۰۰۰
اظفر منصور
8738916854
۰۰۰
اسلام محض چند مذہبی افکار و نظریات یا اصول و ضوابط کے دفعات کا نام نہیں، بلکہ اسلام ایک دائمی و عالمی مذہب ِفطرت شناس کا نام ہے، جس کا نظام کار گوش انسانی کی تمام جہتوں کو محیط ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو سال میں دو دن ایسے دیئے جس میں خوشی و مسرت کے شادیانے بجائے جا سکیں، اجتماعی طور پر اظہار محبت کے لیے ان مواقع کا استعمال کیا جا سکے۔ ان ایام کو موسوم کیا گیا ہے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے نام سے، یعنی ایسی عید جس میں غریب بھی خوشی سے جھوم اٹھے اور اشراف بھی۔ بچے بھی ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ مچائیں اور بڑے بھی۔ اور اپنی محبت کے ہاتھوں سے پالے ہوئے جانور کی قربانی بلکہ درحقیقت اپنی محبت و دولت کی قربانی کا نام بھی ہے عید۔ جس میں اللہ رب العزت نے ایسی فطری مسرت رکھ دی ہے کہ باوجود ستم ہزاراں کوئی الجھن و پریشانی درمیان میں حائل نہیں ہوتی۔ دراصل یہ عیدالفطر کا یہ موقع رمضان المبارک کے روزوں، عبادتوں اور اطاعتوں کے ساتھ زکوٰ? و صدقات کی ادائیگی کے بعد آتا ہے۔ معنوی اعتبار سے عید کے معنی ’’بار بار لوٹ کر آنے والا‘‘ ہے، اس دن کو عیدالفطر بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے، جبکہ اس کی تاریخی حقیقت یہ کہ اللہ کے رسول ? جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو مشاہدہ کیا کہ لوگ مختلف طریقوں سے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، کہیں عکاظ جیسے بڑے بڑے میلے لگے ہیں تو کہیں پر رقص و سرور کی محفلیں مزین ہیں، کبھی نوروز کے نام سے تو کبھی مہرجان کے نام سے عیدیں منا رہے ہیں، تو سرور کائنات ? نے ان تصورات کو منسوخ فرما کر مسلمانوں کو دو ایسی عید عنایت فرمائی جو نوروز و مہرجان کی عیدوں سے زیادہ پاکیزہ، صاف ستھرا، لطیف و مسرت آمیز تھی۔
عن ?نس بن مال? قال کان ل??ل الجا?ل?ۃ ?ومان ف? کل سنۃ ?لعبون ف??ما فلما قدم النب?? المد?نۃ قال کان لکم ?ومان تلعبون ف??ما وقد? بدلکم الل? ب?ما غ?را من?ا ?وم الفطر و?وم ال?ضح?» (سنن نسائی: ص۶۸۱ ج۱) "حضرت انس? فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عرب نے سال میں عید کے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں کھیلتے اور خوشی کرتے تھے۔آنحضرت?جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آنحضرت ?نے فرمایا: ان دو دنوں کی بجائے، جن میں تم عید سمجھ کرکھیلتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دوسرے دو دن بدل دیئے: عیدالفطر اور عیدالاضحی”۔ عام طور سے گذشتہ تمام ادوار و اقوام میں خوشی منانے کے مختلف طریقے رائج رہے ہیں بلکہ اب بھی رائج ہیں اور مسلسل ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ روایات کے مطابق جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تو آپ ? اس دن کو بطور یادگار ہر سال مناتے تھے، اسی طرح حضرت ابراہیم ? وغیرہ کے سلسلے میں بھی روایات ہیں، اور موجودہ دور میں بھی اب عیدوں کی بہتات ہو رہی ہے، برتھ ڈے کے نام پر عید، شادی کی سالگرہ کے نام پر عید، اسکول و کالج وغیرہ میں Annual function کے نام پر عید۔ یہ سب اظہار خوشی کے ہی طریقے ہیں، مگر اسلام نے مسلمانوں کو جو عیدالفطر و عیدالاضحیٰ کا نایاب تحفہ دیا ہے، وہ ہر طرح کے اسراف و نجاست سے پاک و صاف ہے، جس میں مسلمان دن کا آغاز دو رکعت شکرانے کی نماز سے کرتے ہیں اور پوری دنیا کے لیے دعاؤں کے ساتھ امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں، پھر اپنے اعز و اقارب کی ضیافت مختلف قسم کے پکوانوں سے کرتے ہیں۔
شریعت نے عیدالفطر کے سلسلے میں چند ہدایات بھی دی ہیں جن کا اعادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تکبیراتِ عید:
عید کی رات: یہ بھی عبادت کی رات ہے۔حضرت ابوامامہ ? فرماتے ہیں: تموت القلوب»
(قیام اللیل) "جو عید کی رات ایمان کے طور پر اور ثواب کی طلب کے لئے قیام کرے گا۔ تو اس کا دل قیامت کی ہولناکیوں میں مطمئن رہے گا” بعض سلف اس رات بھی چالیس رکعت ادا فرماتے تھے۔
غسل: عید کے دن غسل مستحب ہے،صحابہ و تابعین عید کے دن غسل فرمایا کرتے تھے۔
کپڑے: عید کے لئے نئے کپڑے پہننے چاہئیں۔ اگریہ میسر نہ ہوں، تو دھلے ہوئے پہنے۔
خوشبو: حضرت حسن? فرماتے ہیں کہ رسول اللہ? نے ہمیں حکم فرمایا : ” ہم عید کے دن عمدہ خوشبو استعمال کریں”
ناشتہ: عیدالفطر کے دن کچھ کھا کرنماز کے لئے جاناسنت ہے (ابن ماجہ)… کیونکہ اس دن روزہ رکھنا شیطانی فعل ہے۔ بہتر یہ ہے کہ میٹھی چیز ہو۔آنحضرت?اس دن کھجوریں کھانے میں طاق کا خیال رکھتے تھے۔ ہم لقموں میں طاق کی خیال رکھ سکتے ہیں۔
فطرانہ : نمازِ عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا چاہئے۔ یہ صدقہ صرف مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ نوکر ہو یا مالک، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، روزہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، آزاد ہو یا غلام، مسافر ہو یا مقیم سب کو اَدا کرنا چاہئے کیونکہ روزے میں بعض کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ صدقہ فطران کا کفارہ بن جاتا ہے۔
وزن: صدقہ فطر ایک مدنی صاع (مدینہ کا پیمانہ)ہے جو ہمارے وزن کے مطابق دو سیر گیارہ چھٹانک ہے۔ فی کس اتنی گندم یا اس کی قیمت ادا کرنا چاہئے۔
اجتماعیت: صدقہ فطر اَدا کرتے وقت اجتماعیت کو قائم رکھنا چاہئے۔ تمام مسلمانوں سے جمع کرکے تقسیم کرنا چاہئے۔ آنحضور ? کے زمانہ میں اس کی وصولی کا سرکاری انتظام تھا۔ حضرت عمر? بھی خود تقسیم کرنے کی بجائے اجتماعی کھاتہ میں جمع کروا دیتے تھے۔انفرادی طور پر دنیا پسندیدہ نہیں ہے۔
پیدل جانا: نماز عید کے لئے عیدگاہ کی طرف پیدل جانا بہتر ہے۔ آنحضرت ? سے اس سلسلے میں متعدد احادیث آئی ہیں۔ اکثر صحابہ? کا بھی یہی مسلک اور عمل ہے۔
تبدیلی راستہ: رسول اکرم ? ایک راستہ سے جاتے تھے اور دوسرے سے واپس تشریف لاتے اور راستہ میں تکبیراتِ عید کہتے۔
عورتیں بھی جائیں: حضور اکرم ?نے عورتوں کے عید گاہ جانے پر بھی زور دیا ہے حتیٰ کہ کسی عورت نے نماز نہ پڑھنی ہو تو بھی جائے۔ صرف خطبہ سن لے اور اجتماعی دعا میں شامل ہوجائے۔ لیکن عورتوں کو سادہ لباس پہن کر جانا چاہئے۔ بھڑکیلے لباس سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے۔ پاؤں کے جوتے بھی سادہ ہوں، خوشبو لگاکر ہرگز نہ جائیں۔
نماز کا وقت اور جگہ: طلوعِ آفتاب سے قبل زوال تک نمازِ عید کا وقت ہے۔ لیکن اول وقت میں ادا کرنا بہتر ہے۔ نماز شہر سے باہر کھلے میدان میں ادا کرنا چاہئے۔ آنحضرت? نے صرف بارش کے موقع پر مسجد میں نمازِ عید ادا کی ہے۔ عیدگاہ میں منبر نہیں ہونا چاہئے۔
اذان اور اقامت: آنحضرت ?نے نماز عید کیلئے کبھی اذان و اقامت نہیں کہلوائی (بخاری)
نماز کا طریقہ : عید کی نماز دو رکعت ہے اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ ۲۱ تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں قرائ ت سے پہلے کہنی چاہئیں۔
پہلے نماز پھر خطبہ: عیدگاہ جاکر امام پہلے نماز ادا کروائے پھر خطبہ دے۔ آنحضرت ? اور خلفائ ِ راشدین? کا یہی دستور رہا ہے۔
سورتیں : آنحضرت ? سورۃ فاتحہ کے بعدپہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اور دوسری میں سورۃ الغاشیہ، بعض اوقات پہلی میں سورۃ ق اور دوسری میں سورۃ القمر اور اسی طرح بعض دفعہ پہلی میں سورۃ الانبیائ اور دوسری میں سورۃالشمس پڑھا کرتے تھے۔
نفلی نماز نہیں: عید کے دن نما زِعید سے پہلے یا بعد کوئی نفلی نماز نہیں ہے۔
خطبہ عید : امام مالک? فرماتے ہیں:« لا ?نصرف حتی ?نصرف ال?مام» (موط?)
یعنی "خطبہ عید سنے بغیر کوئی آدمی عید گاہ سے نہ جائے”
مبارکباد: عید کے روزصحابہ کرام ? آپس میں ملتے تو یہ کہتے: «تقبل الل? منا ومن?» (فتح الباری) یعنی اللہ تعالیٰ ہم، تم سب سے قبول فرمائے۔
نماز کی قضا: اگر عید کی نماز رہ جائے تو دوسری نمازوں کی طرح اس کی قضا دی جاسکتی ہے (بخاری)
عید کے بعد چھ روزے: حضرت ابوایوب انصاری ? کہتے ہیں کہ رسول اللہ? نے فرمایا:
"جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لئے، اس کو سال بھر کے روزوں کا ثواب ہے”