مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے

0
0

۰۰۰
اسامہ عاقل مدھوبنی

،بہار 9304144233
۰۰۰
تحریم کی رخصتی ہورہی تھی۔ ماں کا سایہ نہ ہونے کی وجہ سے والد اسے سمجھا رہے تھے ، سبھی کو پیار دینا۔ تبھی ایک بھابھی نے اپنی نند تحریم کو گلے لگاتے ہوئے کہا ، اب وہی تیرا گھر ہے۔ سبھی کو عزت دینا اور وہیں من لگانا۔ پھر اپنے تینوں بھائیوں اقبال ، نسیم و نعیم اور رشتہ داروں سے مل کر تحریم رخصت ہوگئی۔ اقبال کو اپنی بہن سے بہت پیار تھا ، اس لئے وہ اس کے رخصتی ہونے پر اداس ہوگیا تھا۔ تحریم کی یہ دوسری شادی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر تحریم اپنے مائیکے رہتی تو بھابھیاں اسے جینے نہ دیتی ، اس لئے وہ چاہتا تھا کہ اسے ہرخوشی ملے۔ رات کے سوتے وقت اقبال تحریم کی پرانی یادوں میں کھوگیا تھا۔ تحریم کی پہلی شادی ایک امیر پریوار میں کیف کے ساتھ ہوئی تھی۔ دو نند اور ایک دیور سے بھرا پورا پریوار تھا۔ کیف کاروباری تھا۔ امیر گھرانہ تھا۔ پانچ سالوں میں دونوں نندوں کی شادی ہوگئی تھی اور دیور اپنے بھائی کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بانٹنے لگا۔ تبھی اچانک کیف کی ہارڈ اٹیک سے موت ہوگئی۔ تحریم کے لئے یہ درد سہن کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ وہ کیف کو بہت پیار کرتی تھی ، اس لئے ڈپریشن میں چلی گئی۔ کچھ مہینوں بعد ساس نے تحریم کے بھائیوں کو بلاکر کہہ دیا ، تحریم گم سم سی ہوگئی ہے۔ وہ خود بھی دھیان نہیں رکھ پاتی ہے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت مایوس رہتی ہے۔ تم کچھ دنوں کے لئے اپنے ساتھ لے جاؤ ، بھائی تحریم کو اپنے ساتھ لے مائیکے لے کر آگئے۔ تقریبا دو مہینے بعد جب اقبال اپنی بہن کو چھوڑ نے سسرال پہنچا تو دروازے پر تالا لگا پایا۔ پڑوسیوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ لوگ تو مکان بیچ کروہاں سے جاچکے ہیں۔ یہ سن کر تحریم رونے لگی۔ اقبال اسے سمجھا کر واپس گھر لایا۔ اس صدمے نے اسے اور بھی توڑ دیا تھا۔ بہت ڈھونڈھنے پر بھی وہ لوگ نہیں ملے۔ تحریم کی تو تینوں بھابھیاں اوپر سے تو ہمدردی جتاتی تھی ، یہ وہ چاہتی تھی کہ وہ جلد ہی یہاں سے چلی جائے۔
ایک دن تحریم کی بھابھی فرحت کے دور کے رشتے دار کا بھائی فرحان گھر آیا او فرحت سے کہنے لگا آپ کی نند مجھے بہت پسند ہے میں تحریم سے شادی کرنا چاہتاہوں۔ اس کے بھائی اقبال اس شادی کے لئے تیار نہیں تھا مگر فرحت بھابھی کے آگے ایک نہ چلی۔ تحریم کے سسرال میں دن رات جھگڑے ہونے لگے۔ دو مہینہ بھی نہ گزرا تھا تحریم مائیکے لوٹ آئی۔ اس طرح ایک سال بیتنے کے بعد فرحان نے تحریم کو طلاق دے دیا۔ تحریم اور زیادہ ٹوٹ گئی۔ ایک دن ایک رشتہ دار نے رشتہ لیکر اقبال کے گھر آیا ، انہوں نے کہا تمیم ایک اچھا لڑکا ہے اور وہ پرائیوٹ نوکری کرتا ہے۔ گھر میں صرف اس کی ماں ہے وہ زیادہ امیر نہیں ہے۔ تمیم نے تحریم کو دیکھتے ہی پسند کرلیا۔ اگر تحریم سے شادی ہوگی تو وہ اسے بہت خوش رکھے گا۔ اقبال نے بھی تمیم کو تحریم کی پچھلی زندگی کے بارے میں بتایا ، مگر تمیم نے سبھی کو اپنا پچھلا بھول کر آگے بڑھنے کی صلاح دی۔ اقبال یہ سب سوچتے سوچتے یادوں سے باہر آیا اور سوگیا۔ تحریم سسرال پہنچی چار کمروں کا چھوٹا سا مکان تھا۔ ساس فاطمہ پرانے خیالات کی تھی ، اس لئے صبح جلدی اٹھنا ،گھر کی صاف صفائی کرنا ، پھر غسل کرکے عبادت کرنے کے بعد ہی کھانا کھانا شامل تھا۔ دیکھ تحریم۔۔۔۔ تجھے بھی اس طرح جلدی جلدی سارے کام کرنے ہوں گے ، ساس اسے سمجھانے لگی۔ تمیم کے کام پر چلے جانے کے بعد ساس عبادت میں لگ جاتی اور تحریم سے کہتی ، اللہ سے جتنی لگن لگاؤگے اتنی ہی جلدی وہ سنتا ہے۔ دیکھنا تمہاری کھوکھ اوپر والا جلد ہی بھڑیں گے۔ ان شائ￿ اللہ ۔۔۔ مجھے تو بس ایک پوتی چاہئے۔ اس کے بعد تحریم کام کرنے کے بعد عبادت میں لگ جاتی اور بچے کے لئے خوب دعا مانگتی۔۔۔۔ وقت بیتنے لگا۔ تمیم کے جھٹی ہونے کی وجہ سے تحریم نے پیار سے کہا آج مجھے کہیں گھومانے لے چلو۔ اچھا چلو ، چلتے ہیں ، تم جلدی سے تیار ہوجاؤ۔ تحریم اور تمیم دونوں جب تیار ہوکر گھر سے باہر نکلنے لگے تب سے ساس فاطمہ کہنے لگی ، میں اکیلی گھر پر رہ کر کیا کروں گی ، میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں ، اس پر تحریم کھیج گئی ، تمیم پیار سے اسے سمجھانے لگا۔ دیکھو ، وہ بڑی ہے ، ہمیں انہیں پورا مان سمان دینا ہوگا۔ تمہیں مجھ سے بات کرنی ہے تو کمرے میں کرلینا۔ اس کے بعد تحریم گھومنے گئی من سے کبھی کبھی۔ ساس بہو میں بہس ہوجاتی تو تمیم سمجھا دیتا۔ شادی کا دوسال بیتنے کے بعد بھی جب تحریم ماں نہ بنی تو ساس اور کچھ رشتہ دار کہنے لگی۔۔۔ تم کہیں بانجھ تو نہیں ہو ؟ سچ بتاؤ ، اگر تمہیں بچہ نہیں ہوسکتا تو ہمیں بتادو ، ہمیں کچھ اور سوچنا پڑے گا۔ دیکھو اگر کچھ وقت اور تمہیں بچہ نہیں ہوا تو تم اپنے مائیکے جاکر ہی بیٹھنا۔ رات میں تحریم نے روتے ہوئے تمیم کو ساری بات بتائی۔ دیکھو تم شانت رہاکرو۔ ماں سے بحث مت کیا کرو ، ہوسکے تو تم کل ہی اپنی مائیکے چلی جاؤ ، میں وہاں نہیں جاؤں گی ، بھابھیاں طعنے مارتی ہیں۔ تحریم سمجھا کرو وہاں تم کسی ڈاکٹر سے اپنا علاج کرالینا ، تمیم اسے پیار سے سمجھاتا رہا۔ صبح گھر کے کام ختم کرنے کے بعد تمیم تحریم کو بس میں بیٹھا کر چلاگیا۔ تحریم مائیکے نہ جاکر اپنی سہیلی روشن کے گھر پہنچ گئی۔ روشن نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ تحریم کا ویلکم کیا۔ چائے پیتے ہوئے تحریم نے بتایاکہ اگر بچہ نہ ہوا تو ساس اسے گھر سے باہر نکال دے گی۔ روشن نے کہا۔۔۔ تحریم تو اپنا رونا بند کر ، میری پہچان کی ایک ڈاکٹر ہے تو کل چل میرے ساتھ ، میں تیری پریشانی کا حل چٹکی میں نکال دوں گی۔ اگلے دن تحریم کو لیکر روشن ڈاکٹر کے پاس گئی۔ اس نے کچھ ٹسٹ کئے ، تین چار دن کے بعد ڈاکٹر نے بتایا تحریم کو بچہ ہونا ممکن ہے۔ یہ سنتے ہی تحریم ہاسپیٹل کے باہر بیٹھ کر رونے لگی۔ کچھ دیر کے بعد روشن باہر آئی اور بولی۔۔۔۔ دیکھو تمہارے رونے سے بات نہیں بنے گی ، تم مجھے تمیم سے بات کراؤ ، شام کو تمیم روشن کے گھر آیا۔۔۔ روشن نے تمیم کو چائے ناشتے کے دوران کچھ باتیں سمجھائی اور اس پریشانی سے نکلنے کا راستہ بھی سمجھا دیا۔
تمیم روشن کی باتیں سمجھ گیا ، اس لئے کہ وہ تحریم کو کبھی کبھار روشن کے گھر چھوڑ دیتا اور ماں سے کہتا کہ وہ اس ڈاکٹر سے علاج کرارہاہے۔ ایک دن تمیم نے تحریم سے کہا تم ماں سے کہہ دو کہ خوشخبری ہے۔ آگے میں سنبھال لونگا۔ تحریم نے ساس سے دادی بننے کی بات کہی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔ دیکھا ، میں نہ کہتی تھی کہ اوپر والا سے لو لگانے جلتی سنتا ہے۔ اب تم زیادہ گھوما پھیرا مت کرو ، اب فاطمہ اپنی بہو کا دھیان رکھنے لگی۔ چار مہینے بیتنے کے بعد تحریم کو اپنا سامان پیک کرتے دیکھ ساس نے پوچھا تم کہیں باہر جارہی ہو ؟ ہاں ماں ، تحریم اپنے مائیکے جارہی ہے ، تمیم نے کہا۔
لیکن بیٹا اسے ابھی اس حالت میں اتنی جلدی وہاں کیوں بھیج رہاہے ؟ وہاں اس کی بھابھیاں دھیان نہیں رکھ پائیں گی۔ ماں میں چانتاہوں ، مگر تمہیں کیسے سمجھاؤں ، حمل کے دوران کچھ خاص علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اسے باربار ڈاکٹر کے یہاں جانا پڑے گا۔ ایسا کہہ کر تمیم ، تحریم کو لیکر چلا گیا۔ ادھر فاطمہ برابر تمیم سے تحریم کو واپس لانے کو کہتی ، دیکھ بیٹا۔۔۔۔ میں اس سے کوئی کام نہیں کراؤں گی۔ اسے پورا آرام دوں گی ، بس تو اسے یہاں لے کے آجا۔ ماں۔۔۔ تم کچھ نہیں سمجھتی ہو ، ڈاکٹر نے اسے مجھ سے دور رہنے کو کہا ہے تاکہ کہیں خراب نہ ہو۔ اچھا یہ بات ہے۔ تونے پہلے کیوں نہیں یہ بات بتائی۔ چل جیسی تیری مرضی۔ اور پھر وہ دن بھی آیا۔ اس نے تمیم کو فون پر بتایا ” مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے ” کچھ دن کے بعد تمیم اور تحریم اپنی بیٹی تسنیم کے ساتھ گھر آگئے۔
فاطمہ دادی بہت خوش تھی پوتی کو دیکھ کر خو ب دعائیں دی۔ تحریم کمرے میں جاتے ہی تمیم سے لپٹ گئی ، تم نے جو یہ خوشی کے پل مجھے دئے ہیں وہ میرے لئے انمول پل ہے۔ پھر دونو مسکرا کر ایک دوسرے سے کہنے لگے مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا