بات ہے کہ نشتر ہے ،لفظ ہیں کہ بھالے ہیں !

0
0

 

 

 

 

اخترجمال عثمانی۔ بارہ بنکی

عام انتخابات کادوسرا مرحلہ بھی مکمل ہوا، ایسا لگتا ہے کہ حکمراں جماعت بی جے پی کی خود اعتمادی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ ثبوت وہ جھوٹ اور نفرت انگیزی ہے جو ان کے لیڈران کے بیانات میں در آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو عوام کے بنیادی مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں رہی یا یہ مدعے ووٹ دلانے میں ناکام ہیں۔دس سال کی حکمرانی کے دوران اپنی کاکردگی سے وہ خود ہی مطمعن نہیں ہے اس بار بھی وہ عوام کو جذباتی مسئلوں میں الجھا کر ہی اپنا کام نکالنا چاہتی ہے۔ الیکشن کی تاریخوںکے اعلان سے قبل قوی امکان تھا کہ حکمراں بی جے پی عام انتخابات میں رام مندر کی تعمیر کو سب سے اہم ایشو بنائے گی ساتھ میںدفعہ 370 کے خاتمے اور کامن سول کوڈ کا ذکر بھی جاری رہے گا۔ 22 جنوری کو منعقد کیا جانے والا رام مندر میں ’پران پرتشٹھا‘ کے خالص مذہبی پروگرام میں جس طرح مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا تعاون اور شمولیت رہی اس سے بھی یہی عندیہ مل رہا تھا کہ رام مندر کی تعمیر کو ایک بہت بڑی حصولیابی کی شکل میں عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ لیکن جذبات کے ابال کو دوام نہیں ہوتا۔ زندگی کے حقیقی مثائل سے ہمیشہ چشم پوشی ممکن نہیں ہے۔ ادھر کچھ عرصے میں راہل گاندھی کی یاترائوں ، حزب اختلاف کی I.N.D.I.A. کے نام سے متحدہ محاذ کی تشکیل ۔ کسانوں کی ناراضگی اور مہنگائی اور بے روزگاری کو لے کر عوام میں آ رہی بیداری جیسی کچھ وجوہات سامنے آئیںجنہوں نے بی جے پی کو اپنے پرانے ایجنڈے میں ہی پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا ہے ۔آج حالت یہ ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی ،وزیر داخلہ امت شاہ اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر دوسری اور تیسری صف کے لیڈران تک اپنی تقاریر مسلمان کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں کرتے۔ کانگریس کا انتخابی منشور جاری ہوتے ہے وزیر اعظم نریندر مودی نے ارشاد فرمایا کہ اس میں مسلم لیگ کی بو آ رہی ہے۔ جب کہ کانگریس کے منشور میں ہندو مسلمان کا لفظ تک شامل نہیں ہے۔راجستھان میں ایک انتخابی جلسے میں کی گئی وزیر اعظم کی تقریر نے ساری حدوں کو پار کر دیا، انہوں نے گزشتہ پندرہ برس سے بولے جا رہے جھوٹ کو دہرایا کہ کانگریس حکومت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ملک کے وسائل پر مسلمانوں کا پہلا حق جتایا تھا۔ اگر کا نگریس کی حکومت بنی تو ملک کی دولت زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو اور گھس پیٹھیوں یا دراندازوں کو بانٹ دی جائے گی۔ انہوں نے صدیوں سے رہنے والوں کو در انداز کہا انہوں نے ہندو خواتین کے جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے منگل سوتر تک دوسروں میں بانٹ دئے جائیں گے۔ یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا کہ او بی سی اور دلتوں سے رزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دے دیا جائے گا۔یوگی جی نے فرمایا کہ کانگریس حکومت آئی تو شریعت کا قانون چلے گا، گئو کشی کی اجازت ہو جائے گی۔ یہ نفرت انگیز اور دروغ گوئی پر مبنی بیانات نہ صرف ملک کے طول و عرض میں بلکہ ساری دنیا کے اخبارات اور میڈیا میں موضوع بنے۔ وزیر اعظم کے منصب پر رہتے ہوئے اس طرح کے بیانات کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ان نفرت انگیز بیانات پر الیکشن کمیشن نے خود سے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ لیکن شکایتوں کے بڑھتے انبار کو دیکھ کر نوٹس جاری کرنی پڑی یہ نوٹس بھی مقرر کے نام نہ ہو کر پارٹی صدر کو جاری کی گئی ہے توازن قائم رہے اس لئے نوٹس کانگریس کے صدر کے نام بھی جاری ہوئی ہے۔ ویسے یہ نفرت انگیزی حکمراں جماعت کی گھبراہت کی بھی عکاس ہے، گزشتہ چند برسوں میں ماحول ایسا بن گیا تھا کہ حکومت کے کام کاج پر تنقید سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے لگتے تھے ۔ لیکن اب ماحول بدل رہا ہے۔ اس عام انتخاب میں عوامی مسائل میں ویسے تو بیروزگاری ،صحت عامہ، تعلیم ، سڑک ،بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کی چیزیںشامل ہیں لیکن موجودہ حالات میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا ہے۔ جو لگاتار بڑ ھتی جا رہی ہے ۔گذشتہ چند برسوں سے اس نے انتہائی رفتار پکڑ لی ہے ۔لیکن یہ مہنگائی حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کتنی بھی دشوار کیوں نہ کی ہوئی ہولیکن کتنا حیرت انگیز ہے کہ عوام کا ایک طبقہ مہنگائی کی حمایت کر رہا ہے اور مہنگائی کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دے رہا ہے۔ حکمراں جماعت کے لوگ مہنگائی کو ترقی سے جوڑ رہے ہیں۔ حکومت کے ترقیاتی کام اور لوگوں کو مالی امداد کے لئے رقم بڑھے ہوئے ٹیکس سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔ ۔ عوامی مسائل میں صحت عامہ کی سہولیات کی موجودہ صورتِ حال بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ دیہی علاقوں میں حالات اور بھی دگرگوں ہیں۔ اگرچہ بڑے بڑے سپر اسپیشلیٹی پرائیویٹ ہاسپٹل بھی موجود ہیں لیکن ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے عوام کی پہونچ سے باہر ہیں۔ اب آئیں تعلیم کی طرف، اگرچہ ابتدائی تعلیم کی سطح پر حالات قدرے بہتر ہوئے ہیں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے لیکن مہنگے علاج کی طرح مہنگی تعلیم بھی عا م لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔
غریبی اور بے روزگاری ایسے مسائل ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں بطور وزارتِ اعظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے وزیر اعظم نریندر مودی کا ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ انکے اور کئی دیگر وعدوں کی طرح جملہ ثابت ہوا۔ پھر نوٹ بندی کی افتاد کے بعد بہت سے لوگ بے روزگار ہوئے ۔ لیکن غربت اور بے روزگاری کے پچھلے تمام رکارڈ ٹوٹ گئے۔آدھی سے زیادہ آبادی غریبی کی لکیر سے نیچے چلی گئی۔ 80 کروڑ سے زیادہ آبادی فوڈ سیکیورٹی اسکیم کے تحت ملنے والے پانچ کیلو راشن پر زندگی گذار رہی ہے اس کو بھی قابل فخر بتایا جاتا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ غیر تربیت یافتہ مزدوروں کے علاوہ کروڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ڈگریاں لیکر بیکار گھوم رہے ہیں۔ذرا ان کے دل سے پوچھئے جنہوں نے اپنے والدین کی کمائی کا بیشتر حصہ اور اپنی آدھی زندگی لگا کر اعلیٰ تعلیم اور مختلف شعبوں میں انجینیرنگ اور پیشہ وارانہ مہارت کی ڈ گریاں حاصل کیں اور اب انہیں پکوڑے تل کر بیچنے کا روزگار کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ الیکشن میں مذہبی مدعے اٹھانے اور فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹوں کو پولرائز کرنے کے لئے طرح طرح کے طریقے اپنائے جاتے ہیں بلکہ گڑے مردے اکھاڑے جاتے ہیں
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ الیکشن چاہے صوبائی ہوں یا پارلیمانی ،عوامی مسائل مہنگائی، غریبی، بیروزگاری صحت ، اور تعلیم کی سہولیات کے مدعوں پر ہونے کے بجائے مندر مسجد، ہندو مسلمان ،پاکستان جیسے فضول مدعوں پر ہوتے رہیں گے۔ ویسے بھی مذہبی منافرت کا دریا اترنے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ ۔ کچھ اور بھی مثبت تبدیلیا دیکھنے میں آ رہی ہیں تعلیم کے معاملے میں بہتری آ رہی ہے سول سروسس UPSCمیں مسلم بچوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیڈران کے بیانات کے قطع نظر مسلمانوں کو یہ وہم دل سے نکال دینا چاہئے کہ اکثریتی طبقہ ان کا دشمن ہے۔
بے شمار ٹی وی چینلوں کے لگاتار ہندو مسلم کرتے رہنے، اور سوشل میڈیا پر بے حساب زہریلا پروپگنڈا چلتے رہنے کے با وجود آپ پائینگے کہ آپ کے پڑوسی ، آپ کے آفس ساتھی، آپ کے دوست یا کلاس میٹ آج بھی آپ کے ہمدرد ہیں آپ کی سکھ دکھ میں شریک ہیں، ایک دوسرے کے تیوہاروں اور خاندانی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں ۔ ہمیں بھی انکے سیاسی یا مذ ہبی نظریات پر تنقید کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ہمیں تعلیم اور کاروبار پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مخالفین کی ان حرکتوں پر جو ہمیں اشتعال دلانے کے لئے ہوتی ہیں صبر کرنا چاہئے اور قانونی راستے اپنا نے چاہئے، غلط فہمیوں کو دور کرنے لئے اغیار تک اسلام کا اصل پیغام پہونچانا ضروری ہے اعمال و افعال سے سچائی اور دیانت داری سے۔ . +919450191754

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا