دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بارود کو آگ لگانے کے برابر ہوگا: محبوبہ مفتی

0
0

’محبوبہ نے دِلی کودھمکایا‘
جو ہاتھ اس دفعہ کے خلاف اٹھیں گے وہ ہاتھ ہی نہیں بلکہ پورا جسم جل کر راکھ ہوجائے گا“
یواین آئی

سرینگرپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بارود کو آگ لگانے کے برابر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو ہاتھ اس دفعہ کے خلاف اٹھیں گے وہ ہاتھ ہی نہیں بلکہ پورا جسم جل کر راکھ ہوجائے گا۔محترمہ مفتی نے ان باتوں کا اظہار اتوار کے روز یہاں اپنی جماعت پی ڈی پی کے 20 ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں شیر کشمیر پارک میں منعقدہ ایک پارٹی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا: ‘ہم مرکزی سرکار سے کہنا چاہتے ہیں کہ دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا بارود کو آگ لگانے کے برابر ہوگا۔ جو ہاتھ اس دفعہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے لئے اٹھیں گے وہ ہاتھ ہی نہیں بلکہ پورا جسم جل کر راکھ ہوجائے گا’۔محبوبہ مفتی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مرکزی حکومت نے مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں کشمیر روانہ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں اور وادی میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی ہیں کہ مرکزی حکومت دفعہ 35 اے کو منسوخ کرسکتی ہے۔وادی میں نیم فوجی دستوں کی اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کے اس ہنگامی اقدام نے وادی بھر میں خوف و ہراس کا ماحول برپا کردیا ہے۔ تاہم مرکزی اور ریاستی حکومت مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں وادی بھیجنے کی ضرورت درکار پڑنے کی وجہ بیان کرنے پر خاموش ہیں۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔محبوبہ مفتی نے جلسے سے خطاب کے دوران مرکزی حکومت کو دفعہ 35 اے معاملے پر سخت پیغام بھیجنے کے علاوہ نیشنل کانفرنس اور علاحدگی پسند رہنماﺅں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس پر قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو ریاست میں داخلہ دینے اور علاحدگی پسند رہنماﺅں پر بات چیت سے دور بھاگنے کا الزام لگایا۔پی ڈی پی صدر نے کہا کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے دفاع کے لئے جیل جانے کے لئے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ‘بہت سے حربے آزمائے جائیں گے۔ پی ڈی پی کو ستایا جائے گا کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اگر جموں وکشمیر میں کوئی جماعت سچائی پر ہے تو وہ پی ڈی پی ہے۔ وہ میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ ہم جس لڑائی کی تیاری کررہے ہیں وہ لڑائی لڑنے کے دوران محبوبہ مفتی کو بھی جیل میں بند کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پی ڈی پی جموں وکشمیر کے تشخص اور دفعہ 370 کے لئے آخری دم تک لڑے گی’۔انہوں نے کہا: ‘ہم اس وقت مشکل حالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مفتی صاحب بار بار کہتے تھے کہ کشمیریوں نے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارا اپنا آئین ہے اس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ ہمارا اپنا جھنڈا ہے اس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ آج سب کچھ خطرے میں ہے۔ معلوم نہیں آج کیا ہوگا اور کل کیا ہوگا۔ جموں وکشمیر کے لوگوں کو آج پی ڈی پی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے’۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے والد نے حکومت میں رہتے ہوئے کوئی دولت جمع نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا: ‘پی ڈی پی ختم نہیں ہوگی۔ جب ہماری جماعت سے کچھ لوگ نکل گئے تو ان سے کہا گیا کہ محبوبہ مفتی کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میرے پاس پیسے کہاں سے آتے؟ میرے والد نہ میں نے پیسے کمائے۔ میرا خزانہ میرے ورکر ہیں’۔پی ڈی پی صدر نے کہا کہ اہلیان وادی کو اس وقت مشکل حالات کا سامنا ہے اور انہیں اگر کوئی جماعت موجودہ حالات سے باہر نکال سکتی ہے تو وہ پی ڈی پی ہے۔انہوں نے کہا: ‘وادی اس وقت بہت ہی مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر کوئی جماعت ان مشکل حالات کا مقابلہ کرسکتی ہے تو وہ پی ڈی پی ہے۔ ہمارے ریاست کے لوگوں کو موجودہ دلدل سے نکالنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے بھی تیار ہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘چند روز قبل ہی تین نوجوانوں کو کئی برسوں بعد جیلوں سے رہا کیا گیا۔ ہم یہ قربانیاں راہیگاں نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے یہاں قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ ہماری یہاں یتیم بچوں کی فوج ہے۔ آپ یہاں سے نکل کر شہیدوں کی قبروں پر جانا اور ان سے وعدہ کرنا کہ پی ڈی پی مسئلہ کشمیر کے حل اور دفعہ 370 کے دفاع کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی رہے گی’۔محبوبہ مفتی نے نیشنل کانفرنس پر قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو ریاست میں داخلہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا: ‘این آئی اے جو آج ہمارے گھروں میں گھس کر ہمارے لوگوں کو اٹھاکر لے جاتی ہے اس کو یہاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے لایا۔ جب عمر صاحب بی جے پی حکومت میں وزیر تھے تو اس وقت پوٹا لایا۔ اور جب کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملایا تو این آئی اے لایا’۔پی ڈی پی صدر نے علاحدگی پسند رہنماﺅں پر پی ڈی پی بی جے پی مخوط حکومت کے دوران بات چیت سے دور بھاگنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا: ‘کیا یہ سچ نہیں کہ میں نے ہندوستان کے پورے پارلیمنٹ کو حریت لیڈران کے دروازوں تک لایا۔ ان میں بی جے پی وزیر رام ولاس پاسوان، سیتا رام یچوری، اسدالدین اویسی، شرد یادو اور ڈی راجا شامل تھے۔ اعلیٰ اراکین پارلیمان حریت لیڈران کے دروازوں پر پہنچے۔ سارا ہندوستان اس انتظار میں تھا کہ کشمیری اپنے دروازے کھول دیں گے۔ اگر آپ کو بات نہیں کرنی تھی تو آپ کم از کم دروازے کھول کر انہیں چائے کی دعوت تو دے سکتے تھے نا؟ دروازے بند کئے گئے اور پورے ہندوستان میں پیغام چلا گیا کہ کشمیریوں نے ہمیں بے عزت کیا’۔انہوں نے کہا: ‘اس کے بعد میں نے بات چیت کے لئے دنیشور شرما کو مذاکرات کار نامزد کروایا۔ میں نے پانچ ہزار نوجوانوں پر لگے ایف آئی آر ہٹوائے مگر پتھراﺅ بند نہ ہوا۔ راجناتھ سنگھ جی جو وزیر داخلہ تھے انہوں نے دس بار کہا کہ میں بات چیت کے لئے تیار ہوں لیکن کسی نے منہ نہیں کھولا۔ میں نے سرکار میں رہتے ہوئے بات چیت کی بہت کوششیں کیں لیکن حریت والوں کی طرف سے مثبت جواب نہیں آیا۔ آج مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ میرواعظ صاحب کہتے ہیں کہ مودی ایک بڑے لیڈر ہیں، انہیں ایک بڑا منڈیٹ حاصل ہے اگر چاہیں گے تو مسئلہ کشمیر حل کرسکتے ہیں’۔انہوں نے کہا: ‘آج عمران خان مودی سے کہتا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔ آج ٹرمپ مودی سے کہتے ہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔ مفتی صاحب نے بھی مودی سے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہے۔ مفتی صاحب جانتے تھے کہ مودی صرف پانچ سال کے لئے نہیں بلکہ یہ لمبی ریس کا گھوڑا ہے۔ اسی لئے جموں وکشمیر کا لینا دینا جو بھی ہوگا اسی سرکار کے ساتھ ہوگا’۔محبوبہ مفتی نے اپنی تقریر کے دوران کشمیری پنڈتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ‘کشمیری پنڈت ہمارے بھائی، جگر اور دل ہیں۔ مجھے کشمیری پنڈتوں نے تعلیم دی ہے۔ میں پنڈتوں کے گھر میں پلی بڑھی ہوں۔ یہ مفتی محمد سعید ہی تھے جنہوں نے کشمیری پنڈتوں کے لئے سنہ 2002سے سنہ 2004 کے دوران جنوبی کشمیر کے مٹن اور وسطی کشمیر کے شیخ پورہ بڈگام میں عارضی رہائش گاہیں بنائیں’۔دریں اثنا پارٹی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ برستی بارشوں کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں پارٹی ورکروں نے شیر کشمیر پارک میں منعقد ہونے والی یوم تاسیس کی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر پارٹی کے بعض سینئر لیڈران بھی موجود تھے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا