کشمیر:یہ زمانہ قدیم لگتاہے!

0
0

مواصلاتی پابندی کا 53 واں دن؛ لینڈ لائن سروس رابطے کا واحد ذریعہ
یواین آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز پر قریب دو ماہ سے جاری پابندی کے بعد لینڈ لائن سروس ہی رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔لینڈ لائن سروس چونکہ وادی کے شہر و قصبہ جات تک ہی محدود ہے لہٰذا دور افتادہ دیہات کے لوگوں کو اپنوں کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے شہر یا نزدیکی قصبوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو ہڑتال کے چلتے دشوار گزار کام ہے۔عرفان احمد نامی ایک شہری نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی میں اب چونکہ لینڈ لائن سروس ہی رابطے کا واحد ذریعہ ہے لہٰذا دوردراز دیہات کے لوگوں کو شہر یا قصبوں کا رخ کرنا پڑرہا ہے۔انہوں نے کہا: ‘یہاں اب لینڈ لائن سروس ہی رابطے کا واحد ذریعہ ہے لیکن یہ سروس شہر وبڑے قصبہ جات تک ہی یہاں محدود ہے لہٰذا دوردراز دیہات کے لوگوں کو شہر یا قصبوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو ہڑتال کے بیچ ان کے لئے مشکل بن گیا ہے’۔علی محمد نامی ایک دیہاتی نے کہا کہ مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے بیس کلو میٹر کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔انہوں نے کہا: ‘میرا بیٹا دہلی کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے، میں ایک دورافتادہ گاؤں میں رہتا ہوں جہاں لینڈ لائن سروس کا کوئی نام ونشان تک نہیں ہے لہٰذا بیٹے کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے مجھے نزدیکی قصبے تک پہنچنے کے لئے بیس کلومیٹر کی مسافت پیدل کرنا پڑتی ہے’۔نثار احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ وادی میں ایک بار پھر رابطے کا انحصار لینڈ لائن سروس پر ہی ہے جس سے ایک علاقے میں لوگوں کو ایک یا دو گھروں کے ہاں ہی آنا پڑ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘وادی میں ایک بار پھر رابطے کا انحصار لینڈ لائن سروس پر ہے کیونکہ یہ سروس یہاں ایک علاقے میں ایک یا دو گھروں کے ہاں ہی ہے لہٰذا علاقے بھر کے لوگوں کو ریاست کے دوسرے حصوں یا بیرون ریاست قیام پذیر احباب واقارب کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے ان ہی دو گھروں کا رخ کرنا پڑرہا ہے’۔غلام حسن نامی ایک شہری جس کے گھر میں لینڈ لائن سروس قائم ہے، نے کہا کہ اب زمانہ قدیم کی طرح ایک بار پھر ہمیں لوگوں کو بلانا پڑرہا ہے کہ آپ کے لئے کسی رشتہ دار یا دوست کا فون ہے۔انہوں نے کہا: ‘میرے گھر میں لینڈ لائن سروس ہے لہٰذا اب کے ایک بار پھر میرے گھر پر نہ صرف لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے بلکہ جب کسی کو ریاست یا بیرون ریاست سے کسی رشتہ دار یا دوست کا فون آتا ہے تو ہمیں اس کو بلانا پڑتا ہے کہ آپ کے لئے کسی کا فون ہے اور پھر وہ آکر اس کے ساتھ بات کرتا ہے’۔غلام حسن نے مزید کہا کہ دوردراز کے لوگ بھی بیرون ریاست اپنے بچوں کے ساتھ بات کرنے کے لئے آتے ہیں جب کبھی کسی وجہ سے وہ ان کے ساتھ رابطہ نہیں کر پاتے ہیں تو دوسرے دن انہیں پھر آنا پڑتا ہے جو موجودہ حالات میں بہت ہی مشکل کام ہے۔ دریں اثنا بی ایس این ایل نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لینڈ لائن کے پرانے کنکشنز بحال اور نئے کنکشن فراہم کئے، ان میں سے سینکڑوں کنکشنز کا استعمال مجبور افراد بالخصوص غیر ریاستی مزدوروں کو لوٹنے کے لئے کیا جارہا ہے۔خود غرض افراد نے موقع دیکھتے ہوئے بی ایس این ایل لینڈ لائن کے نئے کنکشن حاصل کئے ہیں۔ یہ کنکشن جو کہ ذاتی استعمال کے لئے حاصل کئے گئے ہیں کا استعمال کمرشل مقاصد کے لئے ہورہا ہے۔ یہاں مجبور لوگوں بالخصوص غیر ریاستی مزدوروں کو فی منٹ کالنگ کے عوض 5 سے 20 روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران پرانے کنکشنز کی بحالی اور نئے کنکشنز کی فراہمی کی بدولت نہ صرف بی ایس این ایل کے لینڈ لائن صارفین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا بلکہ کمپنی نے کروڑوں روپے کما لئے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپنی کے فیلڈ میں کام کرنے والے ملازمین نے بھی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے خوب پیسے کما لئے ہیں۔ انہوں نے کہا: ‘کمپنی کے فیلڈ میں کام کرنے والے ملازمین نے نئے کنکشنز کے لئے مثبت فیزیبلٹی رپورٹ دینے سے لیکر پرانے و نئے کنکشن چالو کرنے کے بدلے میں صارفین سے اچھی خاصی رقم حاصل کی۔ روزانہ کی بنیاد ہزاروں کی تعداد میں لوگ لینڈ لائن کنکشن لگوانے کے لئے بی ایس این ایل ایکسچینجوں کا رخ کررہے ہیں’۔ مقامی لوگوں اور کشمیر میں مقیم غیر ریاستی مزدوروں نے کہا کہ انتظامیہ نے مجبور لوگوں کو کوئی راحت پہنچانے کے بجائے خود غرض افراد کو ناجائز پیسے کمانے کا موقع دیا ہے۔ انتظامیہ اور بی ایس این ایل کو ملکر مجبور لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے مفت ٹیلی فون مراکز قائم کرنے چاہیے۔قابل ذکر ہے کہ حکومت نے وادی کے بیشتر حصوں میں بی ایس این ایل کی لینڈ لائن فون خدمات بحال کی ہیں تاہم موبائیل فون اور ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات بدستور منقطع رکھی گئی ہیں۔ وادی میں مواصلاتی پابندی کی وجہ سے زندگی کا ہر ایک شعبہ بری طرح سے متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔ عام لوگوں کو بالعموم جبکہ طلبائ￿ ، کاروباری افراد اور صحافیوں کو بالخصوص شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا