دہشت گردی کی آگ میں سلگتا ہندوستان

0
0
کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس پر  صدیوں مسلمانوں کا تسلط رہا ؟ کیا یہ وہی ہندوستان ہے جسے غلامی کی زنجیروں سے أزاد کرانے کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے شہادت کا جام پی لیا ، کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس جمہوری ہندوستان کا خواب پنڈت جواہر لال نہرو نے دیکھا تھا؟ وٶٹوں کی فصل کاٹنے کے چکر میں سیاست دانوں نے جس معاشرے کی تشکیل کر دی ہے اس میں قدم قدم پر جمہوریت  کا کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس پر سدیوں مسلمانوں کا تسلط رہا ؟ کیا یہ وہی ہندوستان ہے جسے غلامی کی زنجیروں سے أزاد کرانے کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے شہادت کا جام پی لیا ، کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس جمہوری ہندوستان کا خاب پنڈت جواہر لال نہرو نے دیکھا تھا؟ وٶٹوں کی فصل کاٹنے کے چکر میں سیاست دانوں نے جس معاشرے کی تشکیل کر دی ہے اس میں قدم قدم پر جمہوریت  کا قتل ہو رہا ہے ،ہر روز انسانیت شرمسار ہو رہی ہے ،دن بہ دن ہم ذلیل اور خوار ہو رہے ہیں ۔ہندوستان کی گنگا جمنی تہزیب میں نفرت کے وہ بیج بو دیے گۓ ہیں  جن سے دہشت گردی کی فصل لہلہا رہی ہے تعصب،فرقہ واریت اور مزہب کی بنیاد پر ہجومی تشدد اور وہشیانہ قتل کی وارداتیں سرِ عام انجام دی جا رہی ہیں ۔کبھی گاۓ کی حفاظت کے نام پر ،کبھی گاے کی چوری کے نام پر ،کبھی گوشت کھانے کے شک میں ،کبھی چوری کے شک میں ، ہجومی تشدد کی اور حیوانیت کی ساستانیں عام ہو رہی ہیں ، ہر روز انسانیت کا خون ہو رہا ہے ،کہتے ہیں بھیڑ کی کوٸ شکل نہیں ہوتی ان کا کوٸ دین نہیں ہوتا کوٸ مزہب نہیں ہوتا مگر یہ کیا مزہب کے نام پر ہی یہ وحشیانہ وارداتیں انجام دی جا رہی ہیں موب لنچنگ کی وارداتیں ہر روز بڑھتی جا رہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کو اکساتا کون ہے ؟اس بھیڑ کو شہ کون دیتا ہے ؟ اتنی ہمت ان میں کہاں سے أ رہی ہے کہ انسان کی جان جانور کی جان سے بھی سستی سمجھتے ہیں اور بنا کسی خوف و خطر کے انسانیت کا بے رحمی سے قتل کر دیتی ہے، جواب ہم سبھی کے علم میں ہے پھر کس بات کا خوف ہے جس نے ہمارے لبوں پر قلنچ لگا رکھے ہیں ،کیوں ہم جانتے ہیں قانون بھی انکا ہے اور عدالت بھی انکی ،حاکم بھی ان کا ہے اور محکوم بھی ان کا جرم بھی ان کا اور مجرم بھی ان کا ہماری لب کشاٸ کہیں ہمیں مہنگی نہ پڑ جاۓ یہی سوچ کر ہم خاموش رہتے ہیں ۔کیا ہم اتنے کمزور ہو گۓ ہیں جو اپنی جان کا بدلہ نہیں لے سکتے ؟ کیا ہم اتنے لاچار ہیں جو اپنے اوپر ہوۓ ظلم کا جواب نہیں دے سکتے۔لیکن اگر قانون ہر ہاتھ کا کھلونا ہو جاۓ گا تو پولس عدالت انصاف سب صرف اور لفظ بن کر رہ جایں گے محمد اخلاق سے لیکر اکبر خان تک چار سالوں میں موب لنچنگ کے 134 معاملے سامنے أ چکے ہیں ایک ویب ساٸڈ کے مطابق ان معاملوں میں اب تک 60 لوگوں کی جان جا چکی ہے ،ان میں مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کے ساتھ ہوۓ تشدد بھی شامل ہیں اگر صرف گاۓ کی حفاظت کے نام پر ہوٸ دہشت گردی کی بات کریں سال 2014 میں ایسے تین معاملے أۓ اور 11لوگ زخمی ہوۓ 2015 میں یہ گنتی بڑھ کر 15 ہو گٸ ان 15 معملوں میں 10لوگو کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا اور 48 لوگ زخمی ہوۓ 2016 میں گاۓ کی حفاظت کے نام پر دہشت گردی کی وارداتیں دوگنی ہو گٸں 24 ایسے معملوں میں أٹھ لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی جبکہ 58 لوگوں کو پیٹ پیٹ کر بد حال کر دیا گیا ۔2017 میں گاۓ کی حفاظت کے نام دہشت گردی پھیلانے والے ایسے بے قابو ہوۓ کہ معملے بڑھ کر 37 ہو گۓ جن می 11افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گۓ 158 لوگ زخمی ہوۓ ،کل ملا کر صرف گاۓ  کی حفاظت کے نام پر اب تک دہشت گردی اور ہجومی تشدد کے 85 معاملے سامنے أۓ جن میں 34 افراد کی موت ہو گٸ اور 289 افراد ادھمری حالت میں چھوڑ دیے گے لیکن یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا 2018 میں بھی کٸ موب لنچنگ کی وارداتیں انجام دی گیٸں ۔اج سے 10 مہنے پہلے 20 اگست 2018 کو سنت پور کے انتظار احمد سمیت تین لوگوں کی پٹاٸ کی گیٸ ۔۔اس پٹاٸ کے بعد انتظار صاحب کی یاد داشت چلی گٸ وہ بے ہوش رہنے لگے افسوس سد افسوس اس طویل علاج کے باوجود انکی جان نہیں بچاٸ جا سکی اور 25 جون 2019 کو وہ اس سراۓ فانی سے رخصت ہو گۓ ان کی موت ابھی ذہن سے اتری بھی نہں تھی کہ جھارکھنڈ کے تبریز انصاری نام کے نوجوان کو  محض چوری کے الزام میں بھیڑ نے وحشیانہ تشدد کیا اسے کنبھے سے باندھ کر جانوروں کی طرح پیٹا گیا جس کی شادی کو ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوۓ تھےبتبریز کی نٸ نویلی دلہن اپنے شوہر کا۔انتظار کرتی رہی اور بھیڑ گھنٹوں اس پر تشدد کرتی رہی یہ سب قلم بند کرتے ہوۓ ذار ذار میری انکھوں سے اشک رواں ہیں تحریر مانوں تبریز کے خون کے خون کی روشناٸ سے لکھی جا رہی ہے  تبری سے بار بار کہا جا رہا تھا بول  ”جۓ شری رام “ یہ کون سا مزہب جس نے انسان کو انسان حیوان بنا دیا ایک پل کو بھی انہیں پولس عدالت قانون کیوں نہیں یاد أیا ،کیوں نہیں احساس ہوا تبریز بھی ان کی طرح انسان ہے اس جمہوری نظام میں لنچنگ انفرادیت اد قدر طاقت ور ہو چکی ہے کہ اسے کسی کی بھی جان لینے میں کوٸ ڈر نہیں   کوٸ خوف نہیں ،اور ہو بھی کیوں نہ کوٸ ان پر روک لگانے کو تیار ہے نہ پولیس اس پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے بلکہ معلوم ہوتا پولیس ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے شرماٸ لجاٸ دلہن کی طرح دہشت گرد ہجوم کے خوف سے ایک طرف تماش بین بنی کھڑی ہے مانو اگر اس نے ان وحشی انسان نمإ وحشیوں کو روکنے کی کوشش کی تو یہ لوگ پولس کو بھی مار ڈالیں گے یہ شر پسند طبقہ اپنی بیمار ذہنیت کو تسکین دینے کے لیے ایک بھوکے گدھ کی طرح معصوم اور بے قصور انسان پر ٹوٹے ہوۓ ہیں ۔یہ ہجوم موقعے پر ہی فیصلہ کر دیتی ہے اسے کسی عدالت کسی انصاف کی ضرورت نہیں معلوم ہوتا ہے گنگا جمنی تہزیب کے ترجمان اس ملک پر ظلم اور دہشت گردی کی ہی حکومت ہے لیکن میں  تاریخ گواہ ہے جب جب مسلمان نے اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف تحریک چھیڑی ہے انصاف کا پرچم لہرا کر ہی دم لیا ہے صرف ایک لفظ مسلمان میں ہی وہ ہمت اور طاقت ہے جو ایک 70 پر بھاری رہتا ہے پھر کیا وجہ ہے أج مسلمان صرف اس لیے پٹ رہا ہے کہ کہ وہ مسلمان ہے تاریکیاں ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہیں ،مایوسیوں نے ہمارے دل میں گھر کر لیا ہے اسلام کا پرچم لہرانے والی قوم پستی کی طرف ماٸل ہوتی جا رہی ہے شاید اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں ،جو قوم اپنی حالت خود نہں بدل سکتی اسکی حالت کوٸ اور کیا بدلےگا ہم اب مسلمان کہاں ہیں ہم تو دیوبندی ،سنی، شیعہ ،جماعتِ اسلام ،اہلِ حدیس اور نہ جانے کیا کیا بن گۓ ہیں ۔کب ہمیں کب ہمیں اپنے فایدے کے لیے دوسروں کے نقصان کی پرواہ کرتے ہیں ،کب ہم کسی کی مدد کے لیے اپنا وقت برباد کرتے ہیں ہمارے اتنے بڑے بڑے کاروبار چل رہے ہیں اس میں نقصان نہ ہوگا اگر ہم اپنا وقت برباد کریں  گے ؟کب ہم غیر کے سامنے متحد  ہوکر اپنے حق کے لیے لڑتے ہیں؟ ۔کب ہم کب ہم انتخابات کے وقت متحد ہوکر اپنے رہبر کو چنتے ہیں ؟ اگر ہم حقیقتاً صرف اور اور صرف مسلمان ہوتے تو شاید اج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اگر اب بھی ہماری انکھیں نہ کھلیں تو ہمیں ایک ایک ایک کرکے نہ جانے کتنے تبریز ،موت کے گھاٹ اتارے جاتے رہیں گے اب وقت أ چکا ہے کہ یہ قوم نیند سے بیدار ہو اور اپنے حق کے لیے لڑاٸ لڑیں اور اس لڑاٸ کو تب تک جاری رکھیں جب تک خونی تشدد کی یہ داستان ختم نہ ہو جاۓ اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کل اس ظلم اور تشدد کا شکار  أپ بھی ہو سکتے ہیں اپ کا نوجوان بھاٸ بھی ہو سکتا اپ کاکمسن بیٹا بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کو کچھ شرپسند عناصر کی طرف سے منظم طریقے سے نافذ العمل کیا جا رہا ہے تاکہ یہ خونی سلسلہ بدستور جاری رہے ۔۔۔
عارفہ مسعود عنبر ۔۔ ہو رہا ہے ،ہر روز انسانیت شرمسار ہو رہی ہے ،دن بہ دن ہم ذلیل اور خوار ہو رہے ہیں ۔ہندوستان کی گنگا جمنی تہزیب میں نفرت کے وہ بیج بو دیے گۓ ہیں  جن سے دہشت گردی کی فصل لہلہا رہی ہے تعصب،فرقہ واریت اور مزہب کی بنیاد پر ہجومی تشدد اور وہشیانہ قتل کی وارداتیں سرِ عام انجام دی جا رہی ہیں ۔کبھی گاۓ کی حفاظت کے نام پر ،کبھی گاے کی چوری کے نام پر ،کبھی گوشت کھانے کے شک میں ،کبھی چوری کے شک میں ، ہجومی تشدد کی اور حیوانیت کی داستانیں عام ہو رہی ہیں ، ہر روز انسانیت کا خون ہو رہا ہے ،کہتے ہیں بھیڑ کی کوٸ شکل نہیں ہوتی ان کا کوٸ دین نہیں ہوتا کوٸ مزہب نہیں ہوتا مگر یہ کیا مزہب کے نام پر ہی یہ وحشیانہ وارداتیں انجام دی جا رہی ہیں موب لنچنگ کی وارداتیں ہر روز بڑھتی جا رہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بھیڑ کو  اکساتا کون ہے ؟ کون شہ  دیتا ہے ؟ اتنی ہمت ان میں کہاں سے أ رہی ہے کہ انسان کی جان جانور کی جان سے بھی سستی سمجھتی ہے اور بنا کسی خوف و خطر کے انسانیت کا بے رحمی سے قتل کر دیتی ہے، جواب ہم سبھی کے علم میں ہے پھر کس بات کا خوف ہے جس نے ہمارے لبوں پر قلنچ لگا رکھے ہیں ،کیوں کہ  ہم جانتے ہیں قانون بھی انکا ہے اور عدالت بھی انکی ،حاکم بھی ان کا ہے اور محکوم بھی ان کا جرم بھی ان کا اور مجرم بھی ان کا ہماری لب کشاٸ کہیں ہمیں مہنگی نہ پڑ جاۓ یہی سوچ کر ہم خاموش رہتے ہیں ۔کیا ہم اتنے کمزور ہو گۓ ہیں جو اپنی جان کا بدلہ نہیں لے سکتے ؟ کیا ہم اتنے لاچار ہیں جو اپنے اوپر ہوۓ ظلم کا جواب نہیں دے سکتے۔لیکن اگر قانون ہر ہاتھ کا کھلونا ہو جاۓ گا تو پولس عدالت انصاف سب صرف اور  صرف لفظ بن کر رہ جایں گے محمد اخلاق سے لیکر اکبر خان تک چار سالوں میں موب لنچنگ کے 134 معاملے سامنے أ چکے ہیں ایک ویب ساٸڈ کے مطابق ان معاملوں میں اب تک 60 لوگوں کی جان جا چکی ہے ،ان میں مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کے ساتھ ہوۓ تشدد بھی شامل ہیں اگر ہم  صرف گاۓ کی حفاظت کے نام پر ہوٸ دہشت گردی کی بات کریں تو  سال 2014 میں ایسے تین معاملے سامنے  أۓ اور 11لوگ زخمی ہوۓ ،2015 میں یہ گنتی بڑھ کر 15 ہو گٸ ان 15 معملوں میں 10لوگو کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا اور 48 لوگ زخمی ہوۓ 2016 میں گاۓ کی حفاظت کے نام پر دہشت گردی کی وارداتیں دوگنی ہو گٸں 24 ایسے معملوں میں أٹھ لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی جبکہ 58 لوگوں کو پیٹ پیٹ کر بد حال کر دیا گیا ۔2017 میں گاۓ کی حفاظت کے نام دہشت گردی پھیلانے والے ایسے بے قابو ہوۓ کہ یہ  معملے بڑھ کر 37 ہو گۓ جن میں 11افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گۓ 158 لوگ زخمی ہوۓ ،کل ملا کر صرف گاۓ  کی حفاظت کے نام پر اب تک دہشت گردی اور ہجومی تشدد کے 85 معاملے سامنے أۓ جن میں 34 افراد کی موت ہو گٸ اور 289 افراد ادھمری حالت میں چھوڑ دیے گے لیکن یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا 2018 میں بھی کٸ موب لنچنگ کی وارداتیں انجام دی گیٸں ۔اج سے 10 مہنے پہلے 20 اگست 2018 کو سنت پور کے انتظار احمد سمیت تین لوگوں کی پٹاٸ کی گیٸ ۔۔اس پٹاٸ کے بعد انتظار صاحب کی یاد داشت چلی گٸ وہ بے ہوش رہنے لگے افسوس سد افسوس اس طویل علاج کے باوجود انکی جان نہیں بچاٸ جا سکی اور 25 جون 2019 کو وہ اس سراۓ فانی سے رخصت ہو گۓ ان کی موت ابھی ذہن سے اتری بھی نہں تھی کہ جھارکھنڈ کے تبریز انصاری نام کے نوجوان کو  محض چوری کے الزام میں بھیڑ نے وحشیانہ تشدد کیا اسے کنبھے سے باندھ کر جانوروں کی طرح پیٹا گیا جس کی شادی کو ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوۓ تھےبتبریز کی نٸ نویلی دلہن اپنے شوہر کا۔انتظار کرتی رہی اور بھیڑ گھنٹوں اس پر تشدد کرتی رہی یہ سب قلم بند کرتے ہوۓ ذار ذار میری انکھوں سے اشک رواں ہیں تحریر مانوں تبریز کے خون کی روشناٸ سے لکھی جا رہی ہے  ۔تبریز سے بار بار کہا جا رہا تھا بول  ”جۓ شری رام “ یہ کون سا مزہب جس نے انسان کو انسان سے حیوان بنا دیا ایک پل کو بھی انہیں پولس عدالت قانون کیوں نہیں یاد أیا ،کیوں نہیں احساس ہوا تبریز بھی ان کی طرح انسان ہے اس جمہوری نظام میں لنچنگ انفرادیت اد قدر طاقت ور ہو چکی ہے کہ اسے کسی کی بھی جان لینے میں کوٸ ڈر نہیں   کوٸ خوف نہیں ،اور ہو بھی کیوں نہ کوٸ ان پر روک لگانے کو تیار ہے نہ پولس اس پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے بلکہ معلوم ہوتا پولس ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے شرماٸ لجاٸ دلہن کی طرح دہشت گرد ہجوم کے خوف سے ایک طرف تماش بین بنی کھڑی ہے مانو اگر اس نے ان  انسان نمإ وحشیوں کو روکنے کی کوشش کی تو یہ لوگ پولس کو بھی مار ڈالیں گے ۔یہ شر پسند طبقہ اپنی بیمار ذہنیت کو تسکین دینے کے لیے ایک بھوکے گدھ کی طرح معصوم اور بے قصور انسان پر ٹوٹے ہوۓ ہیں ۔یہ ہجوم موقعے پر ہی فیصلہ کر دیتی ہے اسے کسی عدالت کسی انصاف کی ضرورت نہیں معلوم ہوتا ہے گنگا جمنی تہزیب کے ترجمان اس ملک پر ظلم اور دہشت گردی کی ہی حکومت ہے لیکن   تاریخ گواہ ہے جب جب مسلمان نے اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف تحریک چھیڑی ہے انصاف کا پرچم لہرا کر ہی دم لیا ہے ،صرف ایک لفظ مسلمان میں ہی وہ ہمت اور طاقت ہے جو ایک 70 پر بھاری رہتا ہے پھر کیا وجہ ہے أج مسلمان صرف اس لیے پٹ رہا ہے کہ کہ وہ مسلمان ہے، تاریکیاں ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہیں ،مایوسیوں نے ہمارے دل میں گھر کر لیا ہے اسلام کا پرچم لہرانے والی یہ  قوم پستی کی طرف ماٸل ہوتی جا رہی ہے شاید اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں ،جو قوم اپنی حالت خود نہں بدل سکتی اسکی حالت کوٸ اور کیا بدلےگا ہم۔ اب مسلمان کہاں ہیں ہم تو دیوبندی ،سنی، شیعہ ،جماعتِ اسلام ،اہلِ حدیس اور نہ جانے کیا کیا بن گۓ ہیں ۔کب  ہم اپنے فایدے کے لیے دوسروں کے نقصان کی پرواہ کرتے ہیں ،کب ہم کسی کی مدد کے لیے اپنا وقت برباد کرتے ہیں ہمارے اتنے بڑے بڑے کاروبار چل رہے ہیں اس میں نقصان نہ ہوگا اگر ہم اپنا وقت برباد کریں  گے ؟کب ہم غیر کے سامنے متحد  ہوکر اپنے حق کے لیے لڑتے ہیں؟ ۔کب ہم کب ہم انتخابات کے وقت متحد ہوکر اپنے رہبر کو چنتے ہیں ؟ اگر ہم حقیقتاً صرف اور اور صرف مسلمان ہوتے تو شاید اج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اگر اب بھی ہماری انکھیں نہ کھلیں تو  ا ایک ایک کرکے نہ جانے کتنے تبریز موت کے گھاٹ اتارے جاتے رہیں گے ،اب وقت أ چکا ہے کہ یہ قوم نیند سے بیدار ہو اور ہم اپنے حق کے لیے لڑاٸ لڑییں اور اس لڑاٸ کو تب تک جاری رکھیں جب تک خونی تشدد کی یہ داستان ختم نہ ہو جاۓ اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کل اس ظلم اور تشدد کا شکار  أپ بھی ہو سکتے ہیں اپ کا نوجوان بھاٸ بھی ہو سکتا ہے ، اپ کاکمسن بیٹا بھی ہو ،سکتا ہے، کیوں کہ اس کو کچھ شرپسند عناصر کی طرف سے منظم طریقے سے نافذ العمل کیا جا رہا ہے تاکہ یہ خونی سلسلہ بدستور جاری رہے ۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا