عابد کبرویؔ
وادی کشمیر میں ہر دور میں ایسی بہت سی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں جنہوں نے مذہبی، سماجی اور علمی و ادبی لحاظ سے اپنی گراں قدر خدمات کے ذریعے اپنے پیچھے گہرے اثرات و نقوش چھوڑے ہیں۔ اگرچہ اب تو اس طرح کی شخصیات کا معرضِ وجود میں آنا عنقا یا مدہم پڑ گیا مگر کسی نہ کسی علاقے میں کوئی نہ کوئی علمی و فکری پیکر کی حامل شخصیت ضرور جنم لیتی رہی ہے۔ چنانچہ اسی طرح کی ایک شخصیت کو اس باغِ ارم نے جنم دیا جن کا شخصی راج کے خلاف کشمیری عوام کو بیدار کرنے میں اہم کردار ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں اس شاعرِ کشمیر کی جن کا نامِ گرامی پیرزادہ غلام احمد مہجورؔ ہیں۔ ” تاریخِ اقوامِ کشمیر”میں آپ کے مختصر حالات "پیر زادہ خاندان "کے عنوان کے تحت درج ہیں۔ مہجورؔ صاحب کا آبائی وطن وہی کشمیر ہے جواپنے حسن و جمال ۔ رعنائی و کشش، شبابی و شادابی، میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔یہ وہی کشمیر ہے جس کی مدح و ثنا میں فارسی شاعری کے نغز گو شاعر عرفی شیرازیؔ نے یہ کہہ کر وادی کے صحت افزا ، خوش گوارماحول کو مستند کر دیا:
ہر سوختہ جانے کہ بہ کشمیر در آید
گر مرغ کبا بست با بال پر آید
پیرزادہ غلام احمد مہجورؔ سرینگر سے ۳۸ کلو میٹر اور ضلع پلوامہ سے ۵۰ کلومیٹر دور میتریگام گائوں میں سعیدہ بیگم کے شکم سے ۱۱ اگست ۱۸۸۷ئ میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام پیر عبد اللہ شاہ تھا۔ سعیدہ بیگم فارسی تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ فنِ خوش نگاری میں بھی نمایاں تھیں۔ مہجورؔ صاحب کی عمر ایک سال اور دس مہینے سے زیادہ نہ تھی کہ ماں کی وفات ہوئی۔ بعد میں ان کی پرورش اپنی نانی کے زیر سایہ ہوئی۔ ان کے والد یعنی پیر عبد اللہ شاہ اس زمانے کی مروجہ تعلیم کے ماہر تھے، اس لیے مہجورؔ نے ابتدا میں اپنے والد صاحب کی قربت میں رہ کر تعلیم پائی اور بعد میں انہوں نے قصبہ ترال میں مولانا علی گنائی ، جو معلم ہونے کے علاوہ شعرو شاعری میں کافی مہارت حاصل رکھتے تھے اور تخلّص ” عاشق ترالی”کرتے تھے، کی آموزش گاہ سے مزید تعلیم حاصل کی۔ اس وقت مہجورؔ کی عمر تیرہ برس کی تھی۔مولانا کے ساتھ ان کی وابستگینے ان کے تخیل کو جِلا بخشی اور شاعری لکھنے کا سُلگتا ہوا جذبہ پیدا کیا۔ فارسی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ انجمن نصرۃالاسلام کی درسگاہ میں مولوی حسین شاہ زیرک کے شاگرد خاص رہے۔ آپ مزید حصولَ تعلیم کی مدعا سے پنجاب (امرتسر)روانہ ہوئے۔ ۱۹۰۵ئ میں مہجورؔ صاحب پنجاب کے شہر امرتسر پہنچ گئے۔ان دنوں امرتسر ادبی سرگرمیوں سے گونجتا تھے۔ایک زہین نوجوان اورایک عمدہ خطاط ہونے کے ناطے مہجورؔ نے اپنا فارغ وقت اردو اور فارسی کی تراش خراش میں صرف کیا۔انہیں ایام انھیں اُردو کے چند معروف شاعروں جیسے مولانا بسمل امرتسری ، جو فارسی کے ممتاز سخن ور تھے اور شمس العلماء علامہ شبلی نعمانیؔ جو اردو نقاد اور مورخ تھے، سے رابطہ ہوا۔ یہی سے انہوں نے شاعرانہ تخلص ” مہجورؔ "اختیار کیا۔ ۱۹۰۸ئ میں مہجورؔ کشمیر واپس آئے۔ پہلے فارسی پھر رفتہ رفتہ اس سے کنارہ کشی کر کے اردو میں شعر و شاعری کی مشق جاری رکھی۔
مہجورؔکے والد صاحب چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اپنے پیشے (پیر مریدی)کی پیروی کرے لیکن مہجورؔکی دلچسپییاں مختلف تھیں۔ والد صاحبنے بہت سمجھایا لیکن مہجورؔ پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اسی دوران میں مہجورؔ صاحب شاہ عبد الرحیم قلندر صفاپوری کی خدمت میں گئے۔قلندر صاحب نہایت صاف باطن اور صاحبِ کشف تھے۔انہوں نے مہجورؔ کو فرمایا کہ "تلاش روزگار کرو خدا تم کو کامیاب کریگا”۔ پنجاب سے واپسی کے فورا ـــــــــــ بعد مہجورؔ کو محکمہ ریونیوز میں پٹواری کی نوکری مل گئی۔ایک پٹواری کی حیثیت سے انہیں ریاست کے مختلف حصوں بشمول لیہہ اور کارگل کے سرحدی علاقوں میں سال بھر گزارنے کا موقع ملا۔ وادی کے مختلف مقامات پر اپنے قیام کے نتیجے میں وہ عام کشمیریوں سے قریبی رابطہ میں آئے، ان کی پریشانیوں کو محسوس کیا اور کشمیری لوک شاعری اور لوک داستانوں کے مٹھاس کو بھی سراہا۔
مہجورؔ جدیدکشمیری شاعری کے سب سے نمایاں علمبردار ہیں۔ ۱۹۱۸ئ میں انہوں نے پہلی غزل کہی اور اس کے داخلی اور خارجی دونوں پہلوئوں سے مہجورؔ کے بلند پایہ پیشرو رسول میرؔ شاہ آبادی کا متبع صاف عیاں ہے۔ ۱۹۳۱ئ تا ۱۹۴۵ئ کے عرصے کو مہجورؔ کے شعری کیرئر کاسب سے نتیجہ خیز دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۴۵ئ میں سرکاری ملازمت سے سبگدوشی کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کے باقی دن اپنے آبائی گائوں میں گزارے۔ مہجورؔ پہلے کشمیری شاعر تھے جنہوں نے ۸ اپریل ۱۹۵۲ئ کو حکومت جموں و کشمیر سے خصوصی اسکالرشپ حاصل کی تھی۔ اسکالرشپ کی پہلی قسط ملنے کے ایک دن بعد ہی انوں نے ۱۹ اپریل ۱۹۲۵ئ کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی۔ شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے اس وقت کے نائب وزیر اعظم ریاست جموں کشمیر ،بخشی غلام محمد نے متری گام کا دورہ کیا۔ انہوں نے ذاتی طورپر تجویز پیش کی کہ مہجورؔ صاحب کی لاش کو جہلم کے دریا کے کنارے سرینگر کے اتھوجن نامی مقام پر دفن کیا جائے۔مہجورؔصاحب کا جنازہ کشمیر کی مقدس ترین خانقاہ ” خانقاہِ معلیٰ”سے شروع ہوا اور پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ حبہ خاتون ، جو کہ کشمیر کی ایک مشہور ومعروف شاعرہ تھیں، کے پہلو میں مہجورؔصاحب کا مدفن ہیں۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام ِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبح دوامِ زندگی
کشمیر کے شاعروں میں مہجورؔ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ وہ خاص طور پر دو چیزوں کے لئے مشہور ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کشمیری شاعری میں ایک نیا انداز اور دوسرا اس نے ایک نئی فکر متعارف کرائی۔ کشمیری ادب میں غلام احمد مہجورؔ کو نشاۃ الثانیہ کا نقیب کہا جاسکتا ہے جنہوں نے کشمیر کے فکر وفن کو شعورو آگہی کی دولت سے مالامال کر دیا۔مہجورؔنے ایک ایسے نظام میں آنکھ کھولی جب کشمیر کی سرزمین جاگیرداری کے استحصال سے کراہ رہی تھی اور صدیوں کی غلامی نے اہل کشمیر کو مجبوری اورمقہوری کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا تھا۔مہجورؔ نے کشمیری زبان میں آزادی اور ترقی جیسے موضوعات پر نظمیں لکھیںاور اپنی تحریر سے سوئے ہوئے کشمیریوں کو جگا دیا۔ مہجورؔ ایک ایسا شاعر تھے جس نے گلاب کے باغ جیسے مادرِ وطن ، اس کے پہاڑوں، جھیلوں ، نباتات اور حیوانات کے بارے میں نظمیں قلمبند کی اور اس طرح کشمیری شاعری کے کینوس کو وسعت دی۔ مہجورؔ نے بہت کم عرصہ میں کشمیر سے باہر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جنوبی کشمیر کے متری گام پلوامہ سے نکل کر وہ کشمیری زبان کے سرتاج بن گئے۔انہوں نے دویندر ستیارتھی کے کہنے پر کشمیری زبان میں نظم لکھنے کی شروعات کی۔لوکچار، ویتستا، گِریس کوُر، ترانہ وطن وغیرہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔
صبح چھُم، مستانہ دل چھُم، تاز یاوُن چھُم
بہارس داد ہیوں چھُم ، شوقہ سان گلزار چھاوُن چھُم
مشیدن، مندرن، گرجن، دھرمشالن تہ آستانن
یِمن ییتن گرن اژنُک کُنے درواز تھاوُن چھُم
مہجورؔ نے اپنی کئی ابتدائی نظموں میں غیر ملکی علامتوں کو کافی حد تک رد کر دیا لیکن اس نے اپنے بعد کے شعری کیرئر میںگل و بلبل کی روایتی علامتوں کو برقرار رکھا اور روایتی علامتوں کو نئی اہمیت دی تاکہ ان سے حُب الوطنی کا اظہار کیا جا سکے۔ اپنی شاعری کو تازگی بخشنے کے لئے مہجورؔ نے اپنی توجہ روزمرہ کی زندگی کے بظاہر عام پہلوئوں کی طرف مبذول کرائی۔ مہجورؔ وہ پہلا کشمیری شاعر تھا جس نے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف ایک طاقتور آواز اٹھائی اور کشمیری عوام کی سیاسی محکومی، معاشی استحصال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تنگ دستی کی طرف توجہ دلائی۔ مہجورؔ نے ظالم ڈوگرہ راج سے کشمیر کی آزادی کے لئے سیاسی جدوجہد کے اثرات کو محسوس کیا۔ وہ اس جدوجہد کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنی مختلف نظموں کے ذریعے پسے ہوئے لوگوں کو ان کی صدیوں پرانی نیند سے جھگانے کی کوشش کی اور ان میں محکومیت سے آزادی کی جلتی ہوئی خواہش کو ابھارنے اور ان میں سیاسی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شاعری قومی اور ثقافتی تخلیق ِ نو کیلئے ایک خوش گوار آواز میں بدل گئی۔ انہوں نے موجودہ سیاسی اور ثقافتی پسماندگی پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا : دوہس زوجان ژٹِتھ شامن اڑی ژوٹ چھُم دِوان مالِک
کَمس راضی بہ سُہ میانِس غَمس تَن دار آسُن گوژھ
مہجورؔ صاحب نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ میدانِ عمل میں کود پڑیں، اپنی نجات کے لئے کام کریںاور آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرنے والی نظم ” ولو ہا باغبانو۔۔۔۔۔”کا قومی ترانہ بن گیا۔
ولو ہا باغوانو نو بہارچ شان پیدا کر
پھولن گُل ، گتھ کرن بلبل، تتھی سامان پیدا کر
چمن واراں، رِواں شبنم، ژٹِتھ جامہ پریشان گل
گلن تے بلبلن اند ر دُبار جان پیدا کر
انہوں نے خود قاری کی توجہ اپنے تخلیقی عمل میں ہونے والی اس اہم پیش رفت کی طرف یہ کہہ کر مبذول کرائی :
لولہ سازس تاز لے ہیتھ آے مہجورنی غزل
کیا وناں، کس کُن وناں ژ تہِ وُچھی زِ ہے ، زانہہ پری زِ ہے
مہجورؔ کی شاعری ان کی زندگی کے دوران تین مختلف عنوانات سے شائع ہوئی، یعنی کلامِ مہجور (اس میں ۷۳ گیت و محبت پر مشتمل ہے)، پیامِ مہجور ؔ (اس میں حب الوطنی اور سیاسی و سماجی نوعیت کے گیت شامل ہیں)اور سلامِ مہجورؔ (اس میں مذہبی اور عقیدت کے گیت شامل ہیں)۔ مہجورؔ کی شاعری رومانوی، سیاسی و حب الوطنی ، وجودیت پسندی اور عقیدت مندانہ ہیں۔ رومانوی نظمیں ان کے شاعرانہ کیرئر کے ابتدائی دور کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان میں مہجورؔ صاحب انسانی محبت اور اپنے محبوب سے جدائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دکھ، تکلیف اور مایوسی کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاسی اور حب الوطنی پر مبنی نظمیں مہجورؔ کے شاعری کیرئر کے آخری مرحلے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ شاعر کے زمانے سے متعلق سیاسی مسائل یعنی غربت، معاشی استحصال اور سیاسی محکومیت کے بارے میں بات کرتے ہیں جن کا کشمیری عوام کوجابرانہ ڈوگرہ راج میں سامنا تھا۔
مہجورؔ صاحب نے نظم ” فریاد ِ بلبل”میں گزشتہ اور گزرے ہوئے سیاسی انقلابات کا نقشہ بلبل کی زبان سے باغبان کو مخاطب کر کے نہایت بلیغ انداز میں کھینچا ہے۔
باغوانا، مہربانا ، بوز میونُے داستان
چھُس بہ بلبل باغہ کیو جاناورو منز ناتوان
مہجورؔ کی سب سے قابلِ ذکر نظموں میں” گریسی کوُر”ایک ہے۔یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ مہجورؔ نے یہ نظم اس وقت لکھی جب کشمیر بنیادی طور پر ایک جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ اس نظم میں دیہی علاقوں کی کسان لڑکی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ کسان لڑکی کو اس کے غیر آراستہ حسن، سادہ طرزِ زندگی، غیر صحت بخش جاگیردارانہ رسوم و رواج سے آزادی اور محدود سماجی رسومات میں اس کی لذت کے لئے سراہا جاتا ہے۔ اس آزادانہ طرزِ زندگی کے پیش نظر لڑکی کا موازنہ جاگیردارانہ طرزِ زندگی سے کیا جاتا ہے۔ جس نے خواتین کو اپنے گھر کے اندر تک محدود رکھا اور انھیں کھلی فضا میں دروازوں سے باہر زندگی کی صحت مند اور پُر مسرت آزادی سے محروم کردیا۔
مہجورؔ صاحب کی بہترین فنی تخلیقات میں نظم ” وُزمل "بھی اہمیت رکھتی ہے جس میں شاعر آسمانی بجلی کو ایک نازک اور خوبصورت خاتون کے طور پر بیان کرتا ہے۔ نظم ایک ہی وقت میں مختلف پہلوئوں کو بیان کرتی ہے۔ مہجورؔ کشمیری و اُردو سے پہلے فارسی میں مشقِ سخن کرتے تھے اور مختلف النوع کی متعدد نظمیں کہی تھیں۔ انہوں نے ایک طویل نظم ” نالئہ مہجورؔ” مولانا رومیؔ کے رنگ میں لکھی ہے۔ یہ
نظم "حیاتِ رحیم”(مہجورؔ کے مرشد کا تذکرہ)میں شامل ہے۔
اگر ہم مہجورؔ صاحب کی غزل گوئی پر بات کریں تو کشمیری زبان میں آپ کی پہلی ہی غزل نے آپ کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ مہجورؔ صاحب نے ۱۹۲۶ئ کی بہار میں "پوشہِ متہِ جانانو "والی مشہور غزل لکھی ، جس نے ملک الشعراء رابندر ناتھ ٹیگورؔ سے خراج تحسین حاصل کیا۔ مہجورؔ کی کشمیری شاعری رسول میر شاہ آبادی کے تتبع سے شروع ہوئی۔ رسول میر شاہ آبادی کو کشمیری غزلوں کا باوا آدم کہا گیا ہے۔ مہجورؔ خود اعتراف کرتے ہیں کہ:
میر سُند پرون مَس لود نوین بانن
تی کُنن تروو میخانن منز
مہجور ؔ کی غزل کی زبان کی صفائی، برجستگی ، روانی ، بے ساختہ پن ، سوزو گداز اور سادگی میں کشمیر کے تمام غزل گو شعراء سے ممتاز نظر آتی ہے۔ جب مہجورؔ کی غزل نئے ترنم اور ساز کے ساتھ میدان میں آئی ، تو ریاست میں مثنوی خوانی کا مذاج کم ہوتا رہا۔مہجورؔ کے کلام کی سب سے بڑی خوبی فصاحت و بلاغت ہے۔ انھیں غزل کی زبان پر پورا پورا عبور حاصل ہے۔ بلکہ آپ نے اس صنف میں نئے نئے اور لطیف محاورے پیدا کئے ہیں۔ مہجورؔ کی غزل "باغِ نشاط کے گلو، ناز کران کران ولو "نے اپنی شہرت و مقبولیت سے کشمیری زبان کے پھیلوئو میں بہت مدد کی۔ ہر طبقے کے لوگوں کو معلوم ہو ا کہ کشمیری زبان میں بھی شعر و شاعری کے خوب کرشمے دکھانے کی طاقت موجود ہے۔
مہجورؔ صاحب نے شعر وشاعری اور تاریخ نگاری کے سلسلے میںدنیا کی بڑی بڑی ہستیوں سے تعلقات پیدا کئے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی مہجور ؔ کے تعلقات رہے اور کچھ دیر خط و کتابت بھی رہی ۔ مہجورؔ صاحب کشمیری زبان کے بہترین شاعروں میں سے ایک ہونے کے ناطے نہ صرف اپنے ہم وطنوں بلکہ دیگر زبانوں میں لکھنے والوں کی بھی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ مہجورؔ صاحب کی کشمیری زبان و ادب کے لئے نمایاں خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتاہے۔ آپ کی موت کشمیری شاعری اور کشمیری زبان دونوں چیزوں کے لئے بہت بڑا نقصان تھا۔ مہجورؔ کی شاعری آج بھی ہر کشمیری کے لبوں پر ہیں۔ ان کی شاعری کے ذریعے ان کا نام ہمیشہ تابندہ رہے گا۔ بتا اے مسلم کشمیر کبھی سوچا بھی تو نے
تو ہے کس گلشنِ رنگین کا برگ شاخ عریانی
تیرے اسلاف وہ تھے جن کے علم و فضل کے آگے
ادب سے جھکتے تھے دانشورانِ ہند و ایرانی
ڈورو شاہ آباد اننت ناگ
رابطہ:6006795215
٭٭٭