الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب کی شخصیت

0
0

ایم شفیع رضوی

کون تھے الحاج بشیر احمد
جموں کشمیر میں گجر بکروال قبیلہ سے تعلق رکھنے والی کئی ایک نامور شخصیات گزری ہیں جنہوں نے وقتا فوقتا اپنے قبیلہ کی رہنمائی اور رہبری فرمائی ہے۔ اور قبیلہ سے وابستہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ناقبل فرموش کارنامے انجام دیے ہیں۔ انہی شخصیات میں سے ایک شخصیت حضرت الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب کی بھی تھی۔
جن کی پیدائش ریاست جموں کشمیر کے ضلع ریاسی کے موڑا لسولی تھرو میں 2۔ اپریل 1924 ء کو نمبردار الحاج نظام الدین صاحب کے گھر ہوئی تھی۔ جو نمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی جامع مسجد کے امام بھی تھے۔
الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب نے بچپن سے ہوش سنبھالنے کے بعد ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے والد گرامی الحاج نظام الدین صاحب ہی سے شروع کیا اْس زمانے میں اسکولوں کی سولہات اتنی زیادہ نہیں تھی۔
اس کے باوجود بھی موصوف نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصہ بعد ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا اور اسی دوران ملک کا بٹوارا بھی ہو گیا۔
سن 1947 ئکے بعد جب حالات معمول کی طرف لوٹے تو جموں کشمیر کے سابقہ وزیر اعلی مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے ایک نی سیاست کا آغاز شروع کیا اور ہر کوئی اپنے اپنے حقوق کی باتیں کرنے لگا تو الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب نے گجر بکروال قبیلہ سے تعلق رکھنے والی مشہور و معروف شخصیت اور اپنے قریبی ساتھی مرحوم الحاج بلند خان صاحب کے ساتھ مل کر جموں کشمیر کے سابقہ وزیر اعلی مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی تنظیم نیشنل کانفرنس میں حصہ لیا اور اس طرح سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور سیاست میں آکر ایک اہم رول ادا کیا اور اپنے قبیلہ گجر بکر وال کی فلاح و بہبود کے لیے جدوجہد شروع کی کیونکہ وہ ایک ایسا دور تھا۔ جس میں گجر بکروال قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بڑی ہی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
کیونکہ وہ دور شخصی راج کا دور تھا گجر بکروال قبیلہ کے لوگوں کے حقوق کو تلف کیا جاتا تھا۔ بنیادی سولہات سے محروم رکھا جاتا تھا۔ الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب نے نیشنل کانفرنس کی رکنیت حاصل کی اور پھر نیشنل کانفرنس تنظیم کے تحصیل صدر بھی رہے اور تقریبا 25 سال تک سرپنچ کے عہدے پر فائض رہے۔ اور ایک مرتبہ پانچ سال تک کے لیے چیئرمین بھی چنیں گے۔
موصوف جس پنچائت کے سرپنچ تھے۔ اس ایک پنچائیت کی آج لگ بھگ ایک درجن سے زیادہ پنچائیتیں بنی ہوئی ہیں
موصوف نے سیاست میں آکر اپنے علاقہ اور قبیلہ کی فلاح و بہبود کے لیے انتھک کوشش اور محنت کی اور سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔
الحاج بشیر احمد نقشبندی شروع ہی سے صوم صلاہکے پابند تھے۔ جس کی بنیاد پر والد گرامی نے عمر دراز ہونے کی وجہ سے جامع مسجد شریف لسولی کی امامت کی ذمہ داری موصوف کو سونپ دی اور دو مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ موصوف نے بغیر کسی وظیفہ کے تقریبا چار دہائیوں سے زائد عرصے تک امامت کے فرائض انجام دئے الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب کا اپنے علاقے میں بہت اچھا رسوخ تھا۔ عوامی مسائل کو حل کرنے میں بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔
برادری کے آپسی جھگڑوں نفرتوں رنجشوں کو بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا کرتے تھے۔
تحصیل مہور کے اکثر علاقوں سے لوگوں اْن کے پاس اپنے مسائل کو حل کروانے کے لیے آیا کرتے تھے۔
موصوف اپنے قبیلہ کی سیاسی طور پر اور دینی طور پر رہبری کرتے کرتے 31 مارچ 2009 ء کو اس دنیا فانی کو خیر آباد کہہ کر اپنے ملک حقیقی سے جا ملے۔
الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب کی تعلیم و تربیت کا یہ اثر ہے۔ کہ آج موصوف کے کنبہ میں سات بڑے افیسر ہیں اور 35 سے زائد دیگر چھوٹے بڑے ملازم ہیں۔
الحاج بشیر احمد نقشبندی نے ولی کامل حضرت الحاج بابا سید نوران شاہ نورانی نقشبندی رحمت اللہ علیہ سے روحانی بیت حاصل کی اور اس طرح سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں روحانی تربیت حاصل کی اور حضرت الحاج بابا سید نوران شاہ نورانی نقشبندی رحمت اللہ علیہ نے الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب کی پرہیزگاری اور صوم صلاۃ کی پابندی اور قرآن و سننت کے ساتھ لگاؤ کو دیکھتے ہوئے خلافت بھی عطا فرمائی۔
اس طرح الحاج موصوف نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مطابق اور اولیاء کرام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے ایام گزارے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک عوام الناس کو بھی تعلیمات اولیاء کرام پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرماتے رہے۔
موصوف دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات سے بھی اپنے قبیلہ کے لوگوں کو آراستہ کرتے رہے۔ اور قرآن و سننت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین فرماتے رہے۔ اور اپنے قبیلہ کو اتفاق اتحاد کی رسی میں پرو کر رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔
الحاج بشیر احمد نقشبندی صاحب اپنی ساری زندگی نشہ آور اشیاء کے استعمال سے اور خلاف شرعا باتوں سے سختی کے ساتھ منع کیا کرتے تھے۔
جس کا اثر تقریبا آج بھی معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ موصوف کی وفات کے بعد ہر سال 31 مارچ کو اْن کی یاد میں ایک دعائیہ محفل کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کثیر تعداد میں عوام الناس شرکت کرتی ہے۔ اور اْن کے ساتھ مجلسوں میں بیٹھنے والے بزرگ قبیلہ کے نوجوانوں کو آج بھی اْن کی طرز زندگی کے مطابق زندگی گزارنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں۔
9018921286*

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا