۰۰۰
بینام گیلانی
۰۰۰
اقلیم ہند کو حصول آزادی میں کم و بیش ایک صدی لگ گئی۔اس حصول کے لئے اہل فرنگ سے کئی جنگیں عمل پزیر ہوئیں۔جنگوں کی نوعیت بھی جدگانہ رہی۔ اس حصول آزادی کی جنگوں میں لاکھوں انسانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔کتنے ہی گھر اجڑے،کتنے ہی خاندان اجڑے،تب جا کر وطن عزیز کو آزادی میسر ائی۔لیکن صد افسوس موجودہ وفاقی حکومت اتنی قربانیوں کی قیمت پر حاصل شدہ آزادی کو ختم کرنے کے لئے اس قدر عجلت میں ہے کہ اس پر ایک ایک روز پہاڑ گزر رہا ہے۔معلوم نہیں کیوں کچھ اہل وطن کو وطن عزیز میں موجود عوامی اتحاد و اتفاق، مذہبی ہم آہنگی ،قومی یکجہتی اور بھائی چارہ گوارہ نہیں ہے۔یہ ان ہی لوگوں کی نسلیں ہیں جنہوں نے جنگ آزادی میں اہل فرنگ کی غلامی کرتے ہوئے مجاہدین آزادی کی پشت میں خنجر چبھوئے تھے۔انتہائے ستم تو یہ ہوئی کہ ایسے ہی لوگوں کی زبان پر آج قومیت اور راشٹر واد کے نعرے کثرت سے نظر آتے ہیں۔یہ اہل فرنگ کے پجاری ان لوگوں سے قومیت اور حب الوطنی کے ثبوت طلب کر رہے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی کے لئے اپنے اسلاف کو کھو دیا۔ایسے محب وطن کی نسلوں کو ان غدار وطن کی نسلیں مشکوک و مشتبہ ثابت کر نے کی مساعی میں شب و روز کوشاں نظر آتے ہیں۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جنہوں نے وطن عزیز کے لئے قربانیاں دیں۔ان ہی کا کردار مشکوک و مشتبہ بنا دیا گیا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ یہ سب قومیت اور راشٹر واد کے نام عمل پزیر پر ہو رہا ہے۔معلوم نہیں کیوں لوگوں نے مذہب یا دھرم کو منافرت کا سر چشمہ بنا رکھا ہے۔ناچیز کے خیال سے دنیا کا کوئی بھی مذہب انسان اور انسانیت سے نفرت کا درس نہیں دیتا ہے۔وہ خواہ اسلام ہو،سناتن ہو،عیسائیت ہو یا یہودیت۔اقلیم ہند میں جس دھرم کے نام پر اس قدر غیر انسانی واقعات رونما کئے جا رہے ہیں۔وہ سناتن دھرم تو سرو کٹمبکم کا درس دیتا ہے۔جس دھرم میں چھتریہ رام چندر جی شدر کیوٹ کو عزت بخشا،شدر سبری کا جوٹھن کھایا،سدنا قصائی سے نفرت نہیں کیا۔شومء تقدیر کہ اسی رام کے نام پر رام جی ہی کے پیروکار اس قدر نفرتوں کا بازار گرم کئے ہیں کہ خود حیوانیت بھی یہ دیکھ کر شرمندہ ہونے لگی ہے۔۔جس شخص کو پرشوتم کا لقب ملا ہو اسی کے نام پر خود اس کے پیروکار اس قدر ذلالت بھرا کام انجام دے رہے ہیں۔یہ واقعی لمحہء فکریہ ہے۔
رامائن جو سناتنوں کا دھارمک گرنتھ ہے۔اس میں بیشتر کردار سازی پر زور دیا گیا ہے۔وہ خواہ بن باس کا معاملہ ہو یا راون ودھ کا یا کہ لکشمن کے ذریعہ مجروح راون سے گیان پراپتی کا۔رامائن میں طرز گفتگو کا بھی درس ہے اور طریقہء سیاست کا بھی۔چھوٹوں کو چھوٹا نہ سمجھنے کا درس بھی ہے اور بڑوں کا احترام کرنے کا بھی۔رشتوں کی قدر کا بھی درس ہے اور والدین کے حکم کی بجا آوری کا بھی۔قول و فعل میں یکسانیت کا بھی پیغام ہے اور قول کی پاسداری کا بھی۔پڑوسیوں کے حقوق کا بھی درس ہے اور انسانیت کی پاسداری کا بھی۔اس میں جو ورنواد ہے وہ سبھوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔اس ورنواد میں برہمنوں کے مفاد کا ضرورت سے زیادہ ہی خیال رکھا گیا ہے۔اب جو لوگ وطن عزیز میں مذہبی منافرت پھیلا کر عنان اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔وہ سب کے سب برہمن ہی ہیں۔ماضی بعید میں برہمنوں کی مفاد پرستی ہی تھی کہ پورے معاشرے کو چار ورنوں میں تقسیم کر کے تحریری طور پر محفوظ کرلیا گیا۔
اقلیم ہند میں یوں تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جو بھی لاقانونیت یا من مانیاں کسی وبا کی مانند پھیلی ہیں۔وہ سب برہمن واد کے نقطہء نظر کے تحت ہی ہیں۔اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے پس پشت برہمنوں کی وہ ٹولی ہے جس میں غیر برہمن ایک بھی رکن نہیں ہے۔اس ٹولی کا نام نامی آر ایس ایس ہے۔اس آر ایس ایس کا یہ دیرینہ خواب تھا کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کر دیا جائے۔کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب کے پیروکاروں کا کوئی نہ کوئی اپنا کم از کم ایک ملک ضرور ہے۔یعنی وہ ملک جہاں کا آئین صرف ہندو دھرم یعنی سناتن دھرم سے مطابقت رکھتا ہو اور اس ملک کا کوئی بھی فرد کسی دوسرے مذہب کا پیروکار نہ ہو۔شاید یہ ان لوگوں کا عجوبہ خواب یا احمقانہ آرزو ہے۔کیونکہ دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں۔ان تمام ممالک میں کئی کئی مذاہب کے پیروکار متحد ہو کر رہتے ہیں۔۔لیکن افسوس کہ ارض ہند پر باہمی اتحاد و اتفاق اور مذہبی رواداری و ہم آہنگی کو کسی بد نظر کی نظر لگ گئی ہے۔۔ایک بییقینی کی فضا ہر آن یہاں رقص فرما رہتی ہے۔مذہبی عناد کی گرد انسانی ذہن پر اس قدر دبیز ہے کہ اب اس سے نجات ناممکن ہی نظر آتی ہے۔یہ سب اپنی جگہ مسلم۔لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں انجام پزیر ہو رہا ہے۔اسی کے باہم یہ بھی کہ ان فرقہ پرستوں کے طرز عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ کافی تعجیل میں سارے اقدام کرنے کو مجبور ہیں۔کسی بھی عمل میں عجلت کا در آنا اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ عجلت کرنے والا کسی نہ کسی سے خوفزدہ ہے۔اسے اس امر کا علم ہے کہ ہر عمل میں درمیانہ رفتار ہی کارگر اور کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔تعجیل میں سدا ناکامی کا اندیشہ غالب ہوتا ہے۔
موجودہ ہندوستانی وفاقی حکومت خود کو ہندو وادی حکومت ثابت کرنے کے لئے تمام حدود پار کئے جا رہی ہے۔لیکن اس کی کم نصیبی یہ ہے کہ خود اس کے سادھو سنت حتیٰ کہ شنکرا چاریہ بھی اسے ہندو وادی تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ان کا جو دانشور و تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ بھی اسے ہندو وادی نہیں تسلیم کرتا ہے۔خصوصی طور سے رامانند سرسوتی اور بھیم راؤ امبیڈکر کے پیرکار اسے حقیقتاً ہندو مخالف حکومت ہی تصور کرتے ہیں۔یہ سب اس وفاقی حکومت کو صرف اور صرف منو وادی حکومت سمجھتے ہیں۔۔جس طرح راجا منو نے سناتنوں کے نچلے طبقے کا استحصال کیا اور اس پر جبر و مظالم و اسبداد و استحصال کی ضرب لگائی۔یہ منو وادی اسی دور کے احیا کے لئے کوشاں ہیں۔تا کہ اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں رہے۔ بقیہ سب ان کے آگے سر نگوں اور سراپا سپاس رہیں۔اس کا معنی یہ ہوا کہ جس منو مہراج کو یہ ہندوتوا وادی، ہندوئوں کے سرخیل ثابت کرنے میں مصروف و مشغول ہیں وہ تمام ہنئوں کے ہمدرد نہیں تھے بلکہ انہوں نے صرف سورنوں کے جائز و ناجائز مفاد کو ملحوظ خاطر رکھا۔اج بھی کتاب منو سمرتی راجا منو کے ان خیالوں کی شہادت دے رہی ہے۔جبکہ دیگر تمام گرنتھوں میں وقت کے تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے تصرف فرمایا گیا ہے .لیکن چونکہ منو سمرتی خاص طور سے شدروں کو رام کرنے کے لئے خلق کی گئی ہے۔یہی سبب ہے کہ یہ برہمن وادی حکومت اسی منو سمرتی کو آئین ہند کا درجہ دینے کے لئے کوشاں ہے۔یہ تمام امور اپنی جگہ مسلم لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ برہمن وادی قوتیں بر سر اقتدار رہتے ہوئے بھی خوفزدہ نظر آتی ہیں۔یہ مسلمانوں کو بلا تاخیر ملک بدر کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ تو دوسری جانب سارے ہندوستانی عوام کو اندھ بھکت بنا کر جہالت کا شکار بنانا چاہتی ہیں۔یہ وفاقی حکومت اس سے واقف ہے کہ ہندوستان کا ہر طبقہ اگر ذی علم ہو جائے گا توان کی تمام سازشیں اجاگر ہو جائیں گی۔ایک جمہوری ملک کے عوام کے کیا کیا حقوق ہیں اور موجودہ حکومت کن کن حقوق کا استحصال کر رہی ہے۔ ان تمام حقائق سے سب کے سب واقف ہو جائیں گے۔پھر اس حکومت کے خلاف بغاوت ہونا ناگزیر ہی ہوگا۔چنانچہ اس روز اور اس وقت سے آر ایس ایس کے علاوہ ارباب اقتدار بھی انتہائی خوفزدہ ہیں۔انہوں نے تو یہ سوچا تھا کہ سناتن کا سب سے نچلا طبقہ تو مطلق علم و فہم سے محروم ہے۔اسے دھرم کے نام پر ورغلا کر مسلم مخالف بنایا جا سکتا ہے۔یا ان کے آگے کچھ چارہ پھینک کر انہیں غلام بنایا جا سکتا ہے۔رہا درمیانہ طبقہ کا معاملہ تو اس پر قابو پانے میں تھوڑی دقت تو پیش آ سکتی ہے۔کیونکہ ایک جانب یہ ضروت مند بھی ہے تو دوسری جانب اس کے ہاں علم و فہم بھی موجود ہے۔یہ طبقہ اپنے سیاسی،سماجی و اقتصادی حقوق سے واقف ہے۔اسے رام کرنے میں تھوڑی دقت تو پیش آئیگی ہی۔چنانچہ اسے سیاست میں تھوڑی حصہ داری دے دی گئی۔لیکن بس تھوڑی ہی۔ اس کے لئے بھی اس معاشرے سے ایسے ہی لوگوں کو منتخب کیا گیا ہے جو ان کی ہاں میں ہاں ملا سکیں بلکہ یوں کہ لیا جائے کہ ان کی غلامی قبول کر سکیں۔
لیکن صد افسوس کہ یہ طبقہ بھی تغافل عارفانہ کا شکار ہے۔انتہا تو یہ ہے کہ اس طبقے کے سیاستدانوں نے اپنے زاتی مفاد کے لئے اپنی پوری ٹولی کا مستقبل دائو پر لگا دیا۔اس نے بڑی ہی سرعت سے اپنے لوگوں کے پائوں میں غلامی کی بیڑیاں ڈالنے میں برہمن وادیوں کی پوری پوری مدد کی۔ناچیز کو ان لوگوں پر افسوس آتا ہے جو ان تمام معاملات کی فہم رکھتے ہیں۔لیکن اپنے قبیلے کو فروخت کرنے والوں کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کرتے ہیں۔بہر کیف یہ برہمن وادی ان کی اسی کمزوری نیز لالچ و ہوس کا فائیدہ اٹھار حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھے رہتے ہیں۔یہ جو معاصر دور میں عمل پزیر ہو رہا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ 5000 سال قدیم ہے۔
اب زرا اس امر پر غور کیا جائے کہ جب عنان اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہے۔ساری حکومتی مشینری ان کے اشارے پر رقص کرتی نظر آتی ہے۔اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ان برہمن وادیوں میں امروز ایک دہشت و وحشت پائی جارہی ہے۔اس کا کیا سبب ہے۔دراصل انہیں اس امر کا بخوبی علم ہے کہ جھوٹ کی ہانڈی بہت دیر تک نہیں رہتی ہے۔چنانچہ ان کی انتہائی کوشش ہے کہ ہندوستان سے جس قدر جلد ہو جمہوریت کو ختم کر دیا جائے۔اسی کے باہم منو سمرتی کو بھی جس قدر جلد ہو آئین ہند میں تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اسی جمہوریت کے سبب ہی ہندوستان میں سبھوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔وہ خواہ برہمن ہوں ،چھتریہ ہوں، او بی سی ہوں ،ایس ٹی ہوں یا ایس سی ہوں یا اقلیت ہوں۔ سبھوں کے مساویانہ حقوق ان برہمن وادیوں کو نہ کل قبول تھے اور نہ آج ہیں۔جب آئین ساز کمیٹی کی تشکیل ہوئی تھی تب بھی انہوں نے اعتراض کیا تھا۔ آج بھی انہیں مساویانہ حقوق پر اعتراض ہے۔یہی سبب ہے کہ ان کی جانب سے مسلمانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ پاکستان چلے جائو یا مرتد ہو جائو۔یہ تو مسلمانوں کے حق رائے دہی کے بھی مخالف ہیں۔ان کے علمبرداروں کے ذریعہ بارہا یہ مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانوں سے حق رائے دہی چھین لی جائے۔حیران کن امر یہ ہے کہ اس طرح ایک جمہوری ملک میں کھلے عام کچھ لوگ مسلم دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن حکومت بھی خاموش ہے،
انتظامیہ بھی خاموش ہے اور عدلیہ بھی خاموش ہے۔یعنی ان سبھوں کی خاموش حمایت ان غیر جمہوری تخریب پسند افراد کو حاصل ہے ایسے میں وطن عزیز میں امن و امان اور اتحاد اتفاق کا شیرازہ بکھرنا لازم ہے۔اس قسم کے غیر جمہوری بیانات و اعلانات اقلیم ہند کے لئے کس قدر زیاں رساں ہیں اس کا اندازہ ہر کس و ناکس لگا سکتا ہے۔یہ سارے غیر جمہوری اعمال پے بہ پے کثرت سے عمل پزیر ہو رہے ہیں۔جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت مسلم مکت بھارت بنانے کے لئے کافی عجلت میں ہے۔ایک مضبوط و مستحکم حکومت جو من مانی کر کے مسلمانوں کے سینے میں کئی ذخم لگا چکی ہے آج اسے کس سے کیسا خوف ہے کہ اس عاجلانہ اقدام کو مجبور ہے۔اس کا علم تو اسے ہی ہے۔ویسے عوام بھی کافی ذی فہم ہو چکے ہیں۔ [email protected]
٭٭٭