جموں کشمیر کے گوجر بکروال : ایک جائزہ

0
0

طالب حسین کھٹانہ
ملشاہی باغ گاندربل کشمیر۔

جموں و کشمیر جسے قرہ ارض پر جنت ہندوستان کا تاج ایشیائاسویٹزر لینڈ اور بہت سے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے یہ مختلف لوگوں،نسلوں ،مذاہب اور ثقافتی اخلاقیات سے آباد ہے اور اسی آبادی کی
خوبصورتی کے لیے ایک بے مثال اور خوبصورت خانہ بدوش قوم بھی یہاں موجود ہے جسے گوجر بکروال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
گوجر بکروال جو جموں کشمیر کے خوبصورت خطہ کے مقامی ہیں
جدید دور کے چیلنجنگ حقیقتوں سے جڑے ہوئے ایک بھرپور ثقافتی
ورثے کے مالک ہیں۔ یہ مضمون ان کی تاریخی ،آبادی ، طرز زندگیروایات اور ان کو درپیش رکاوٹوں پر روشنی ڈالتا ہے۔’’ بکروال ‘‘ کا لفظ ’’ بکرا‘‘ یعنی بکری اور بھیڑ اور ’’ وال‘‘ پالنے والا یعنی بھیڑ اور بکری پالنے والا اور’’ گوجر ‘‘یعنی ’’ گوئ￿ ‘‘ گائے اور بھینس پالنے والا۔ گوجر بکروال خطہ جموں کشمیر کی آبادی کا تخمیناَ 22 فیصد ہیں اور یہاں کا تیسرا بڑا طبقہ
ہیں۔ گوجر بکروال کی تاریخ کے حوالے سے چند اہم نظریات :1۔ رینا اے این 1981ء ( Raina A N )جغرافیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی طور پر گوجر جارجیہ جو بحیری کیسپین اور بحیری اسود
کے درمیان واقع ہے پانچویں صدی میں یہ گرجستان گوجروں کی ایک مملکت تھی لیکن بعد میں وہاں سے ہجرت کر کے وسطی ایشیا ء کے راستے سے وہ درہ سلیمان اور خیبر کو عبور کرتے ہوئے عراق،ایران اور افغانستان پہنچے چند سال گزارنے کے بعد وہ پھر بلوچستان کے راستے ہجرت کرتے ہوئے گجرات میں داخل ہوئے اور بعد میں وہ مغربی ہندوستان میں آباد ہوئے۔
2۔ سمت وی اے ( Smith V A )
ہندوستان کے تاریخ جس میں انہوں نے بتایا کہ گوجر ہندوستان میں465 عیسوی میں سفید ہنو کیساتھ خانہ بدوش کے طور پر ہندوستانمیں داخل ہوئے لیکن پانچویں اور چھٹویں صدی میں گجرات میں شدید
خشک سالی اور طاعون کی بیماری کا سلسلہ پورے گجرات میں پھیلگیا اور یہ لوگ گجرات سے نکل کر راجستھان میں پھیل گئے لیکن آثار قدیمہ کے شواہد کے مطابق چھٹی اور ساتویں صدی میں راجستھان میں
خشکی اور قحط پڑے ایک بار پھر ان لوگوں کی ہجرت کا سبب بنااور ان لوگوں نے سبز چراہگاہوں (Green Pastures)کی طرف ہجرت کی اور جموں و کشمیر میں آباد ہوئے اور یہاں کے مستقلرہایش پذیر ہو گئے۔3۔ چوہان ار ایچ(Chouhan R A H ) ’’ تاریخ گجر ‘‘جس میں انہوں نے گجر کی اصل کے بارے میں لکھا ہے گجروستی ایشیا ئ￿ سے ہجرت کر کے افغانستان کے راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور
راجستان میں ہی اپنی سلطنت قائم کی یہاں تک کہ وہ محمدیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے پھر اس کے بعد وہ گجرات میں آباد ہوئے چھٹویں اور ساتویں صدی میں راجستھان اور گجرات میں عظیم قحط
اور خشک سالی آئی اور یہ لوگ جموں و کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے اور مستقل طور پر یہاں آباد ہو گئے۔ گوجر بکروال کی زندگی یہ لوگ پیدائشی طور پر خانہ بدوش تھے لیکن گوجر جو گائے اور بھینس پالتے ہیں زیادہ تر ایک ہی جگہ رہائش پذیر ہو چکے ہیں ان میں تھوڑی سی تعداد گرمیوں کے موسم میں مال مویشیوں کو لے کر ڈھوک بہک جاتے ہیں اس کے برعکس ’’ بکروال‘‘ کی کثیر تعداد تقریباَ پورا سال ہجرت میں گزارتے ہیں جہاں ان کے مال مویشی یعنی بھیڑ اور بکریوں کا اچھا بندوبست ہو وہیں اپنا رخ بدل لیتے ہیں جگہ جگہ کا پانی پینا تازہ ہوا جنگلوں اور پہاڑوں سے سبزی جڑی بوٹیوں کا استعمال کرنا ان کا معمول زندگی ہے یہ سال کے تقریبا پانچ مہینے جموں کے میدانی اور پانچ مہینے کشمیر کے پہاڑی علاقوں ور باقی کے دو مہینے سفر میں گزارتے ہیں۔ گوجر بکروال کی
زندگی سادگی خوبصورتی اور بھائی چارے کی مثال ہے آج اس ’’آرٹیفیشل انٹیلیجنس‘‘ Artificial intelligence یعنی 21ویں صدی
میں بھی اپنی ثقافت ،زبان اور تمدن کو اپنی اصل شکل میں تھامے ہوئے ہیں گوجر خصوصا جو ڈہوک جاتے ہیں اور بکروال
کی زندگی جتنی دیکھنے میں آسان لگتی ہے حقیقتاَ آسان نہیں ہوتی ب سے بڑی مشکلات جو انہیں درپیش ہیں وہ ان کی نئی نسل کیتعلیم۔ ان کے بچوں کو وہ ماحول سہولیت نہیں مل پاتی جو آج کے دور کی اہم ضرورت ہے بچے جیسے ہی اسکول میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم شروع کرتے ہیں ایسے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت شروع ہو جاتی ہے اور تعلیم کا خواب چکنا چور ہو جاتا ہے گورنمنٹ نے ’’موبائل سکول‘‘ کی سہولیت تو رکھی ہے لیکن نہ وہ اساتذہ کہیں نظر آتے ہیں نہ والدین کا ساتھ ملتا ہے اور نہ ہی حالات
ایسے ہوتے ہیں کہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
تعلیم کے لیے اچھے ماحول سہولیت اور ایک ہی جگہ رہائش پذیر رہنا ول ضروری ہے جو نہ ملنے کی وجہ سے تعلیم جیسے عظیم نور کوحاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی جلدی
شادی کرنا ،بچوں کا چھوٹی عمر میں ہی مزدوری پر لگ جانا ،مزید مشکلات کا
باعث بن جاتا ہے۔ اور نتیجہ نسل در نسلیں غریبی اور دشواری کی
زندگی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ٭ کچھ اہم تجویز: طلبہ اساتذہ اور والدین کو تعلیم سے آ گاہ کرنے کے لیے مشاورتی سیشن منعقد کیے جائیں۔ قبائلوں کو تعلیم اور فلاح و بہبود جیسی اسکیموں اور پالسیوں کیبارے میں بیداری کیمپس کا انعقاد کیا جائے قبائلی لوگوں کے لیے دور دراز علاقوں کے اسکولوں خصوصا موبائل سکولوں کی وقتا فوقتا نگرانی کی جائے گی
موبائل سکولوں کے لئے قابل ترین اساتذہ کی مستقل بھرتی عمل میںلائی جائے تاکہ بچوں کو صحیح رہنمائی مل سکے اور ان اسکولوںمیں و قتی طور کام کررہے اساتذہ کو مستقل نوکری۔رائشی اداروں یا گوجر بکروال ہاسٹلز میں نشستوں کی تعداد
میں اضافہ کیا جائے۔ لبہ کے والدین کے ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے میٹنگ کی جائیں تاکہ وہ تعلیم جیسی نعمت سے آشناں ہوسکیں۔ٹیکنالوجی کے کردار کے بارے میں اگاہی پروگرام منعقد کیے جائیں۔پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنی قوم کی خدمت اور ترکی کے لیے
ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا