جو ہمیں گورنر نے بتایا ہم وہی پارلیمنٹ سے سننا چاہتے ہیں: عمر عبداللہ
یواین آئی
سرینگرنیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیر میں کیا ہونے والا ہے، اس بارے میں ہمیں کہیں سے بھی صحیح جواب نہیں مل رہا ہے یہاں تک کہ یہاں کے بڑے افسران بھی اس بات سے بے خبر ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیرمیں حالیہ پیش رفتوں جن کے باعث یہاں ہر سو سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے، کے بارے میں جو کچھ ہمیں گورنر ستیہ پال ملک نے کہا ہم وہی پارلیمنٹ سے سننا چاہتے ہیں کیونکہ کشمیر پر حکومت ہند کی بات ہی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔موصوف نے کہا کہ کشمیر میں گورنر کی بات حرف آخر کی حیثیت نہیں رکھتی ہے بلکہ حکومت ہند کی بات حرف آخر ہے لہٰذا جو ہمیں گورنر صاحب نے بتایا ہم وہی پارلیمنٹ سے سننا چاہتے ہیں۔عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کے روز یہاں گورنر ستیہ پال ملک کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔بتادیں کہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کی سربراہی میں پارٹی کا ایک وفد ہفتہ کو دوپہر کے وقت کشمیر میں جاری تنا¶ کے ماحول کے پیش نظر گورنر سے ملاقی ہوا۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے گورنر سے ملاقات کے فوراً بعد بلائی گئی نیوز کانفرنس میں کہا: ‘ہمیں صحیح جواب کہیں سے نہیں مل رہا ہے ہم نے گورنر صاحب سے کہا کہ جناب آپ ہمیں کہتے ہو کہ ہم افواہیں پھیلارہے ہیں لیکن ہم جہاں سے بھی سچائی معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہمیں کہیں سے پتہ ہی نہیں چلتا ہے، افسروں سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں لیکن کچھ ہورہا ہے، کوئی افسر کہتا ہے کہ کل معلوم ہوگا تو کوئی کہتا ہے کہ پرسوں معلوم ہوگا اور کوئی کہتا ہے کہ پانچ دنوں کے اندر اندر معلوم ہوگا’۔انہوں نے کہا کہ یہاں ملی ٹنسی میں بھی سیاحتی مقامات سے سیاحوں کو نہیں نکالا گیا اور ان علاقوں کو جس طرح خالی کیا گیا اس سے یہاں لوگوں پر کافی اثر پڑا ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ گورنر نے کل کا ہی بیان دوہراتے ہوئے ہمیں یقین دہانی کی کہ دفعات کی منسوخی یا اسمبلی حلقوں کی سرنو حد بندی، ریاست کو منقسم کرنے کے بارے میں کوئی اعلان کرنے کی کوئی تیاری نہیں کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر صاحب لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے ایک واضح بیان جاری کرنے والے ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے پیر کے روز ایک بیان آجائے جس میں کہا جائے کہ جمعہ کے حکومتی حکم نامہ جس میں یاتریوں اور سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے کو کہا گیا، جاری کرنے کی کیوں ضرورت پڑی۔ان کا کہنا تھا: ‘ہم چاہتے ہیں کہ پیر کے روز پارلیمنٹ لگتے ہی مرکزی حکومت سے ایک ایسا بیان آئے جس میں کہا جائے کہ جمعہ کے دن یاترا ختم کرنے اور سیاحوں کو یہاں سے نکلنے کا حکم نامہ جاری کرنے کی ضرورت کیوں پڑی، ہم اُن سے سننا چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہمارے اراکین بھی اس سلسلے میں پیر کے روز ایک بار پھر نوٹس دیں گے’۔وزیر اعظم کے ساتھ نیشنل کانفرنس کے وفد (جس میں عمر عبداللہ بھی شامل تھے) کی حالیہ میٹنگ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا: ‘وزیر اعظم صاحب نے بھی گورنر صاحب کے اس بیان کو دوہرایا جس میں گورنر صاحب نے کہا تھا کہ دفعہ 35 اے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی، وزیر اعظم صاحب نے خود ہمیں کہا کہ وہ الیکشن کی تیاری کررہے ہیں، وہ الیکشن چاہتے ہیں، وہ یہاں ماحول میں خرابی نہیں چاہتے ہیں، وہ اس بات سے بھی مطمئن تھے کہ یہ سال گذشتہ سال سے بہتر رہا’۔عمر عبداللہ نے تاہم کہا کہ وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کے صرف چوبیس گھنٹوں کے بعد ہم اس قسم کی ایڈوائزری جاری ہونے کی امید نہیں کرتے تھے۔انہوں نے کہا: ‘وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ سے ہم مطمئن ہوکر نکلے لیکن اس میٹنگ کے بعد میں امید نہیں کررہا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ہی ایسا حکم نامہ جاری ہوگا کیونکہ ہمیں وزیر اعظم کی طرف سے کوئی ایسا عندیہ نہیں ملا تھا کہ یہاں اتنا بڑا خطرہ ہے کہ یاترا کو بھی بند کرنا پڑے گا اور سیاحوں کو بھی نکالاجائے گا’۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم پارلیمنٹ سے سننا چاہتے ہیں کہ ان کا جموں کشمیر کے بارے میں ارادہ کیا ہے۔عمر نے لوگوں سے اپیل کہ وہ حالات کے ساتھ پر امن طریقے سے نمٹیں۔ انہوں نے کہا: ‘میں لوگوں سے مودبانہ گذارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں شاید کچھ لوگ سڑکوں پر آکر قانون اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں، ماحول کو بگاڑنا چاہتے ہیں جس سے ان کا اپنا مقصد پورا ہوگا لیکن ہمیں انہیں مقاصد میں کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے’۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس ریاست کی شناخت اور خصوصی پوزیشن کو نقصان نہیں ہونے دے گی اور اس کے لئے ہم سیاسی وقانونی سطح پر مقابلہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے خاموشی نہیں چاہتے ہیں جموں کشمیر کی افراتفری کسی کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہے۔عمرعبداللہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو وعدے کئے گئے ان وعدوں کو برابر رکھنا ہوگا اور ہم سے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ آپ الحاق کریں اور ستر برس گذر جانے کے بعد جن شرائط پر وعدے کئے گئے ان کو تبدیل کیا جائے گا، جو شرائط رکھے گئے ہیں ان کو مرتے دم تک جاری رکھنا ہوگا۔