٭پروفیسر مشتاق احمد
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوری نظامِ حکومت ہے وہاں بر سراقتدار سیاسی جماعت کی مدت کار بھی متعین ہے اس لئے جس ملک میں جتنی مدت طے ہے وہاں جب حکومت اپنی مدتِ کار پوری کرتی ہے تو پھر نئی حکومت کے لئے عوام کے حضور میں جاتی ہے اور عوام کے فیصلے کی بنیاد پر نئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ظاہر ہے کہ جمہوریت کی روح عوام ہے اور جمہوریت کی پاسداری کے لئے یہ لازمی ہے کہ تمام تر جمہوری تقاضوں کو پورا کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جمہوری نظامِ حکومت کو عوام کی فلاح وبہبود والی حکومت کہا جاتا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے وطنِ عزیز ہندوستان میں بھی پارلیامانی انتخابات کی مدت طے ہے کہ ہر ایک پانچ سال کے بعد برسر اقتدار پارٹی کو اپنے رائے دہندگان کے حضور میں جانا پڑتا ہے۔ اس بار اپنے ملک میں سات مرحلوں میں اس جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے کا عمل جاری ہے اور اب آخری مرحلہ اختتام کو پہنچ چکا ہے۔اس انتخاب کے نتائج کا نہ صرف اپنے ملک کے تمام شہری کو بلکہ عالمی برادری کو بھی بے صبری سے انتظار ہے ۔انتظار اس لئے نہیں ہے کہ اقتدار میں کون سی سیاسی جماعت آتی ہے اور کس سیاسی جماعت کے منصوبے پر پانی پھرتا ہے۔اس انتخاب کے نتائج کی غیر معمولی اہمیت اس لئے ہے کہ ہندوستان کا یہ پہلا پارلیامانی انتخاب ہے جس میں نہ صرف انتخابی ضابطہ اخلاق بلکہ آئین کی بھی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔ کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی جماعتیں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے طرح طرح کے وعدے کرتی ہیں اور اپنے ارادے بھی ظاہر کرتی ہیں ۔بر سرِ اقتدار جماعت اپنی کارکردگی کی بدولت اپنی واپسی کے لئے کوششیں کرتی ہے اور اپوزیشن حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرتی ہے اور اگر وہ اقتدار میں آتی ہے تو کیا کرے گی اس کا خلاصہ عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔لیکن افسوس صد افسوس کہ اس پارلیامانی انتخاب میں بر سرِ اقتدار جماعت کی طرف سے جس طرح اپنی کارکردگی کو پسِ پشت رکھ کر اشتعال انگیزی اور ملک کے ایک خاص طبقے کے خلاف اکثریت طبقے کے ذہن میں گمرہی پیدا کرنے اور نفرت بھرنے کی دانستہ کوشش ہوئی وہ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب اور کثیر اللسان وتہذیب وتمدن خطۂ امن کے لئے خطرناک ہے۔
بہر کیف! اب پارلیامانی انتخاب کا ساتواں و آخری مرحلہ ختم ہونے کو ہے اور وہ تمام تر نفرت انگیز تقریروں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے مگر اس کے اثرات فوراً زائل ہو جائیں گے یہ ممکن نہیں ہے ۔کیوں کہ بر سراقتدار سیاسی جماعت جس نظریے کی پروردہ ہے اور اس نظریے کے جو علمبردار ہیں وہ انتخابی عمل کے پورا ہونے کے بعد بھی اکثریت طبقے کے درمیان اقلیت مسلم طبقے کے خلاف زہر فشانی کو ترک کردیں گے ایسا شاید نہیں ہوگا کہ پھر آئندہ سال کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور پھر اسی طرح کی ماحول سازی ہوگی۔قابلِ مبارکباد ہیں اس ملک کے اکثریت طبقے کے وہ جیالے جنہو ںنے اپنی کوششوں سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم رکھنے میں دن رات جد وجہد کی اور ملک میں کہیں بھی مسلم اقلیت طبقے کے خلاف ویسی واردات رونما نہیں ہوئی جیسا کہ بر سر اقتدار کے لیڈران اور بالخصوص ہمارے وزیر اعظم اپنی زہر فشانی سے پُر امید تھے۔
جہاں تک اس پارلیامانی انتخاب کی بساط کا سوال ہے تو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی طرح طرح کی سازشیں شروع ہوگئی تھیں تاکہ عوام بر سراقتدار جماعت سے کوئی سوال نہیں کر سکے۔ کسی بھی جمہوری ملک کو استحکام بخشنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس ملک میں انتخابی عمل صاف وشفاف اور سنجیدہ ماحول میں پورا ہو لیکن ایک طرف ہماری قومی میڈیا نے اس انتخابی عمل کو اپنے غیر جمہوری عمل سے متاثر کرنے کی ناکام کوشش کی کہ بر سراقتدار جماعت کے چھوٹے بڑے تمام لیڈروں کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں متواتر انٹرویو شائع ہوتے رہے اور ہر ایک مرحلے کے بعد نئے نئے انٹرویو کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دوسری طرف عین انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ملک میں آئی پی ایل کا آغاز ہوا جس میں نوجوان طبقے کو الجھائے رکھنے کی سوچی سمجھی کوشش کی گئی مگر باوجود اس کے اس انتخاب میں عوام الناس نے اپنے مسائل کو پیشِ نظر رکھ کر خاموش طریقے سے ووٹ ڈال کر یہ ثابت کردیا کہ ہندوستان میں جمہوریت کی جڑیں کتنی مستحکم ہیں ۔واضح ہو کہ انتخاب کے ہر مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد بر سراقتدار پارٹی کا بیانیہ تبدیل ہوتا رہا ۔ پہلے تو انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ’’جو رام کو لائے ہیں انہیں وہ لائیں گے ‘‘ لیکن عوام نے اس جذباتی نعرے کی ہوا نکال دی تو پھر ایک خاص سیاسی جماعت کے مینی فیسٹوپر مسلم لیگی کہہ کر اکثریت طبقے کے ذہن میں زہر بھرنے کی کوشش ہوئی۔لیکن شاید یہ کوشش بھی ناکام ثابت ہوئی اور پھر ملک کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف اکثریت طبقے کو مشتعل کرنے کی غیر اخلاقی اور غیر آئینی کوشش شروع ہوئی ۔اکثریت طبقے کے درمیان یہ غلط فہمی پھیلا نے کی کوشش کی گئی کہ اگر انڈیا اتحاد حکومت میں آتی ہے تو ہندوعورتوں کے منگل سوتر چھینے جائیں گے ، ان کی جائیدار تقسیم کی جائے گی ، ان کے جانور (بھینس) بھی چھین لی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔پھر اگلے مرحلے میں مسلمانوں کے ریزرویشن کے حوالے سے زہر فشانی شروع ہوئی اور آخر تک مسلمان اور پاکستان کے حوالے سے زہر فشانی کی جاتی رہی ۔مگر شکر منائیے کہ اس ملک کی اکثریت نے ان تمام زہر فشانیوں کو محض انتخابی قلا بازی سمجھا اور جمہوریت کی لاج بچائی۔ایک طرف اکثریت طبقے کے جمہوریت پسند عوام نے ملک کی فضا کو سازگار بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تو دوسری طرف اپوزیشن اتحاد نے بھی بر سراقتدار پارٹی کے ہر حربے کو ناکام کیا اور صرف اور صرف بر سر اقتدار پارٹی کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرتے رہے ۔حکومت ہر مرحلے کے بعد اپوزیشن کے جارحانہ ترکی بہ ترکی جواب سے گھرتی چلی گئی بالخصوص کانگریس کے راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی ، راشٹریہ جنتا دل کے تیجسوی یادو ، شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے ، بیجو جنتا دل کے نوین پٹنایک اور سماجوادی کے اکھلیش یادو کے ساتھ ساتھ بایاں محاذ کے لیڈروں نے جس حوصلے اور دلائل سے بر سراقتدار کے تمام لیڈران کی گمرہی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری ،معاشی بد حالی،بر سراقتدار جماعت کی بدعنوانیوں اور بڑے بڑے صنعتی گھرانوں کے ہاتھوں میں ملک کے قدرتی وسائل کو کوری کے مول دینے جیسی تلخ سچائیوں کو اجاگر کیا وہ نہ صرف ان سیاسی جماعتوں کی راہیں ہموار کیں بلکہ ہماری جمہوریت کی صحت کے لئے بھی مفید ثابت ہوں گی۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ قومی جمہوری اتحاد میں رہتے ہوئے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور آندھرا پردیش میںچندرا بابو نائیڈو نے اپنی تمام تقریروں میں صرف اور صرف اپنے کاموں کے بدلے میں ووٹ دینے کی اپیل کرتے رہے ۔ نتیش کمار نے وزیر اعظم کی موجودگی میں بھی ہندو مسلمان اتحاد اور ریاست میں ترقیاتی کاموں کو ہی اپنی تقریر کا محور ومرکز بنائے رکھا ، یہ قابلِ تحسین ہے ۔ورنہ جس طرح اس انتخاب میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور قومی میڈیا کے ذریعہ گمرہی پھیلائی گئی اگر اپوزیشن اتحاد اور اکثریت طبقے کے جمہوریت پسند عوام صف بند نہیں ہوتے تو ہمارے قومی اتحاد کو بڑا خسارہ ہوسکتا تھا۔اس انتخاب میں اخلاقیات کی پامالی کس طرح ہوئی ہے وہ جگ ظاہر ہے کہ کولکاتا ہائی کورٹ کو ایک اخباری اشتہار کے خلاف حکم صادر کرنا پڑا اور عدالت عظمیٰ نے بھی کولکاتا ہائی کورٹ کے فاضل جج کے فیصلے کو برقراررکھا کہ بر سراقتدار سیاسی جماعت کی طرف سے ممتابنرجی کے خلاف جس طرح کا اشتہار شائع کیا گیا تھا وہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ ایک مہذب سماج کے لئے بھی مضر ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک کا انتخابی کمیشن تمام تر آئینی اور اخلاقی تقاضوں کی پامالی کا تماشہ بیں رہا اور نتیجہ ہے کہ انتخابی کمیشن کے تئیں طرح طرح کی آرا عام ہوگئی ہے اور انتخابی نتائج کے متعلق بھی طرح طرح کے اندیشے ظاہر ہونے لگے ہیں۔
بہر کیف! اس پارلیامانی انتخاب کے نتائج جو بھی ہوں مگر اس انتخاب میں ملک کے جمہوریت پسند عوام اور اپوزیشن اتحاد نے جس طرح تمام تر مالی پریشانیوں اور آئینی اداروں کی یک طرفہ کاروائی کے باوجود ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنائے رکھنے اور بر سراقتدار پارٹی کو ہر ایک مرحلے کے بعد بدلتی شطرنجی چالوں کو ناکام کرنے کا جو حوصلہ دکھایا اور عوام کے سامنے ملک کی حقیقی تصویر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی وہ ہماری جمہوریت کے تحفظ کے لئے ضروری تھا۔اپوزیشن اتحاد کی کوششیں کیا رنگ لائیں گی اس کے متعلق ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اپوزیشن اتحاد کے لئے اتنا توکہا ہی جا سکتا ہے ، بقول میرؔ ؎
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
جب کہ بر سر اقتدار پارٹی جس طرح ہر ایک مرحلے کے بعد اپنا سیاسی موقف اور بیانیہ تبدیل کرتا رہا عوام الناس کے سامنے اپنی دس سالہ کارکردگی کا احتسابی جائزہ پیش کرنے میں ناکام رہا اور ملک میں جس طرح زہر فشانی کے ذریعہ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا وہ نہ صرف ہندوستان کی انتخابی تاریخ کا ایک سیاہ باب ثابت ہوگا بلکہ پوری دنیا میں ہماری جمہوریت کی جو صاف وشفاف شبیہ ہے اس کو بھی خسارہ عظیم پہنچائے گا ۔جس طرح پہلے مرحلے سے لے کر آخری مرحلے تک بر سراقتدار جماعت اپنے سیاسی بیانیے میں تبدیلی کرتا رہا اس کے متعلق بقول غالبؔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتاہوں کہ جائوں کدھر کو میں
٭٭