ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری
دین اسلام میں کثرت عمل نہیں بلکہ مداومت عمل مطلوب ہے چونکہ اس التزام و پابندی عمل سے خدا اور بندہ کا تعلق اٹوٹ ہوجاتا ہے جس میں اضمحلال و کمزوری کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیا و آخرت میں وہی شخص کامیابی حاصل کرسکتا ہے جس میں استقلال اور مستقل مزاجی ہوتی ہے یعنی وہ اعمال کو تسلسل اور استمرار کے ساتھ ادا کرنے کا عادی ہو جس کی وجہ سے اعمال صالحہ اس کی فطرت ثانیہ بن جائے۔ اللہ تعالی کو وہی دین و اطاعت پسند ہے جس کو مداومت کے ساتھ کیا جائے۔ اکثر موقتی طور پر انجام دیئے جانے والے افعال و اعمال یا تو جذبات سے مغلوب ہوکر انجام دیئے جاتے ہیں یا بغیر کوئی مستحکم و مضبوط فکر اور ٹھوس منصوبہ کے کیے جاتے ہیں۔ شریعت اسلامی مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ کوئی بھی عمل شروع کرنے سے پہلے خوب غور و فکر کیا جائے اور تدابیر و منصوبہ بندی کے ساتھ ہی کام کا آغاز کیا جائے جو مومنانہ فراست کا تقاضہ بھی ہے۔ زمین و آسمان میں بسنے والی تمام مخلوقات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر مخلوق تسلسل و استمرار کے ساتھ اپنے فطری افعال انجام دے رہی ہے جیسے آسمان و زمین جو دنیا کو پابندی کے ساتھ پانی اور پیداوار فراہم کر رہے ہیں جس پر دنیا کی حقیقی خوشحالی کا دار و مدار ہے۔ دنیا نے یہ کبھی تجربہ نہیں کیا اور نہ قیامت تک کرے گی کہ آسمان سے پیداوار اور زمین سے بارش ہوجائے چونکہ یہ سنت و دستور الٰہیہ کے مغائر ہے۔ اسی طرح جس بندہ مومن کا اخلاق و کردار رسول محتشم ؐ کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے تو اس انسانیت کے علمبردار شخص سے یہ اُمید کرنا ہی فضول ہے کہ اس سے کوئی غیر انسانی حرکت سرزد ہوگی لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان قرآنی احکامات اور صاحب قرآن کی سیرت مطہرہ پر مداومت و مواضبط کے ساتھ عمل پیرا ہوں چونکہ انسان کو مختار بنایا گیا ہے یعنی اسے اعمال کے انتخاب میں اختیار دیا گیا ہے جب وہ اللہ اور اس کے حبیب کے احکامات و ارشادات کی نافرمانی کرتا ہے اور نفسانی خواہشات کا اسیر بن جاتا ہے تو وہ جانور سے بدتر بن جاتا ہے اور ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب مسلمان دائمی اور غیر متبدل طریقے سے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجاتا ہے تو اس کے دل میں اطاعت و انقیاد کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے اس طرح اغیار بھی اس کے اعلی اخلاق و کردار کے معترف ہوجاتے ہیں اور جس طرح آسمان وزمین کی طرف پیداوار اور بارش کی نسبت نہیں کی جاسکتی اسی طرح مسلمانوں کی طرف غیر انسانی افعال و اعمال کی نسبت کرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ آج ہم لوگ سنی ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے کسی عمل میں دائمی اور ہمیشگی نہیں پائی جاتی جبکہ لفظ سنت حضور اکرمؐ کے اس عمل مبارک کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کو آپؐ نے پابندی سے کیا ہو۔ تقریباً ہر مسلمان نبی کریمؐ کے اس طرز عمل کو بھلاچکا ہے۔ مسلمان شعلہ بیان تقاریر ، مستند تحاریر ، علمی مباحث، لفظی دعوئوں، زبانی وابستگیوں اور جذباتی نعروں سے سنی نہیں بنتا بلکہ حقیقی سنی مداومت و مواضبط اعمال سے بنتا ہے۔ سیرت مصطفویؐ کے اہم پہلو یعنی مداومت و مواضبط اعمال کو ہم مسلمانوں نے تقریباً فراموش کردیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں یوم الجمعہ ، یوم العیدین، شبِ میلاد، شب معراج، شب برات، جمعۃ الوداع ، شبِ قدر، رمضان المبارک، ذو الحجہ کے ابتدائی دس ایام، ایام تشریق اور یوم عاشورہ وغیرہ میں خشوع و خضوع، خلوص و للہیت اور پوری توجہ و انہماک کے ساتھ عبادات بالخصوص نمازوں کا اہتمام کیا جاتا ہے پھر جیسے ہی یہ مبارک و مسعود ایام و شہور رخصت ہوتے ہیں ہمارا اعمال صالحہ کا ذوق و شوق بھی سرد ہوجاتا ہے، مساجد ویران ہوجاتی ہیںجبکہ وفادار غلام کا یہ اولین فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام قابلیت، صلاحیت اور استعداد کا استعمال کرتے ہوئے اپنے آقا کے ہر حکم کے سامنے گردن جھکادے چاہے وہ مقدس ایام و شہور ہوں یا دیگر اوقات و اعیان۔ اللہ اور اس کے حبیبؐ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ ہے جس پر سب سے زیادہ انسان مداومت و ہمیشگی کرے۔ یعنی اللہ اور اس کے حبیبؐ کو ایسے مسلمان پسند نہیں جو مقدس ایام و شہور میں اعمال صالحہ بجالاتے ہوں لیکن دیگر ایام وشہور میں احکاماتِ ربانی اور ارشادات نبویؐ سے انحراف کرتے ہیں اور لذائذ شہوات میں غرق ہوجاتے ہیں۔ خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد مبارک ہے وہ کم اعمال جس کی پابندی و مداومت کرو ایسے زیادہ اعمال سے زیادہ امید بخش ہیں کہ جن سے تم تھک جاتے ہو۔ اس قول مبارک سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ دین اسلام میں کثرت اعمال سے زیادہ معیار اعمال کی اہمیت ہے جس کا حصول مداومت و مواضبط کے بغیر ممکن نہیں۔ جو لوگ صراط مستقیم پر استقامت و پامردی اور مداومت و استمرار کے ساتھ گامزن رہتے ہیں اللہ تعالی ان پر مال و متاع، رزق و برکت کے دروازے کھول دیتا ہے اور انہیں دنیا کی خوشحالی عطا فرماتا ہے ۔ دنیاوی معاملات میں بھی انسان کو مہارت کثرت عمل سے حاصل ہوتی ہے یعنی جب انسان ایک سادہ عمل کی تکرار و تسلسل کے ساتھ مشق کرتا ہے تو اسے کامل مہارت حاصل ہوجاتی ہے ۔ اور جب انسان عبادات و ریاضات میں مداومت و مواضبط اختیار کرتا ہے تو اللہ اور اس کے حبیبؐ کا محبوب بن جاتا ہے۔ اعمال صالحہ کی پابندی کرنے سے انسان کو قوت، ثبات، حسن خاتمہ اور اللہ تعالی سے تعلق جیسی نعمتیں ملتی ہیں اور انسان بے حیائی کے کاموں و سختیوں سے نجات اور خطائوں و گناہوں سے خلاصی پاتا ہے۔ جذبات سے مغلوب ہوکر رسماً عبادات بجالانا مسلم معاشرہ کی علامت بن چکا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوت قرآن بالخصوص سماعت قرآن کی محافل کا انعقاد عمل میں آتا ہے لیکن جیسے ہی شوال المکرم کا چاند نظر آتا ہے تو تلاوت قرآن مجید کا ذوق و شوق بالکل کم بلکہ تقریباً ختم ہوجاتا ہے۔ یہ جذبہ پھر اسی وقت ابھرتا ہے جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے۔ جب مسلمان کوئی مکان تعمیر کرتا ہے یا خریدتا ہے تو سب سے پہلے گھر میں قرآن مجید کا نسخہ رکھتا ہے ، نئے گھر میں قرآن خوانی کرواتا ہے جو یقینا لائق تحسین اقدام ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ افتتاحی تقاریب کے بعد افہام و تفہیم ، تدبر و تفکر قرآن تو چھوڑیئے گھر والوں کو قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ کیا قرآن مجید کا نزول رسومات کی ادائیگی کے لیے ہوا ہے؟ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید دستور حیات اور کتاب عمل ہے لیکن اس کے باوجود عملی طور پر کلام الٰہی سے بے اعتنائی مسلمانوں کی بدبختی اور ذلت و رسوائی کی اہم وجہ ہے جس طرف ہمیں فوراً توجہ کرنی چاہیے۔ اغیار اور مخالفین اسلام کو مورد الزام ٹہرانے سے پہلے مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی ایمان کے تقاضوں کو پورا کررہے ہیں؟ اگر ہم ایمان کی کسوٹی پر کھرے اترتے تو اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ہم ہی دنیا میں سرفراز و کامیاب ہوںگے۔ ہم ناکام و نامراد اسی لیے چونکہ ہم نے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں ہماری بدبختی کا تو یہ عالم ہے کہ اللہ تعالی ہمیں نئے مکان ، نیا کاروبار کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تو اپنے رحیم و کریم مولا کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بھی ہمارے پاس کوئی وقت نہیں ہے اسی لیے ہم مدارس کے بچوں کو بلواکر قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اظہار تشکر کا فریضہ ادا کردیا ہے۔اکثر یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہم بزرگان دین سے عقیدت و محبت کا اظہار ان محبوبان بارگاہ کبریا کے وصال کے دن عرس شریف مناکے ، مزارات پر اعلی و قیمتی غلاف مبارک پیش کرکے، گلہائے عقیدت نچھاور کرکے اور محافل سماع کا انعقاد کرکے کرتے ہیں پھر سال بھر نہ ہمیں ان اولیاء کرام کے ملفوظات و مکتوبات کا پاس و لحاظ ہوتا ہے اور نہ ان کی تعلیمات و ارشادات سے ہمیں کوئی تعلق ہوتا ہے ۔ یہ ترک عمل یا اضمحلال کوئی معمولی حادثہ نہیں ہے جس پر ہم صرف تاسف کا اظہار کرکے اسے نظر انداز کردیں بلکہ یہ ایک ایسی خامی ہے جو انسان کے دینی اشتیاق اور مزاج کو بدل ڈالتی ہے اور بندہ کا تعلق رب سے توڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے انسان روحانی طور پر مرجاتا ہے جو جسمانی موت سے زیادہ غمناک ہے۔ بزرگان دین کی اصل کرامت یہی رہی کہ وہ زندگی بھر خود کو اور اپنے ماننے والوں کو بھی شریعت محمدیؐ کا پابندبنائے رکھا۔
ان مبارک ہستیوں نے تعلیمات اسلامی سے انحراف تو درکنار سرکشی کے ناپاک خیالات سے بھی اپنے قلوب و اذہان کو ہمیشہ پاک و صاف رکھا۔قرآن مجید کے مطابق نماز وہ عجیب عبادت ہے جو بے حیائی اور برے کے کاموں کو دورکرنے میں ترقاق کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں مساجد میں کروڑہا مسلمان نماز ادا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ اکثر مسلمانوں کی طبیعتیں نماز کی انوار و برکات سے متاثر ہورہی ہیں اور نہ ہی صالح معاشرہ تشکیل پارہا ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ نہ ہم نماز کو فرائض و واجبات، خشوع و خصوع، ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ ادا کررہے ہیں، نہ ہی ہماری نمازیں شیطانی وساوس، نفسانی خواہشات، اور دنیاوی خیالات سے پاک ہیں۔ ان سب کے علاوہ ہماری نمازوں میں جو اہم کمی ہے وہ مداومت و مواضبط کی ہے۔ جب مسلمان رمضان المبارک میں تسلسل و استمرار کے ساتھ نمازیں و دیگر اعمال صالحہ بجالاتا ہے تو پوری دنیا میں روحانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اگر ہم یہ عمل دیگر مہینوں میں جاری رکھیں تو یقینا ہم نماز و دیگر اعمال صالحہ کے انوار و برکات اور مقاصد حاصل کرنے میں کما حقہ کامیاب ہوں گے۔ رحمت عالمؐ نے نماز کی پابندی سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں
اس کو مثال کے ذریعہ سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے کے سامنے نہر بہتی ہو اور وہ ہر روز پانچ مرتبہ اس میں غسل کرتا ہو تو کیا اس پر کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کی نہیں، آپؐ نے فرمایا پانچ نمازوں کی یہی مثال ہے اللہ ان کے ذریعہ گناہ مٹا دیتا ہے۔اگر ہماری ان ہی نمازوں میں مداومت و مواضبط نہ ہوگی ہم نماز کے فوائد و برکات حاصل کرنے سے محروم ہوجائیں گے اور ہماری یہ نمازیں ہمیں رب کائنات سے دور کردیںگی اور یہ نمازیں اللہ تعالی کی رضا کا سبب نہیں بلکہ ناراضگی کا باعث ہوںگی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔