رمضان المبارک ربانی تربیت کا مہینہ

0
0

مقصود احمد ضیائی

بے زبانوں کو جب وہ زبان دیتا ہے
پڑھنے کو پھر وہ قرآن دیتا ہے
بخشش پہ آتا ہے جب امت کے گناہوں کو
تحفے میں گناہ گاروں کو رمضان دیتا ہے
اللّٰہ رب العزت کی رحمت کی شمعیں کائنات انسانی کے گلشن صد رنگ کو تا دم آخریں پیہم سیراب کرتی رہتی ہیں ؛ رب کریم کی صفت کرم ایک ساعت کے لیے بھی اگر دست کش ہوجائے تو کوئی بھی ابن آدم باحیات نہ رہ سکے۔ اس کی ربوبیت کا کیا ٹھکانا ہے۔ خیر! انسان تو اشرف المخلوقات ہے اللّٰہ رب العزت تو ایسے رب ہیں کہ اس ذات باری تعالٰی نے ہر ذی روح چیز کا ایسا حکیمانہ نظام قائم کیا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی سی چیونٹی اور چٹان کے سینے میں کیڑے کی پرورش میں بھی کبھی تخلف نہیں ہوتا۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے ایک بار حق تعالٰی سے سوال کیا کہ بار الٰہا! آپ مخلوق کو رزق کس طرح پہنچاتے ہیں اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا اے موسٰی! آپ کے سامنے جو پتھر ہے اس کو توڑو ، حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس پتھر کو توڑا اس میں سے ایک اور پتھر نکلا۔ فرمایا کہ اس کو بھی توڑو! وہ بھی توڑا اب کی بار اس میں سے ایک کیڑا نکلا؛ جس کے منہ میں ہری گھاس کا تنکا اور اس کے اوپر شبنم کا قطرہ تھا گویا کہ یہ اس چھوٹے سے کیڑے کے لیے رزاق عالم کی طرف سے بریانی کی تھیلی اور پانی کی بوتل حضرت موسٰی علیہ السلام دیکھ کر حیران رہ گئے حق تعالٰی نے فرمایا کہ موسٰی کان لگا کر سنو یہ کچھ کہہ بھی رہا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے جب سنا تو وہ کہہ رہا تھا تمام تعریفیں اس رب کے لیے ہیں جو مجھ چھوٹے سے کیڑے کو پتھر کی اس تاریکی میں بھی رزق پہنچا رہا ہے۔ ہر چیز اللّٰہ وحدہ لاشریک کی تسبیح پڑھتی ہے دکتور عائض القرنی حفظہ اللہ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف (لاتحزن) میں ایمان افروز تذکرہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ” پرندوں کی دنیا میں ہْدہْد نے اپنے رب کو پہچانا اس کی اطاعت کی اس کی فرماں برداری کی۔ اللّٰہ پاک نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے تذکرے میں فرمایا کہ ” اس نے پرندوں کا جائزہ لیا۔ کہا کیا بات ہے کہ ہْدہْد نظر نہیں آ رہا کیا وہ غائب ہوگیا۔ اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا یا تو وہ کوئی واضح دلیل لے کر آئے ، تھوڑی دیر کے بعد وہ آکر بولا مجھے معلوم ہوا ہے کہ جو آپ کو معلوم نہیں میں اہلِ سبا کی یقینی خبر لایا ہوں میں نے پایا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے میں نے اس کو اور اس کی قوم کو اللّٰہ تعالٰی کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے۔ شیطان لعین نے ان کے کام ان کو بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے وہ ہدایت پر نہیں آتے کہ اسی اللّٰہ وحدہ لاشریک کے لیے سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے سلیمان نے کہا اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹا ہے میرے اس خط کو لے جاکر انہیں دیدے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ ہْدہْد جاتا ہے اور پھر وہ قصہ پیش آیا جو معروف ہے جس کے تاریخی تنائج ہوئے۔ اس کا سبب وہی پرندہ تھا جسے معرفت رب حاصل ہوئی تھی۔ حتٰی کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ ہْدہْد فرعون سے بھی زیادہ دانا نکلا۔ فرعون نے خوش حالی میں رب کی نافرمانی کی اور مصیبت آتی دیکھ کر ایمان لایا ، لیکن اس وقت اس کے ایمان نے فائدہ نہ دیا۔ ہْدہْد نے خوش حالی میں ایمان سے کام لیا جو شدت کے وقت میں اس کے کام آیا۔ ہْدہْد نے کہا ” وہ اس الٰہ واحد کے لیے سجدے نہیں کرتے جو پوشیدہ چیزوں کو نکال دیتا ہے۔” اس کے برعکس فرعون کہتا تھا ” میرے سوا کون تمہارا الٰہ ہے۔” جس آدمی سے پرندہ بھی زیادہ ذکی ہو ، چیونٹی بھی جس سے زیادہ انجام کی سمجھ رکھتی ہو ، اس کی شقاوت اور بدبختی میں کیا شبہ ہوسکتا ہے ، وہ پلید ہی تو ہے جس کے راستے بند ، تدبیریں منقطع اور اعضائ￿ معطل ہوجائیں۔ فرمایا کہ ان کے دل ہیں جن سے سمجھتے نہیں ” آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے نہیں ، کان ہیں ، جن سے سنتے نہیں۔ ” شہد کی مکھیوں کی دنیا میں اللّٰہ پاک کا لطف و کرم اور عنایت ربانی دیکھئے ، یہ مخلوق کتنی معمولی اور چھوٹی ہے۔ اللّٰہ کے حکم سے وہ اپنے چھتہ سے نکلتی ہے ، پاکیزہ اور خوشبودار چیزوں پر بیٹھتی ہے اور ان کا مشروب چوس لیتی ہے اسے پھولوں سے پیار اور کلیوں سے عشق ہے۔ ان سے واپس آتی ہے ، اپنے ہی خلیہ میں جاتی ہے اور ایسا عمدہ مشروب بناتی ہے ، جس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے اور رنگ مختلف وہ راستہ نہیں بھولتی دوسروں کے خلیہ میں کبھی نہیں جاتی۔ ” اور تیرے رب نے شہد کی مکھیوں کو وحی کر دی کہ ” پہاڑ ” درختوں اور چھپروں کو اپنا مسکن بنائے ، پھر تمام پھلوں کو کھائے اور رب تعالٰی کے آسان کردہ راستوں پر چلے ، اس کے پیٹ سے ایسا مشروب نکلتا ہے ، جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔ بلاشبہ اس میں تفکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہے۔ ” ان قصوں اور عبرت آموز واقعات سے آپ کو فائدہ یہ ہوگا کہ یہ جانیں گے کہ اللّٰہ وحدہ لاشریک کا لطف خفی ہر طرف جاری و ساری ہے اس لیے بس اسی کو پکاریں ، اسی سے لو لگائیں ، اسی سے مانگیں اور یہ سارے لوگ یہ پوری دنیا اس کے مقابلے میں آپ کے کسی کام کی نہیں ، یہ سب مساکین ہیں اور سب اللّٰہ وحدہ لا شریک کے محتاج ہیں ، اللّٰہ رب العزت ہی سے یہ سب صبح و شام اپنے لیے آرام خوش حالی صحت و عافیت و دولت اور جاہ و منصب کی گزارش کرتے ہیں کیونکہ ہر چیز کا مالک بس وہی اکیلا ہے۔ ” اے لوگو! تم اللّٰہ کے محتاج ہو اور وہ حمید و بے نیاز ہے۔” آپ کو پورے طور پر اور علم الیقین کی حد تک جاننا چاہیے کہ اللّٰہ کے علاوہ کوئی نہ ہدایت دے سکتا ہے۔ لہذا دل کو بس اسی سے جوڑئیے۔ عزت کا مالک وہی ہے ، سب اسی کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔
کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق
زباں اور دل کی شہادت کے لائق
اسی سے ڈرو گر ڈرو تم کسی سے
اسی پہ مرو گر مرو تم کسی پہ
اس کی عبادت اور اطاعت سے اس کا قرب حاصل کریں۔ اگر اس سے استغفار کریں گے وہ معاف کر دے گا۔ توبہ کریں گے تو توبہ قبول کرے گا۔ اس سے مانگیں گے تو دے گا۔ اس سے رزق چاہیں گے تو روزی دیگا ، مدد چاہیں گے تو مدد دے گا۔ اس کا شکر کریں گے تو آپ کو اور زیادہ دیگا۔الحاصل کائنات انسانی میں سے جو خوش نصیبان ازل ایمان کے ساتھ زندہ ہیں ان کے لیے ارکان اسلام تو یقینی طور پر اس ایمانی زندگی کے برگ و بار ہیں ، اس سے آگے بڑھ کر اسلامی مہینوں میں سے رمضان المبارک کا مہینہ ربانی تربیت کا مہینہ ہے اس تربیت میں انسانی روح کے ساتھ انسانی جسم بھی شریک ہے ؛ انسانی اخلاق کے انسانی افکار بھی شامل ہیں۔ ماہ صیام میں حق تعالٰی نے اہل ایمان پر روزے فرض کیے ہیں اور اسی ماہ مقدس میں قرآن عظیم الشان کو بھی نازل فرمایا حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ دین کے کامل ہونے کا نام تقوٰی ہے اور روزہ انسان کے اندر تقویٰ ہی پیدا کرتا ہے ؛ جس نے اخلاص اور صحیح نیت کے ساتھ روزہ رکھا تو اس کو ہر چیز میں شریعت کے اصولوں کی رعایت کی فکر پیدا ہوگی دین کے ہر معاملہ میں فکر کا پیدا ہونا یہ مقدمہ ہے اچھائیوں کے اہتمام برائیوں سے اجتناب کا معروفات کا اہتمام منکرات سے عملی طور پر اجتناب یہ حاصل ہے تقویٰ کا اور روزہ اسی کا ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک خدا تعالٰی کی رحمتوں و برکتوں کی بارش کا موسم بہار ہوتا ہے ماہ صیام کا مقصد انسان کو ضبط نفس کی تربیت دینا ہے رمضان المبارک محتاجوں ؛ یتیموں ، بیواؤں ، مسکینوں ؛ بے سہاروں ، بیکسوں ، بے بسوں لاچاروں اور مجبوروں کی مدد کا مہینہ ہے رمضان میں جن معذورین کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ان کے لیے تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ اعلان نہ کریں پردے میں رہیں دوسرا یہ کہ گھر کے بچوں کو بھی پتہ نہ چلے ان میں جرائ￿ ت پیدا ہوجائے گی کہ ہمارے بڑے کھاتے پیتے رہتے تھے غلط بات ہے اچھائیاں چھوڑ کر جائیں برائیاں نہ چھوڑ کر جائیں
دنیا میں رہے غم زدہ یا شاد رہے
ایسا کچھ کر کے چلے تاکہ یاد رہے
اور روزے داروں کے ساتھ رہے افطار کے وقت جب دسترخوان لگے تو یہ بھی ساتھ رہے ثواب ملے گا۔ چونکہ شرعی عذر سے روزہ نہیں تھا لیکن افطار کے دسترخوان پر موجود رہے۔
وبالاختصار : کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاو۔ ہم لوگ حاضر ہوگئے۔ جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا امین۔ جب دوسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا امین۔ جب تیسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا امین۔ جب اپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے اج اپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ اپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل میرے سامنے ائے تھے (جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا امین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا توانہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا امین۔
جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پاویں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں ، میں نے کہا امین۔رمضان المبارک کا مہینہ سال کے تمام مہینوں میں سب سے افضل اور رحمت الٰہی کے نزول کا بہترین موسم ہے ، اللّٰہ تبارک وتعالٰی نے سب سے افضل و مبارک کتاب کو سب سے افضل نبی پر نزول کے لئے اسی مہینہ کا انتخاب کیا ہے ارشاد خداوندی ہے کہ ” رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ’’۔ اس مبارک ماہ کی آمد پر جنت کے دروازے اہل ایمان کے لئے کھول دئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، یہ سب کچھ رمضان المبارک کے استقبال اور اہل رمضان پر خصوصی رحمتوں کی غرض سے ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ پورے رمضان ہر شب ایک نِدا دینے والا نِدا دیتا ہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اس لئے کہ مغفرت الٰہی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور رحمت الٰہی کی بارش ہورہی ہے ، اور اے برائی کرنے والے رک جا ، اس خیر و برکت کے مہینے میں برائیاں کرنا اور اپنی پرانی روش پر جمے رہنا ایک مومن کے شایان شان نہیں ہے واضح ہے کہ جو شخص اس مبارک ماہ کی برکتوں سے محروم رہ جائے ، رحمت الٰہی کی بارش میں نہ نہائے اور مغفرت الٰہی کے سایہ میں نہ آئے اس سے زیادہ محروم انسان اور کون ہوسکتا ہے ؟ دعا ہے اللّٰہ رب العزت ہر ایمان والے کو ماہ صیام کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے ماہ صیام کے طفیل مالک کائنات پوری امت مسلمہ سے ہمیشہ کے لیے راضی ہوجائے۔ آمین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا