آج کے سائنسی دور میں برقی ذرائع ابلاغ نے پوری دینا کو ایک گھر میں تبدیل کرنے میں جو اہم کردار ادا کیا ہے اس نے نہ صرف بین الاقوامی سطح پ تجارت میں ترقی کے امکانات پیدا کیے ہیں بلکہ ادب کے فروغ میں بھی سوشل میڈیا کے توسط اور استعمال سے اہم اور مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں. ادارہ ”منتہائے فکر” گزشتہ کئی برسوں سے سوشل نیٹ ورکنگ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اہداف کی جانب تیز رفتاری سے گامزن ہے. اس ادارے کے تحت جہاں زمینی سطح پر جموں اور پونچھ میں بعض منفرد پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں وہیں دوسری طرف سوشل میڈیا پر منتہائے فکر عالمی شعری ادارہ ایک نہایت ہی منظم لائحہ عمل کے مطابق ایک مخصوص برنامہ اپنائے ہوئے ہے. ادارہ ہٰذا قلمکاروں کو منفرد تخلیق کرنے کی تحریک کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے. طرحی مشاعروں کے عام چلن کے بر عکس ادارہ ”منتہائے فکر” ردیفی، قافیہ اور بحور پر مشاعرے منعقد کرواتا ہے جس کے نتیجے میں منفرد تخلیقات سامنے آ رہی ہیں لیکن یہاں ادبی روایات کی پاسداری میں بعض اوقات کسی سینئر یا استاد شاعر کے اعزاز میں طرحی مشاعرے بھی منعقد ہوتے ہیں اپنی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ادارے کے سرپرست ذوالفقار نقوی اور انتظامیہ نے گزشتہ اتوار یعنی 30جون2019کو شب 9 بجے اسی طرح کے ایک طرحی مشاعرہ کا انعقاد کیا جو برِ صغیر کے ایک نامور شاعر جناب امین جسپوری کے اعزاز میں منعقد ہوا. یہ مشاعرہ منتہائے فکر کے تحت منعقدہ چند اہم اور تاریخی مشاعروں میں سے ایک ثابت ہوا. اس تاریخ ساز مشاعرے میں ہندوستان، لندن، سعودی عرب، پاکستان، جرمنی اور امریکہ سے کل بیالیس شعرا نے اپنا اپنا معیاری کلام پیش کیا اور مہمان خصوصی جناب امین جسپوری کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کیا. یقیناً اس کامیابی کا سہرا اس ادارے کے بانی و سرپرست ذوالفقارنقوی اور مدیر اعلی شمشاد شاؔد، کاؔمل جنیٹوی، مہر ؔافروز، عرفان عارفؔ اور انتظامیہ کے سر جاتا ہے
.مصرع طرح .. ”اپنی خوشبو پہ خود ہی شیدا ہوں” شاعر: امینؔ جسپوری
مشاعرے میں پیش گئے کلاموں میں سے چنندہ اشعار قارئین کی نذر.
دھو نہ ڈالیں مرے تبسّم کو
اپنے ہی آنسوؤں سے ڈرتا ہوں
امینؔ جسپوری
مجھ سے اُمیدِ پارسائی کیوں
آدمی ہُوں کہ میں فرشتہ ہوں
ذوالفقار نقوؔی
ہے یہی ان دنوں غذا میری
زخم کھاتا ہوں اشک پیتا ہوں
شمشاد شاؔد
میں ابھی ہوں ہرا بھرا تازہ
یعنی حسرت نہیں تمنّا ہوں
رفیق رازؔ
کیوں معطر نہ ہو مرا لہجہ
میں بھی اردو زبان والا ہوں
کاملؔ جنیٹوی
جس پہ فطرت بھی ناز کرتی ہے
اُن جبینوں کا میں ہی سجدہ ہوں
ڈاکٹر مینا ؔنقوی
اعترافِ غزل بھی ہی لیکن
اب میں نعتِ رسول لکھتا ہوں
شفیقؔ رائے پوری
چونکہ تیرے لیے مہکتا ہوں
”اپنی خوشبو پہ خود ہی شیدا ہوں”
ایم اے سلامؔ
روزِ اوّل سے جس پہ شیدا ہوں
وہ مرا آئینہ میں اس کا ہوں
خمارؔ دہلوی
کوئی عنوان دے نہیں پایا
زندگی سب گزار آیا ہوں
محمد علی ایازؔ
میں جو گزرا تو پھر نہ آؤں گا
یوں سمجھ لو کہ ایک لمحہ ہوں
امیدؔ اعظمی
تیرے کوچے میں تیری دید لیے
ہوں سمندر میں اور پیاسا ہوں
نسیمؔ بیگم
لوگ کہتے ہیں مر گیا ہوں میں
کس کو آواز دوں کہ زندہ ہوں
اصغر شمیمؔ
سرپرستی رہیں غموں کی مگر
مست لمحوں سے میں بھی گزرا ہُوں
مہرؔ افروز
منظر دشت حزن میں یاؔور
خوں سے اپنے میں رنگ بھرتا ہوں
یاوؔر حسین
دھوپ کمرے میں سو گئی عریاں
مجھ کو سرکا دو کالا پردہ ہوں
علی شیدؔا
تشنگی کی قمر یہ حالت ہے
میں سمندر میں رہ کے پیاسا ہوں
ڈاکٹر قمر عالمؔ
توبھی بھٹکی ہوئی ہے شہزادی
میں بھی جنگل کا کوئی رستہ ہوں
جاوید عادؔل سوہاوی
سج رہی ہے صلیب میرے لیے
سچ کا حامی ہوں، حق شناسا ہوں
رفیعؔ سرسوی
رب کا تخلیق کردہ بندہ ہوں
اس کا باضابطہ خلیفہ ہوں
بی. ایم.خان معالےؔ اچلپوری
منظرِ حسن کا فسانہ ہوں
نکہتِ گل کا یار قصہ ہوں
مصطفیٰ دلکشؔ
بس کہ بے معنیٰ مسلک و مذہب
نسلِ آدم سے پیار کرتا ہوں
ذکیہؔ شیخ
جستجو تیری آرزو لے کر
میں بھی کچھ کاغذوں پہ بکھرا ہوں
شیخ علیمؔ اسرار
شازیہ خار چن کے راہوں سے
پھول میں تیرے نام کرتا ہوں
شازؔیہ طارق
پھول خوشبو ہوا کا جھونکا ہوں
میں غزل کا حسین لہجہ ہوں
احمد جمیلؔ
فیض میرا جہاں میں پھیلا ہے
کنزِ رحمت کا میں خزینہ ہوں
رضاؔ المصطفیٰ
پھول ہوں اور نہ کوئی غنچہ ہوں
ذہن و دل کا مگر شگفتہ ہوں
محمد افضل شاؔہد
پھول خوش رنگ پہن کے طیبہ کے
”اپنی خوشبو پہ خود ہی شیدا ہوں”
انعام الحق معصوؔم
جلنے والے جلیں بلا سے مری
میں منور ہوں اک اثاثہ ہوں
سیّدہ منوؔر جہاں
جب ستاتے ہیں غم ترے بیشمار
تیرا ہی دیکھتا میں رستہ ہوں
منظوؔر نونہ
خدمتِ خلق میرا مسلک ہے
میں خلوص و وفا کا چشمہ ہوں
شہناز شازؔی
وہ چلے بھی جو الٹے پاؤں قائم
میں تو دریا کے رخ ہی بہتا ہوں
سید حبدار علی قاؔئم
غم رسیدہ، اُداس، خوف زدہ
اپنے ہی شہر کا میں چہرہ ہوں
عادلؔ اشرف
التجا ہے بس اتنی حارث کی
کر لیں اپنا مجھے میں جیسا ہوں
محمد علی حارثؔ
یوں تو مٹی کا ایک پتلا ہوں
لیکن اللہ کا خلیفہ ہوں
سالم شجاؔع انصاری
سب کی اُلجھن کو خوب پڑھتا ہُوں
تب کہیں میں بھی شعر کہتا ہوں
جاویدؔ احمد
جب بھی تقسیم کی گئی میری
اپنے حصے میں کم ہی آیا ہُوں
شاہینؔ فصیح
شہرِ گل کا مکین تھا کل تک
آج صحرا کی خاک اڑاتا ہوں
سلیم رضا ؔ
کوئی ہمدم نہ مونس و غمخوار
ہے بڑا شہر اور تنہا ہوں
ضیا ؔشہزاد
تیرگی قلب کی مٹے کیسے
میں اجالا نہیں اندھیرا ہوں
انصاری عبد القاؔدر
میں ہی رازِ الست کا ہوں امیں
میں ہی روزِ ازل کا قصہ ہوں
ایم رضوان عدؔم
جناب امین جسپوری نے اپنے صدارتی خطبہ میں منتہائے فکر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ادارے کی اوّلین مشمولات کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس ادارے کو اچھے رپورٹر، مبصّرین، ناقدین اور منصوبہ سازوں کا تعاون حاصل ہے۔ لہٰذا ادارہ اپنے قلم کاروں کی تخلیقات کو عالمی سطح پر اردو دوستوں تک پہنچانے کا مصمم ارادہ ارادہ رکھتا ہے اس کا اندازہ آپ کو منتہائے فکر سہ ماہی ای رسالے کے اعلان سے ہو چکا ہو گا۔ جس کے وسیلے سے آپ کی تخلیقات عالمی سطح پر الیکڑونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پیش کی جائیں گی۔ لہٰذا میں آپ سبھی مخلصین اور اردو دوستوں سے گزارش گزار ہوں کہ آپ معیاری ادب تخلیق فرمائیں۔ جسے یہ ادارہ دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم مل کر اردو کے فروغ کے لئے ملکوں، خطّوں اور علاقائیت کی سرحدوں سے اوپر اٹھ کر شانہ بشانہ متّحد ہو کر فعّال ہو جائیں اور کرّہ? ارض کو اردو کی خوشبو سے معمور کر دیں۔ادارے میں فعال رہئے اور اپنی سرگرمیوں سے اپنی اردو دوستی کا ثبوت دیتے رہئیے-
آخر میں مشاعرے کے مہتمم جناب شمشاد شاؔد نے صدر مشاعرہ جناب امینؔ جسپوری اور شرکاء کا شکریہ ادا دیا اور اس طرح قارئین ایک بہترین ادبی نششت سے محظوظ ہوئے.