین محترم! کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں، ہم سے بڑا عاشق رسولؐ کوئی نہیںمگر کسی اکیلی عورت ، بیوہ یا طلاق یافتہ سے ہمارا ایسا منفی رویہ آخر کیوں؟ جبکہ پیارے نبی پاکؐ نے فرمایا:’’میں تمہیں بتائوں کہ بڑی فضیلت والا صدقہ کون سا ہے؟ اپنی اس بچی پر احسان کرنا جو بیوہ ہونے یا طلاق دیئے جانے کی وجہ سے تمہاری طرف لوٹا دی گئی ہو اور اس کا تمہارے سوا کوئی کفیل یا بار اٹھانے والا نہ رہا ہو‘‘ ایک اور جگہ نبی پاکؐ نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا:علی :تین باتوں کو کرنے میں دیر نہ کرنا ایک تو نماز ادا کرنے میں جب وقت ہوجائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جبکہ اس کا کفو(یعنی ہم قوم مرد) مل جائے‘‘ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آج تک ہمارے اکابرین نے ہمیں یہ درس خطبہ جمعہ ، عیدین ، اجتماع ، کانفرنس ، جلسہ یا کسی اسلامی ، ادبی محفل میں نہیں دیا کہ بیوہ ، طلاق یافتہ یا کسی کنواری لڑکی سے دوسرے نکاح کی کیا اہمیت ہے، اس کے معاشرے پر کیا اثرات ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے کورٹ کچہریاں طلاق ، خلع، بچوں کی حوالگی کے کیسیز سے بھری پڑی ہے اور ان متاثرہ خاندان کے بچے بیچارے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم پیدا ہی کیوں ہوئے ہیں اور تو اور آج کل ہر ٹی وی چینلوں کے ڈراموں میں طلاق سے بات شروع ہوکر طلاق پر ختم ہورہی ہے، طلاق ایک ایسا فعل جس سے اللہ تعالیٰ کا عرش ہلتا ہے اور اسلام میں جسے سب سے ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔
آج بچیوں کی شادی کی عمر گذرتی جارہی ہے مگر ان کے اچھے رشتے نہ آنے کی وجہ سے وہ گھر بیٹھیں ہیں، کوئی اس پر بات کرنے والا نہیں؟ ہر جمعہ میں مولوی صاحب دعا مانگتے ہیں یا اللہ!جن والدین کی بچیاں گھر پر بیٹھیں ہیں ان کے اچھے رشتے بھیج دے آخر ایسا کیوںتواتر سے ہورہا ہے؟ کمسن بچے بچیوں اور بے سہارا اکیلی عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، ایسی مکروہ اورقبیح حرکت کرنے والے خنزیر یہ بھول گئے کہ ان کو بھی کسی عورت نے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر جنم دیا ہے۔ شاید اس میں قصور وار ہم سب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مقدس کو صرف الماریوں کی زینت بناچکے ہیں، اس کا ترجمہ پڑھنے کا ہمیں کسی نے نہیں بتایا اور نہ ہی ہم نے خود زحمت کی ۔کاش ہم اس تعفن زدہ معاشرے میں دوسرے نکاح کو پروموٹ کرتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668
٭٭٭