رام کی نگری سے بھی ہوئے راندہء درگاہ

0
0

۰۰۰

محمد عظیم فیض آبادی
358163428

اجودھیا فیض آباد لوک سبھا الیکشن میں نہ تو مودی یوگی لہر کچھ کام آئی ، نہ ہی مندر کا شہرہ کارگر ثابت ہوا ، رام کے نام پر سیاسی بازی گری کچھ فائدہ مند ثابت ہوئی ، نہ ہی یہ نعرہ کچھ مفید ثانت ہوا کہ ” جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے” ملک کا ماحول تو چونکہ بھاجپا کیلوگوں کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اب ان کے حق میں زیادہ سازگار نہیں ہے شاید اسی لئے ملک کے سیاسی ماحول کو اپنے چناوی مفاد کے پیش نظر گرمانے کیلئے آدھے ادھورے مندر کا انتہائی جلد بازی میں بہت سے سادھو سنتوں کی مرضی کے خلاف دھوم دھام سے گودی میڈیا کے شورغوغا انتہائی ہنگامے کے ساتھ وقت سے پہلے ہی کردیا گیا تھا لیکن پھر بھی رام اور اجودھیا دونوں نے ہی شاید دھرم کیاس سیاسی ناٹک کا خاتمہ ہی منظور کیا اور اسطرح
"*ملک میں کمزور ہوئے آئی نہ وہ طاقت "*
*”رام کی نگری سے بھی ہوئے راندہء درگاہ”*
اور اجودھیا نے بھی یہ ثابت کردیا کہ رام کا نام سیاسی مفاد کے لئے سیاست میں گھسیٹنا قطعا مناسب نہیں
دھرم کے نام پر اقتدار حاصل کرنا اور نفرت کے لئے رام کا نام استعمال کرنا دھرم نہیں ادھرم یے اور رام کو وہ لانے والے نہیں بلکہ وہ خود رام کے نام پر اپنا ووٹ بھنانے بار بار اجودھیا آیا کرتے تھے
رام کے نام پر مسجد توڑنا ،کسی ایک دھرم ومذہب کے پیروکاروں کو نشانہ بنانا ،ان کے خلاف نفرت کا موحول بنانا، مندر اور اس کی توسیع کے نام پر سیکڑوں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرکیان کو بے گھر کرنا اور مندر بناکرپھر اسکی مارکٹنگ کرنا عوام کے پیسوں کا بے دریغ استعمال کر اپنی خود نمائی کرنا خود رام کو پسند نہیں نہ ہی رام کی تعلیمات اس کی اجازت دیتی ہیں اور نہ ہی یہ کسی مہذب سیاست دان کا شیوہ ہوسکتاہے اور نہ ہی یہ کسی مہذب سماج کے لئے یہ زیادہ دنوں تک قابل تحمل ہوسکتاہے اجودھیا فیض آبادکے لوگوں نے گودی میڈیا کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا کہ یہ کوئی صحافت نہیں بلکہ صحافت کے نام پر ایک طرح کا دھندھا ہے جو کسی ایک پارٹی یا ایک مخصوص گروہ کی خوشنودی کا ذریعہ تو ہوسکتی ہے مگر صحافت کا مقام اس سے حاصل نہیں کیا سکتا بلکہ حقیقی اور سچی صحافت وہ ہوگی جو عوامی مسائل کو اپنی نشریات کا حصہ بنائے
گودی میڈیا نے اجودھیا میں ہونے والے ٹیم ٹام کو تو خوف دکھایا دن ورات اس کی چرچا کی اس پر گھنٹو گھنٹو ڈبیٹ کئے اپنے پرائم ٹائم کا حصہ بنایا مگر اجودھیا فیض آبادی میں پھیل رہی بے روزگاری ، غریبی پانی بجلی تعلیم وصحت جیسے مسائل کو یکسر نظراندازکیا ترقیاتی کاموں کے نام پر لوگوں کے دکان ومکان کی بلا کسی معقول معاوضہ کے مسماری سے صرف نظر کیا کہ شاید مندر، جے شری رام کے نعروں کے بعد اب الیکشن جیتنے کیلئے انسانی زندگی اور اس کی ضروریات اور لوگوں کے جائز مطالبات اسکول کالج تعلیم نوکری ، صحت علاج ومعالجے کی کوئی ضرورت نہیں سب یوگی مودی کے جلوؤں کے نیچے دب کر رہ جائیں گے کیونکہ ان سب کا اصل مقصد الیکشن جیتنا اور اس کے لئے ماحول سازگار کرنا ہی تھا لیکن یہاں کی عوام نے ان سب کو درکنار کر خاموشی سے یہ طے کرلیا تھا کہ ہمیں مندر مسجد کے جھگڑوں میں الجھا کر روٹی کپڑا مکان روزگار سے تعلیم مراکزِِ صحت سے محروم کرنا مہگا ثابت ہوسکتا جس کا نتیجہ اب ملک کے سامنے ہے کہ اجودھیا فیض آباد میں وزیراعلی تک کا پرچار بھی کارگر ثابت نہ ہوسکا
رام مندر کے ادگھاٹن کا ایک سو آٹھ گھنٹہ نشریات چلانے والا بلکہ رام مندر کے نام پر بھاجپا کا پرچار کرنے والا گودی میڈیا بھی آج حیران ہوگا اگر ضمیر زندہ ہوتا تو شاید شرمشار بھی ہوتا کہ اس نے بھاجپا کے پرچار کو ہی صحافت سمجھ کر اپنی پوری صحافتی توانائی کو مہینوں صرف کرتارہا مگر ایک بار بھی فیض آباد اجودھیا کے آج کے فاتح سماجوادی پارٹی کے اودھیش پرساد کو اپنے چناوی کوریج میں ایک بار بھی نہیں دکھایا جبکہ وہ نو بار کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں یہ بھی گودی میڈیا کی جانبداری ہے اور مخصوص ذہنیت کی نشاہی کرتاہے
موجودہ الیکشن کا یہ نتیجہ اجودھیا سمیت فیض آباد منڈل کا پورے ملک کے لوگوں کو ایک خاموش پیغام بھی ہے کہ ہم مندر مسجد کو صرف پوجا اور عبادت تک محدود رکھتے ہیں اسے سیاست کا اکھاڑا، اور نفرت کی آماجگاہ نہیں بناتے
اس لئے مندر مسجد ، دھرم ومذہب ،ذات پات سے سیاست کو پاک رکھنا چاہئے ، یہ ہر شخص کا اپنا ذاتی معاملہ ہے سیاست اور الیکشن ہمیشہ ملک کے مفاد اس کی سالمیت اس کی معیشت کی مضبوطی ملک پر بڑھتے ہوئے قرض سے نجات اس کی ہر سو ترقی کو پیش نظر رکھ کر ہونا چاہئے ، ہمیشہ ایسی پارٹی اور ایسے امیدوار کا انتخاب کرنا چاہئے جو علاقے کی ترقی مہگائی ، بے روزگاری ، تعلیم صحت ، غریبوں کی مسیحائی پانی بجلی مکان سڑکیں ، عوام الناس کی آزادی، عورتوں کی عزت وحرمت کی حفاظت اور قانون کی بالادستی قائم رکھے، تانا شاہی ، نفرت سماج کو آپس میں لڑاکر اقتدار کے حصول سے نہ ملک کا بھلا ہونے والا ہے اور نہ ہی ملک کے عوام کا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا