بدلتے ماحول میں آزادی کے معنی!

0
0

 

پروفیسر ( ڈاکٹر ) نسرین بیگم علیگ

ہم ہر سال ۱۵ اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں ۔یہ دن ہم سب کے لئے بہت اہم ہے ۔ہم اپنے شہیدوں اور ان تمام لوگوں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرکے ان ظالم حکمرانوں کے پنجوں سے ہمیں آزاد کرایا ۔اور ہم دوسو سال کی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے ۔آزادی کے پچہتر سال پورے ہونے پر ہم سب نے ہندوستان کی آزادی کی پچہتر ویں سالگرہ پر آزادی کا امرت مہوتسو جوش و خروش کے ساتھ منایا ۔
آزادی کو حاصل کرنے کے لئیجن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کی اپنی ایک لمبی داستان ہے ۔اور یہ داستان ۱۸۵۷ء سے ہی شروعہوتی ہے ۔اور یہیں سے آزادی کی پہلی جنگ کی ابتدا ء بھی ہوئی ۔اس پہلی جنگ میں ہم ناکام ہوئے ،مگر اس شکست نے ہمارے اندر جوش اور حوصلہ پیدا کیا ۔اور ہم مضبوط اردے کے ساتھ آگے بڑھے۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بوڑھے ہو چلے تھے مگر ان کے حوصلے بلند تھے ۔ظالم انگریزوں سے مقابلی کرنے کی ہمت رکھتے تھے ۔انگریزوں سے مقابلہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بیٹوں کا سر کاٹ کر ان کے سامنے لایا گیا مگر انہوں نے اف تک نہ کیا ۔اور انہیں قید کرکے میانمار کے شہر رنگون بیج دیا گیا ۔وہیں ان کا انتقال ہوا ۔افسوس اپنے وطن ہندوستان میں دو گز زمین کی خواہش پوری نہ ہوسکی ؎
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی مل نی سکی کوئے یار میں
شہید اعظم بھگت سنگھجنہوں نے اپنے وطن ہ،ندوستان کی آزادی کے لئے پھانسی کے پھندے پر چڑھ جانا قبول کیا مگر انگریزوں کے سامنے نہ جھکے ۔ان سے معافی نہیں مانگی ع
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
اشفاق اللہ خاں نے آزادی کے لئے اپنی جان قربان کر دی ۔مولانا حسرتؔموہانی جنہوں نے مکمل آزادی اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا ۔اس نعرے نے لوگوں میں جوش بھرنے کا کام کیا ۔وہ ھندوستان کو آزاد کرانے کے لئے بار بار جیل گئے جیل میں سخت سزا ملی ۔یہاں تک کہ انہیں چکی پیسنی پڑی ۔مگر وہ ہمت نہیں ہارے ۔
شیر میسور ٹیپو سلطان ،حکیم اجمل خاں ،مولوی لیاقت علی ،مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا فضل حق خیرآبادی ،منگل
پانڈے ،تاتیہ ٹوپے ،یوسف مہر علی جنہوں نے بھارت چھوڑو کا نعرہ دیا ،جے ہند کا نعرہ دینے والے عابد حسین صفرانی ،مولانا شوکت علی ،
مولانا محمد علی جوہر ( علی برادران ) کے کارناموں سے کونواقف نہیں ہے ۔اپنے ملک ہندوستان کے لئے انگریزوں کے ظلم کا شکار ہونے والے ہنستے ہنستے سولی پر چڑھنے والے لاکھوں لوگوں نے جیل کی اندھیری کوٹھریوں کو آباد کیا ۔ان میں عظیم اللہ خاںبدرودالدین طیب جی ،رحمت اللہ ایم سیانی ،سیف الدین کچلو ،ڈاکٹر مختار انصاری،مولانا ابوالکلام آزاد ؔ،آسف علی برکت اللہ بھوپالی ،رام پرساد بسمل ،چندر شیکھر آزاد،سبھاش چندر بوس ،،مہاتما گاندھی ،پنڈت جوہر لال نہرو ،لالہ لاجپت رائے ،ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر ،سردار بلبھ بھائی پٹیل کے نام قابل ذکر ہیں ۔
ہندوستان کی آزادی خواتین کے بغیر تو ممکن نہیں تھی ۔ان میں بیگم حضرت محل ،جانسی کی رانی ،اینی بیسنٹ،عزیزن بائی ،سبز پوش خواتین ،کستوربا گاندھی ،سروجنی نائڈو ،کملا دیوی چٹوپادھیائے ،وجے لکشمی پنڈت ،ارونا آصف علی اور آزاد ہند فوج کی لکشمی بائی ریجیمنٹ کی ڈاکٹر لکشمی سہگل ،اوشا مہتا ،بھیکا جی کاما،جانکی دیوی بجاج ،تارکیشوری سنہا ،سرلا دیوی چوڈھرانی ،ہزارہ بیگم ۔آبادی بانو بیگم،انا پورنا مہا رانا ،زلیخا بیگم ،نشاطالنساء بیگم نے سچے جذبے اور بے باک حوصلے کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ میں برابر شامل رہیں ۔اپنے وطن سے ان کی بے لوث محبت رنگ لائی اور ہمارا ملک آزاد ہوا ؎
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لیا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
آج کے بدلتے ماحول میں آزادی کے کیا معنی ہیں ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے ۔اس سوال کا جواب بھی ہمیں کو دینا ہے ۔ہم یہ محسوس کریں کہ کیا ہماری ذمہ داری بس اتنی ہی ہے کہ ہم آزادی کے دن صرف پرچم کشائی کر لیں ۔یہاں ہمیں تھوڑا رک کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اور آپ کو غور کرنا ہوگا کہ بدلتے ماحول میں آزادی کے کیا معنی رہ گئے ہیں۔جس مقصد کے لئے ہمارے رہنمائوں نے انگریزوں کے ظلم سہے اور گالیں کھائیں تھیں ۔آنکھوں میں ہندوستان کے بہتر مستقبل کے خواب سجائے تھے ۔اور اس خواب کو پورا کرنے کے لئیاپنا سب کچھ قربان کردیا ۔اور وطن کی حفاظت کے لئے شہید ہوگئے۔کیا وہ مقاصد آج پورے ہو رہے ہیں ؟
اگر نہیں تو اس کے لئے ہم کس حد تک ذمہ دار ہیں ۔کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ؟
اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑ تی ہوں ۔وطن سے محبت ہے تو جواب دینا ہی ہوگا ۔
مہاتما گاندھی ستیہ اور اہنسا پر چل کر ہر مذب وملت کے لوگوں کو ایک ساتھ لے کر چلے ۔انہوں نے اتحاد اور بھائی چارے کے ساتھ مل کر ہندوستان کو آزاد کرایا ۔یہاں ایک اور سوال جواب چاہتا ہے کہ کیا اگر ہم بکھرے ہوتے مذہب اور ہندو مسلمان کر رہے ہوتے تو ہمارا ملک آزاد ہوجاتا ۔ہرگز نہیں ۔تو سوچئے آج آزادی کے کیا معنی رہ گئے ۔
آزادی کے پچہتر سال پورے ہونے پر آزادی کا امرت مہوتسو گاندھی جی کی ڈانڈی یاترا کے دن سے شروع کیا گیا یھا ۔گاندھی جی کی اس یاترا نے آزادی کی جدوجہد کو عوام کے لئے ایک نئی تحریک سے جوڑا تھا ۔یہ تاریخی لمحہ تھا ۔اس لئے کہ باپو کی ڈانڈی یاترا میں آزادی کے عزم کے ساتھ ساتھ بھارت کے مزاج اور ہندوستان کی تہذیب بھی شامل ہے ۔
ہمارے یہاں نمک کے معنی ہیں ایمانداری ،ہمارے یہاں نمک کا مطلب ہے وفاداری ۔اور ہم جانتے ہیں کہ نمک تحریک ہر ہندوستانی کی تحریک بن گئی تھی ۔آج اس تحریک کو دسوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔آج ہر ہندوستانی پر یہ قرض ہے کہ ملک کو تباہ وبرباد کرنے والی طاقتوں کے ناپاک ارادوں کو سمجھیں ۔ورنہ اب لوگوں میں قربانی کا وہ جذبہ کہاں ؟
اس ملک کی ترقی اور خوشحالی جبھی ممکن ہے جب یہ ملک مختلف پھولوں کا مہکتا گلدستہ بنا رہے ۔ملک کے عوام بھی یہی چاہتے ہیںکہ آزادی کا جشن صرف ترنگا لہرانے تک ہی محدود ہوکر نہ رہ جائے ۔بلکہ ملک کا ہر انسان آزاف فضا میں سانس لے ۔
اپنی دل کی بات کہنے میں ڈر نہ محسوس کرے ۔اور یہی ڈر ہمارے ملک کو کمزور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ہمارا ملک سارے جہان سے اچھا ہے ۔اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے ۔ علامی اقبالؔ کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
ہمارا ملک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ۔یہاں ہر مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں ۔یہی ہمارے ملک ہندوستان کی خا صیت ہے ۔آج ہمیں آزادی کے معنی کو سمجھنا ہوگا ۔ان شہیدوں کی قربانی کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ ملک کے لئے قربان کردیا ۔اپنے نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کو ان شہیدوں کی قربانیوں کو بتانا ہوگا ۔اور ان نوجوانوں کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ یہ آزادی جس ہم سب آج کھلی سانس لے رہے ہیں ،بہت قیمتی ہے ۔اس میں ہر مذہب و ملت کا خون شامل ہے ۔اس کی حفاظت ،اس کی خوبصورتی ،آپسی میل جول باقی رکھنا ہے تو اتحاد کو قائم رکھنا بیحد ضروری ہے اور اگر ہم اب بھی نہ سمجھے ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اس لئے ضروری ہے کہ اس خوبصورت ملک سے نفرت کو ختم کریں ۔نفرت ہمیں تباہی کی ترف لے جائے گی ۔یہ ملک ہمسب کا ہے ۔ہم سب نے ملکر اسے سینچاہے ۔اس لئے آپسی بھید بھائو ،نفرت ،ظلم و زیادتی ،تنگ نظری ،جہالت اور غریبی سے نجات دلانا ہوگا ۔تبھی آزادی کے ۷۵ سال کے جشن کے امرت مہوتسو کے ساتھ ہم انصاف کر پائیں گے ۔ورنہ جھوٹے نعروںسے کچھ فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔اس لئے بدلتے ماحول میں ہمیں آزادی کی اہمیت کو سمجھنا ہاگا ۔
اور اپنے ملک کو طاقتور اور مضبوط بنانے کے لئے صرف اور صرف پیار ہی ایک راستہ ہے ۔اور یہ راستہ سب سے آسان بھی ہے اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ؎
جشن آزادی حقیقت میں منانے کے لئے پیار کا دیپ ، ہر اک دل میں جلانا ہوگا
صدرشعبہ اردو بیکنٹی دیوی کنیا مہا ودیالیہ ،آگرہ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا