’’محترمہ بیگم صوفیہ کمال ‘‘ شاعرہ‘ ادیبہ ‘حقوق نسواں و سماجی کارکن

0
0

 

ڈاکٹر جی ایم پٹیل 9822031031

بیگم صافیہ کمال بنگلہ دیشی مصنفہ ،شاعرہ اور کارکن تھیں۔محبت سے آپ ’ ’ خالہ ماں‘‘ کے نام سے مشہور تھیں ۔صوفیہ کمال کو بنگلہ دیش کی ادبی ،سماجی تاریخ میں حقوق نسواں ،قوم پرستی اور فرقہ پرستی پر اشتعال انگیز تحریر کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا۔اس دور میں لڑکیوں پر تعلیم حاصل کرنے کی پابندیاں تھیں ،تب صوفیہ نے اپنی ابتدائی رسمی تعلیم اردو میں حاصل کرتی رہیں۔ لیکن اپنی والدہ سے خفیہ طور پر بنگالی لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا اور جراٌت مند صوفیہ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے لڑکوں کے مردانہ لباس میں زیب تن چلی جاتیں۔اپنے ثقافتی ،تعلیم نسوان اپنے کام کی بدولت جنوبی ایشیا میں خواتین کو با اختیار بناے کے علامت بن گئیں۔
بیگم صوفیہ کمال ۲۰ جون ۱۹۱۱ کو بنگلہ دیش کے شہر باریسال میں ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئیں۔آپ کی والدہ محترمہ صابرہ بیگم ایک معروف سماجی کارکن تھیں اور آپ کے والد محترم سید عبدالباری ایک معروف وکیل تھے۔آپ کا آبائی خاندان جو ’برہمن باریا ‘ میں ’ شیلور ‘ کے زمیندار تھے۔ان کا سلسلہ نسب الاسلام کے چوتھے خلیفہ علی سے ملتا ہے۔آپ نے سات سال کی معصوم عمر میں بالکل مختلف راستہ اختیار کرسکتی تھیں ،یہ اس وقت ممکن تھا جب آپ کے والد جو کہ تصوف کی گہری وابستگی رکھتے تھے،والد محترم نے اپنی ملازت چھوڑ دی اور روحانی روش خیال کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ دیا اور کبھی واپس نہیں آئے۔صوفیہ کی پرورش آپ کی والدہ محترمہ صابرہ بیگم نے جو کہ’ نواب میر اعظم حسین ‘ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ،شائست آباد میں تھیں۔محدود اختیارات کی وجہ سے ،آپ کی والدہ نحترمہ کے پاس دو چھوٹے بچوں کے ساتھ ’ ماریسال ‘ میں شائستہ آباد میں اپنے والدین کی رہائش گاہ پر منتقل ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔تاہم ایک وسیع لائبریری کے ساتھ ایک عظیم گھر میں رہنے والے خاندان کے باوجود لڑکیوں کے لئے مذہبی کتابوں کے علاوہ کسی بھی چیز کا مطالعہ کرنا نا قابل قبول سمجھا جاتا تھا۔
آپ کی تعلیم مقامی مکتب سے شروع ہوئی ،جہان آپ نے عربی سیکھا اور وقت کے ساتھ ساتھ ثقافتی رسم و روج کے مطابق اپنی ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی جہاں مدرس نے آپ کو انگریزی ،اُردو فارسی کی تعلیم دی۔حالانکہ گھر میں اُردو بولی جاتی تھی لیکن صوفیہ نے اپنی والدہ ، صابرہ بیگم صاحبہ سے بنگالی لکھنا پڑھنا سیکھا۔تاہم اس وقت مروجہ سماجی اُصولوں اور خواتین کی تعلیم کے محدود مواقع کی وجہ سے آپ پرائمری سطح سے آگے رسمی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہیں ۔صفیہ کمال نے وسیع مطالعہ اور ادبی حلقوں کے ساتھ مشغولیت کے ذریعے خود کی تعلیم کو جاری رکھااور یہی خود مطالعہ اور تعلیم کی شدید تشنائی نے آپ کو قابل شاعر بننے کا موقع عطا کیا ۔آپ نے مختلف سماجی مسائل ،حقوق نسواں ،اور بنگلہ دیش کی آزادی میں جد و جہد کی۔صوفیہ کمال نے حقوقِ نسواں سے اپنی تحریر و تحریک کا آغاز کیا۔اس وقت کے سماجی اور سیاسی مشکلات کے باوجود ادب اور ثقافت سے اپنی محبت کو جاری رکھا اور ایک ممتا ز شاعرہ ،مصنفہ اور ثقافتی کارکن طور پر متحرک رہیں۔
حقوق نسواں کے نظریات آپ کے ادبی تحریک کا سلگتا ہوا مضمون آغاز ہی قارئین میں انقلابی تپش تیز کردی۔ ۱۹۲۳ کوآپ نے پہلی کہانی ’’ سینک ودھو‘‘( سپاہی دلہن ) کے عنوان سے شائع کی جس میں خواتین کو با اختیار بنا نے کے اسباب کی عکاسی کی گئی ہے جس پر آپ بے حد جذباتی یقین رکھتی تھیںاور اسکی وکالت بھی کرتی تھیں۔ آپ نے اپنی ابتدائی مجموعہ کلام ’ سانجھریا ‘‘ کی اشاعت کے بعد ایک شاعرہ کی طور مشہور ہوئیں ۔بعد از اں ’’ کیار کانتا‘‘ افسانوں کا مجموعہ جاری کیا۔معروف قومی شاعر محترم ’ رابندر ناتھ ٹیگور ‘ اور باغی قومی شاعر و مصنف ’قاضی نذرلاسلام‘ نے صوفیہ کمال کو مصنفہ اور شاعرہ کے طور پر قبول کیااور آپ کی تحریر و کلام کو بے حد سراہا۔ ۴۷ ۱۹ میں حقوق نسواں و خواتین کے مسائل سے مختص ایک ہفتہ وار رسالہ ’’ بیگم ‘‘ جسے محمد ناصرالدین شاہ نے شائع کیا اور آپ نے بطور پہلی مدیرہ کا کردارنبھایا۔اکتوبر ۱۹۴۷ میں تقسم ہند کے بعد صوفیہ ڈھاکہ بنگلہ دیش منتقل ہوئیں اور مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی کے دوران ’’ امن کمیٹی ‘ کا انعقاد کیا ،دوستی ،امن ،ہم آہنگی کو فعال طور پر فروغ دیا۔۱۹۴۸ میں جب ’ مشرقی پاکستان ‘ محلہ کمیٹی قائم ہوئی تو آپ بطور ’صدر‘ ے عہدے پر فائز رہیں۔آپ نے مسلسل اپنے ارد گرد سے عناصر اٹھائیں اور انہیں اپنی نظموں میں شامل کیا ۔آساں سلیس زباں، موثر جذبات کی عکاسی ، بہترین و خوبصورت منظر کشی ، جاذب اندازِ میں لکھی نظموں کو ،اپنے چاہنے والے متعدد قارئین کے حوالے کیا اور ان سے داد و تحسین حاصل کی ۔ در حقیقت آپ وہ اوّل مسلم خاتون تھیں جنہوں نے رسالوں میں خواتین کی داستاں بہ تصاویر شائع کرنے کی جرأت کی اورباقاعدگی سے ’’ سَواگت ‘‘ رسالہ کو ایک نیا انقلابی رُ خ دیا۔آپ مقامی قومی حکام کی شدید مخالفت کی۔تعلیم نسواں کی
تڑپ ، ہمدردی اور تعلیمی بیداری کو دیکھتی ہوئیں خواتین طالبات نے بھی جرأت مندانہ اقدام کے ساتھ مساوی حقوق کا مشعل ِ راہ اختیار کی اور آپ کی قیادت میں
’’ مہیلا پریشد ‘‘ کی تشکیل میں بڑھ چل کر حصہ لیا ۔اپنے اظہار میں بے باک ،شعلہ بیاں ، ’’ ایوب خان‘‘ جیسے زمانہ بد نام فوجی آمر بھی آپ کے یقین کی متزلزل نہ کرسکا۔آپ نے فوجی حکومت کے جبر کے خلاف سختی سے لکھا ۔آپ آزادی کے جنگجوؤں کی خفیہ مدد کرتی رہیں اور اپنی دو بیٹیوں کو بھی جنگ میں شامل کیا۔آپ نے بنگالی تاریخ کے بیانئے کو درست کرنے کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کو احساس کیا اور جنگ کے واقعیات اپنی یاد داشوں ،’’ یکتا ویرر ڈائری ‘‘ ۱۹۸۹ میں دستاویزی شکل دی۔ جس میں بنگلہ دیش کی آزادی کے پس منظر مین شروع سے آخر تک تمام واقعیات کا احاطہ کیا ۔۱۹۷۱ کے قتل عام کا ذکر بھی ہے۔
آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خواتین کے حقوق کے بہتر بنانے کے لئے وقف کر دیں اور ایک طویل عرصہ تک بنگلہ دیش میں خواتین کی سب سے بڑی تنظیم مہیلال پریشد‘‘ کی قیادت کی۔صوفیہ کمال کو ایک دیندار مذہبی خاتون کو مذہبی انتہا پسند گروپ ’ حرکت الجہاد‘ نے نشانہ بنایا اور ۱۹۹۳ میں انہیں انتہا پسندوں نے آپ کو وطن کو نقصان پہنچانے والے لوکوں کی سیاہ فہرست میں ڈال دیا۔۲۰ ویں صدی کے اوائل میں جنوبی ایشاء کے ایک عام رواج کے مطابق صوفیہ کمال کی پہلی شادی ۱۱ سال کی عمر میں آپ کے چچا زاد بھائی ’ سید نہال حسین ‘ سے ہوئی جو اس وقت قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ان دونوں کی ایک بیٹی ’آمینہ کہنر‘تھی۔ تاہم جس طرح اآپ ایک مصنفہ اور سماجی کارکن تھیں ،آپکی زندگی نے ایک اور ڈرامائی موڑ لیا۔۱۹۳۲ کوسید نہال حسین احمد کا تپ دق سے انتقال ہوا اور اس کے فوراََ بعد آپ کے دادا ،دادی کی شاندار انمول جائیداد سیلاب سے تباہ ہوگئی۔ ۲۱ سال کی چھوٹی سی عمر میں آپ ایک بیوہ کی صورت چھ سالہ آمینہ کو لئے کلکتہ منتقل ہونے پر مجبور پایا۔رسمی تعلیم کی کمی اور سنگین حالات کا سامنا کرنے کے باوجود آپ نے ایک جرأت عقل مندانہ انتخاب کیااور کلکتہ میونسپل کارپوریشن میں صرف ۵۰ روپئے ماہانہ کی معمولی تنخواہ کے ساتھ اسکول ٹیچر بن گئیں۔کلکتہ میں ’’ بیگم روقیہ ‘‘ سے اور ۱۹۲۵ میں گاندھی جی سے ملاقات ہوئی جس نے آپ میں خوب تبدیلیاں لے آئیں اور صوفیہ کلام نے ایک سادہ سفید لباس میں ملبوس ،سادہ مزاج میں معاشرے سے روبرو ہوئیں۔تاہم سال ہی میں قدامت پسند معاشرے نے آپ کے ان اقدامات کی شدید مخالفت کی ۔یہاں تک کہ آپ کے اپنے خاندان نے بھی ادبی شخصیات کے ساتھ قریبی رفاقت کو عوامی طور پر ناپسند کیا۔ لیکن آپ نے ہار نہیں مانی ، انہیں سماجی عدم توازن کے خلاف لڑنے کی قسم کھائی اور ان کے خلاف انقلابی تحریک جاری رکھیں ۔گر بغور مطالعہ کیا جائے تو آپکی شاعری آپکی ذاتی جدوجہد اور آپ کے مستحکم یقین دونوں کی عکاسی ہے۔پہلے شوہر کی موت کے پانچ سال بعد آپ نے ’ کمال الدین خان صاحب‘ سے دوسری شادی کرلی،جو ترقی پسند اور تعلیم یافتہ ایک با وقار شریف نوجوان تھے ،جنہوں نے ادب اور سماجی سرگرمیوں میں صوفیہ کمال کی ادبی کوششوں کی پر جوش حمایت کی۔ اس شادی کے بعد آپ ’’ صوفیہ کمال ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔اس ازداجی زندگی میں ’ سلطانہ کمال ‘ اور ’ سیدہ کمال ‘ نامی دو اضافی بیٹیوں کے ساتھ ’ شاہد کمال‘ اور ’ساجد کمال‘ کے نام دو بیٹوں کو جنم دیا۔ آپ کے خاوند کمال الدین احمد خان مصنف ، مترجم اور وہ ’’ بلبل ادبی گروپ ‘‘ میں ایک نمایاں مقام پر قائز تھے ،جس میں حبیب اللہ بَہار چودھری ، شمس سنہر محمود‘ اور ’ ایم جاویدعلی ‘ جیسے قابل ذکر ارکان شامل تھے۔
زندگی آخری ایام میں بڑھاپے سے منسلک بیماریوںکی وجہ سے اسپتال میں داخل رہیں۔آپ ۸۸ سال تک حیات رہیں اور ۲۰ نومبر ۱۹۹۹ کو انتقال کرگئیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ سرکاری طور پر آخری رسومات ادا کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔اگرچہ معمولی جنازے کی خواہش رکھتی تھیں لیکن جنازے میں قریب دس پزار سے زیادہ لوگ شامل رہے اور خراج تحسین پیش کی ۔آپ کی تدفین کی تقریب کے دوران آپ کو سرکاری اعزازات سے نوازہ گیا۔اس امتیاز نے آپ کو اپنی’’ قوم کی پہلی خاتون‘‘ بنا دیا جن کا اتنے نمایاں انداز میں اعتروف کیاگیا۔
تحریک نسواں کی بانی رکن صوفیہ کمال کی رخصتی ایک دور کے خاتمے کی علامت ہے۔’نیشنل پبلک لائبریری‘ ،جس کا نام آپ کے اعزاز میں رکھا ۔ آپکی رہنمائی میں ابھرنے والے دیگر حقوعق نسواں اور ثقافتی گروہ آپکی میراث کے زندہ ثبوت کے طور پر کام کررہے ہیں۔
اُردو ادب میںآپکی شراکت اور خواتین کی جدوجہدبر صغیر کے شاعروں ،ادیبوں اور کارکنوں نسلوں کو متاثر کیا ہے۔جنوبی ایشیا ء میں ایک ممتاز حقوق نسوں کی شاہکار کے طور پر ابھریں۔ وزیر اعظم نے آپ کی تعلیمی اور ثقافتی ،۱۹۵۲ کی زبان و د یگر تحریکوں میں فعال شرکت پر زور دیا،۱۹۶۹ کی عوامی بغاوت ،تحریک عدم تعاون ،۱۹۷۱ کی جنگ آزادی میں ،جمہوری جدو دجہد میں فعال اورغیر متزلزل حصہ لیا ، ملک میں مسخ شدہ تاریخ کے دور میں آزادی کی حامی قوتوں کو متاثر کیا اور امید ہے کہ نئی نسلیں آپ کی ادبی تخلیق کو پڑھ کر حب الوطنی کے جذبے سے شرشار ہو جائیں گی۔ صوفیہ کمال تقریباََ پچاس اہم ترین قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازیں گئیں جس میں ممتاز قومی اعزاز ’’ تمغۂ امتیاز ‘‘ شامل ہے۔اس با فخر اعزاز کوآپ نے ۱۹۶۹ بنگالیوں کے ساتھ ظالمانا سلوک کے خلاف بطور احتجاج اس اعزاز کو حکومت کو واپس کر دیا۔ ۱۹۶۲ کو برائے ادب ’ بنگلہ اکادمی ‘ ۔ ۱۹۷۶ ناصرالدین گولڈ میڈل ۔ ۱۹۷۷ مُکتا دھارا پُرسکار‘ ۔ ۱۹۸۲ ، قومی شاعری کونسل ایوارڈ ( جتیو کبیتا پریشد ایوارڈ ) ۔ ۱۹۹۵ ومن فیڈریشن امن کا عالمی تاج ایوارڈ ۔ ۱۹۹۶ بیگم روقیہ اور دہش بندسی آر داس گولڈ میڈل ۔ ۱۹۹۷ یوم آزادی اعزاز ۔ ۱۹۷۰ سوویت یونین کی جانب سے ’ لینن صد سالہ جوبلی اور ۱۹۸۶ میں چیکو سلواکیہ میڈل ۔ مزید براں کئی بین الاقومی اعزات سے نوایں گئیں ،مضمون کی طوالت کا لیحاط کرتے ہوئے
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا