ذوالفقار علی بخاری
آپ نے کئی بار سنا ہوگا کہ’’ادب روبہ زوال ہے۔‘‘
راقم السطور نے اِس حوالے سے معلومات حاصل کیں تو یہ معلوم ہوا کہ ہر بیس تیس سال بعد ایسا کہنے والے کہیں نہ کہیں سے منظرعام پر آتے ہیں پھرایک طویل خاموشی چھائی رہتی ہے اوربعدازاں کوئی آکر اس بحث کو چھیڑ دیتا ہے کہ ادب زوال پذیری کی جانب گامزن ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کیا معیاری تخلیقات کا منظرعام پر آنا ، نئے شعرائ، افسانہ نگار وں کا ادب سے وابستہ ہونا،سرکاری و نجی اداروں سے لاکھوں روپے کے ایوارڈزاوراسنادادیبوں کو ملنا اورنئے قارئین(محدود تعداد میں ہی سہی)کا ادب سے جڑنا زوال پذیری کی نشانی ہے۔ نئی تخلیقات اورنئے ادیبوں کی آمد کئی قارئین کے جنم کا سبب بنتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ ادب زوال پذیری کا شکار ہے۔ آپ صرف اِس وجہ سے زوال کی بات نہیں کر سکتے ہیں کہ مطالعہ کرنے والوں کی شرح کم تر ہو رہی ہے ۔ چند لمحوں کے لیے بالفرض یہ سمجھ لیا جائے کہ معیاری تخلیقات کا فقدان ہے تو اِس میں قصور کن کا ہے جس کی وجہ سے معیاری ادب کی تخلیق میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگرمطالعے کی شرح میں کمی ہو رہی ہے تو اُس کی کئی سنگین وجوہات ہیں ۔یہ کسی ادیب کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ قارئین کو زور زبردستی سے مطالعے کی جانب راغب کرے یا انھیں کتب کی خریداری پر مائل کرے۔ادیبوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کچھ ایسا متاثرکن اورمعیاری لکھیں کہ اُس کی اثرپذیری لوگوں میں تحلیل ہو جائے اور وہ بہترین معاشرہ قائم کرنے پر آمادہ ہوں۔آپ محض مطالعے میں کمی ، نئے ادیبوں کے فقدان یا غیرمعیاری ادب کی شرح کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہ سکتے ہیں کہ ادب زوال کا شکار ہوچکا ہے۔اچھا اوربُرا ادب ہر دورمیں لکھا جاتا رہا ہے اورآیندہ بھی ایسا ہوگا۔اس لیے ہمیں بطور ادیب ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے جن سے لوگوں میں یہ احساس ہو کہ کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے ۔اگر منفی سوچ پیدا کی گئی تو پھر رفتہ رفتہ لوگ ادب سے دور ہو جائیں گے۔ لیکن ادب کی اثرپذیری کو دیکھا جائے تویہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب ہر دور میں اپنی اثرپذیری کو قائم رکھتا ہے۔بقول مبین مرزا’’ ہمیں اس حقیقت کو قطعیت کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے کہ جس معاشرے میں ادب مرجاتا ہے، اس میں پھر تہذیب بھی زندہ نہیں رہتی، مادے اور جسم سے ماورا حقائق کا شعور بھی باقی نہیں رہتا اور اخلاقی و روحانی اقدار کا نظام بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘
ادب لکھنے والوں کوجس معاشرے میں بھرپور عزت افزائی نہ مل رہی ہو، اُن کے لکھے پر تنقید کی جا رہی ہواورانھیں باغی یا فحش نگار قرار دیا جاتا رہا ہو ،اُس معاشرے میں کیسے کچھ بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں جو کچھ عیاں کیا ۔اُن کے بعد کسی اورکی جرات نہیں ہوئی کہ وہ کڑوی سچائی کو عیاں کر سکے۔سعادت حسن منٹو کو کوئی سمجھ نہیں سکا کہ اُن کے سامنے کتنا عظیم مقصد تھا جس کے حصول کے لیے انھوں نے سب کچھ برداشت کیا اورمقدمات کا بھی سامنا کیا ۔آج معاشرے میں اُن کے افسانوں سے زیادہ غلاظت چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے ۔ہم نے اُن کے چند افسانوں کو فحش نگاری قرار دے کر اُن کو حقیقی مقام دینے سے گریز کیا لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ عظیم ترین ادیبوں کی فہرست میں نمایاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔کیا منٹو کا لکھا معاشرے کی حقیقی عکاسی نہیں کرتا تھا؟منٹو کے لکھے کو ایک خاص دور میں جیسے کیسے قبول کرلیا گیا لیکن کیا ہم وہ کڑوی سچائی تسلیم کرسکتے ہیں جو انھوں نے پیش کی؟ہم نئے لکھنے والوں کے معیار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اُن معیاری لکھنے والے ادیبوں کو کچھ نہیں کہتے ہیں جو سچائی کو محض اس لیے بیان نہیں کرتے کہ اپنے مفادات کو کہیں زک نہ پہنچ جائے ۔کیا ادب کا زوال معاشرے کی تباہی سے زیادہ نقصان دہ ہے؟کیا ادیبوں کی آپس کی چپقلش زوال کی نشانیوں میں سے ایک نہیں ہے؟
جو احباب کہتے ہیں کہ ادب زوال پذیری کا شکار ہے۔انھیں سعادت حسن منٹو اورچند دیگر ادیبوں کے’’ زندہ و جاوید‘‘ تخلیقات کی اثر پذیری ہر دور میں محسوس ہو گی جو ایک بھرپور چیخ بھی ہے کہ ادب کبھی زوال پذیر نہیں ہو سکتا ہے کہ ادب لکھے جانے کا حقیقی مقصد کچھ اور ہے۔ادب زوال پذیری میں اور زمانہ عروج میں بھی بدترین اور اعلیٰ پیمانے کا منظرعام پر آسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ناقدین نے جن کتب کو قابل تعریف نہیں سمجھا، انھیں بعدازاں بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔مبین مرزا اپنے مضمون ’’ادب کا زوال اور ہم‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جہاں بھی ہمارے یہاں لائقِ قدر کام ہورہا ہے، ہمیں اس کی بھر پور پذیرائی کرنی چاہیے۔ منفی احساسات بھی زندگی کا حصہ ہیں لیکن ہمیں تا دیر ان کے زیرِ اثر نہیں رہنا چاہیے اور ان کے پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ مثبت رویوں کی پاس داری ضروری ہے تاکہ یقین و ثبات کے احساس کو فروغ حاصل ہو۔ ہمارا عصری ادب ہماری تہذیبی اقدار کا آئینہ دار اور ہمارے زندہ و فعال شعور و احساس کا ترجمان ہے۔ نئی نسل کے جو لوگ ادب و تہذیب کی بقا اور استحکام کے لیے متانت کے سا تھ کام کررہے ہیں، وہ بھی اسی طرح قابلِ قدر ہیں جیسے ان سے پچھلی نسلوں کے لوگ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنے ادب و تہذیب کی طرف سے آج ہماری بے اعتنائی یا اس کی بے مائیگی کے احساس کا فروغ نادانستگی میں ہمیں تہذیب دشمن قوتوں کا آلہ کار بنا دے گا۔‘‘
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جب ہم منفی سوچ کے حامل ہو جائیں اور یہ سوچ لیں کہ ایک خاص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں یاہم دوسروں کے مقابلے میںخود کو کم تر سمجھنا شروع ہوتے ہیں تو پھر ایسے میں خود پسندی کے لبادے میں خود کو محفوظ کرتے ہوئے ادب کے زوال پذیر ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ درحقیقت جنھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اب اُن کے لکھے کو کچھ اور بے معنی کرکے رکھ دیں گے تو وہ اپنے دور میں ادب کے زوال پذیری ہونے کا اعلان کرتے ہیں تاکہ کسی اورکا معیاری ترین ادب اہمیت کا حامل قرار نہ پا سکے اورکسی کے ملنے والے جائز مقام کو جھٹلایا جا سکے۔کیا زمانہ عروج میں ادب غیر معیاری نہیں لکھا جاتا تھا؟ حیران کن طور پر جس دور میں چند مخصوص نامور ادیبوں کا راج قائم ہوجائے اُسے مقبول ترین کہا جاتا ہے اورماضی کو یاد کرتے کرتے حال کو فراموش کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک منفی نظریے کو پیش کرنے کے بعد کتنے حساس ادیبوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچ جائے گی۔حقیقت تو یہ ہے کہ زوال پذیری کا اعلان کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی دور میں جب شکوہ کیا جا رہا ہوتا ہے تو بہترین ادب بھی منظرعام پر آرہا ہوتا ہے اورادب کسی نہ کسی طور پھلتا پھولتا ہے۔ادب اگر بدترین بھی سامنے آتا ہے تو وہ کچھ عرصہ بعد فراموش ہو جاتا ہے جب کہ معیاری اوراعلیٰ ادب مستقبل میں بھی اذہان مسخر کرتا رہتا ہے یعنی زوال پذیری ہو یا پھر عروج وہ اپنے ہر دور میں اثرانگیزی کو برقرار رکھ کر یہ اعلان کرتا ہے کہ اُسے زوال نہیں آسکتا ہے ۔بہرحال، ہمیں بطور ادیب ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادب کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے اورمنفی طرز عمل یا منفیت سے بھرپورسوچ کا کھلے عام اظہار کرنے والوں کو نظر اندا ز کرنا چاہیے تاکہ ادب کے فروغ کے لیے بھرپور انداز میں سرگرمیاں جار ی رکھی جا سکیں۔جنھیں زوال پذیری کا نعرہ بلند کر کے اپنی شناخت کروانی ہے اُسے موقع ضرور دیا جانا چاہیے تاکہ حق و باطل کا فیصلہ ہو سکے۔
۔ختم شد۔